لائف اسٹائل

دھوکے سے انٹرویو کرنے کا الزام: شہزادی ڈیانا کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتا تھا، مارٹن بشیر

اور نہ ہی سمجھتا تھا کہ شہزادی ڈیانا کی زندگی میں رونما ہونے والے دیگر کئی عوامل کا ذمہ دار مجھے ٹھہرایا جاسکتا ہے، صحافی

برٹش براڈکاسٹنگ کارپوریشن (بی بی سی) کے صحافی مارٹن بشیر نے 25 سال قبل 'دھوکے' سے شہزادی ڈیانا کا انٹرویو کرنے کے الزامات ثابت ہونے پر ان کے بیٹوں شہزادہ ولیم اور ہیری سے معذرت کی ہے اور کہا ہے کہ ان کے عمل کو شہزادی کی موت سے منسلک کرنے کے دعوے 'بلاجواز' ہیں۔

خیال رہے کہ بی بی سی اور اس کے صحافی مارٹن بشیرپر الزام تھا کہ انہوں نے 1995 میں لیڈی ڈیانا اور اس کے بھائی کو جعلی دستاویزات دکھا کر انٹرویو دینے کے لیے قائل کیا تھا۔

تاہم تفتیشی رپورٹ آنے سے 10 روز قبل ہی مارٹن بشیر نے زائد العمری اور ناسازی طبیعت کے باعث بی بی سی کی ملازمت سے علیحدگی اختیار کی تھی۔

مزید پڑھیں: ’دھوکے سے انٹرویو‘ کرنے کا الزام ثابت ہونے پر بی بی سی کی معذرت

مارٹن بشیر کئی دہائیوں سے بی بی سی سے منسلک تھے اور وہ اس وقت مذہبی معاملات کے علاقائی ڈائریکٹر تھے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق مارٹن بشیر نے اخبار سنڈے ٹائمز کو بتایا کہ وہ شہزادی ڈیانا کے بیٹوں شہزادہ ولیم اور شہزادہ ہیری سے دل سے معذرت کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 'میں کبھی بھی کسی بھی طریقے سے شہزادی ڈیانا کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتا تھا اور میں نہیں مانتا کہ ہم نے ایسا کچھ کیا'۔

تاہم تفتیشی رپورٹ آنے کے بعد شہزاد ولیم نے کہا تھا کہ مارٹن بشیر کے عمل اور انٹرویو نے ان کے والدین کے رشتے کو ختم کرنے میں 'بڑا کردار' ادا کیا اور اس انٹرویو نے شہزادی ڈیانا کو ان کی زندگی کے آخری سالوں میں خوف اور تنہائی کا شکار کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔

دوسری جانب شہزادہ ہیری نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا تھا کہ دھوکا دہی پر مبنی اس عمل نے ان کی والدہ کی موت میں بڑا کردار ادا کیا، انہوں نے کہا تھا کہ 'استحصال اور غیراخلاقی پریکٹس کے کلچر نے بالآخر ان کی (شہزادی ڈیانا) جان لے لی'۔

تاہم مارٹن بشیر نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ 'میں نہیں سمجھتا کہ شہزادی ڈیانا کی زندگی میں رونما ہونے والے دیگر کئی عوامل اور ان فیصلوں سے جڑے پیچیدہ مسائل کا ذمہ دار مجھے ٹھہرایا جاسکتا ہے'۔

مارٹن بشیر نے کہا کہ 'یہ کہنا کہ صرف میں ہر چیز کا ذمہ دار ہوں میرے خیال سے بلاجواز اور غیر منصفانہ ہے'۔

انہوں نے بتایا کہ 1995 میں کیا گیا انٹرویو شہزادی ڈیانا کی شرائط کے مطابق نشر ہوا تھا اور وہ انٹرویو 2 کروڑ 28 لاکھ لوگوں کے دیکھنے کے باوجود بھی ہماری دوستی برقرار تھی۔

مارٹن بشیر کا کہنا تھا کہ 'میں اور میرے اہلخانہ شہزادی ڈیانا سے محبت کرتے تھے'۔

انہوں نے مزید بتایا کہ شہزادی ڈیانا، ان کے بچے کی پیدائش پر ہسپتال گئی تھیں اور اہلیہ اور نومولود سے ملاقات کی تھی اور شہزادی نے ان کے بیٹے کی سالگرہ پر کنسنگٹن پیلس میں برتھ ڈے پارٹی بھی کی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ انہیں شہزادی ڈیانا کے بھائی کو وہ جعلی دستاویزات دکھانے پر افسوس ہے لیکن ان کے اس عمل کا شہزادی ڈیانا کے انٹرویو دینے کے فیصلے اور اس میں کیے جانے والے انکشافات پرکوئی اثر نہیں پڑا تھا۔

بی بی سی کے سابق سربراہ عہدے سے مستعفی

دوسری جانب شہزادی ڈیانا کا انٹرویو ’دھوکے‘ سے کرنے کے الزامات ثابت ہونے پر تنقید کے باعث بی بی سی کے سابق سربراہ نے برطانوی نیشنل گیلری کے چیئرمین کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔

اے ایف پی کی علیحدہ رپورٹ کے مطابق ٹونی ہال جنہوں نے انٹرویو کے حوالے سے تحقیقات کی تھیں اور بعد میں انہیں بی بی سی کا سربراہ بنایا گیا تھ، نے گزشتہ روز جاری کردہ ا ایک بیان میں نیشنل گیلری کے چیئرمین کے عہدے سے استعفیٰ دینے سے متعلق بتایا۔

یہ بھی پڑھیں: لیڈی ڈیانا کے 25 سال پرانے انٹرویو پر تنازع

انہوں نے کہا کہ 'جیسا کہ میں نے دو دن پہلے کہا تھا کہ مجھے 25 برس پہلے ہونے والے واقعے پر بہت افسوس ہے اور میرا مانناہے کہ قیادت، ذمہ داری لینے کا نام ہے'۔

لندن کی نیشنل گیلری سے جاری بیان میں انہوں نے کہا کہ ’مجھ میں ہمیشہ لوگوں کی خدمت کرنے کا جذبہ رہا ہے اور یہ واضح ہے کہ میرے اس عہدے پر رہنے سے ادارے پر اثر پڑے گا جس کی میں بہت قدر کرتا ہوں'۔

دھوکے سے انٹرویو کا الزام اور تحقیقات

خیال رہے کہ پاکستانی نژاد صحافی مارٹن بشیر پر الزام تھا کہ انہوں نے لیڈی ڈیانا کے بھائی کو برطانوی خفیہ اداروں کے بینک اکاؤنٹس کے ایسے دستاویزات دکھائے تھے، جن سے ثابت ہو رہا تھا کہ خفیہ ادارے شاہی خاندان کے دو اہم ترین افراد کو لیڈی ڈیانا کی ذاتی معلومات دینے کے عوض رقم دیتے آ رہے تھے۔

اور ایسی دستاویزات اور من گھڑت باتیں بتائے جانے کے بعد ہی لیڈی ڈیانا نے مارٹن بشیرکو انٹرویو دینے کے لیے رضامندی ظاہر کی تھی۔

مذکورہ انٹرویو کو ’پینوراما انٹرویو‘ بھی کہا جاتا ہے، جس میں لیڈی ڈیانا نے شہزادہ چارلس سے طلاق سمیت شاہی خاندان میں اپنی زندگی کی مشکلات پر کھل کر بات کی تھی۔

مذکورہ انٹرویو کو دنیا بھر میں 2 کروڑ سے زائد مرتبہ دیکھا گیا تھا اور اس نے پوری دنیا میں تہلکہ مچا دیا تھا، اسی انٹرویو کے دو سال بعد 1997 میں لیڈی ڈیانا پیرس میں ایک روڈ حادثے میں ہلاک ہوگئی تھیں۔

مذکورہ انٹرویو کے لیے لیڈی ڈیانا کو غلط معلومات فراہم کرنے کے الزامات پر بی بی سی نے 1996 میں بھی معافی مانگی تھی۔

تاہم گزشتہ برس ستمبر میں لیڈی ڈیانا کے بھائی کی جانب سے پرانے انٹرویو سے متعلق دوبارہ بات کرنے کے بعد بی بی سی نے نومبر 2020 میں مذکورہ معاملے کی تفتیش کا اعلان کیا تھا۔

بی بی سی نے تفتیش کے لیے ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس کو مقرر کیا تھا، جس نے اپنی رپورٹ 20 مئی کو پیش کی۔

اسی حوالے سے بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ تفتیشی رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ لیڈی ڈیانا کو دھوکا دے کر ان سے انٹرویو لیا گیا۔

مذکورہ رپورٹ میں مارٹن بشیر کو قصور وار ٹھہرانے سمیت بی بی سی کی اعلیٰ انتظامیہ کو بھی اس میں شریک ملزم قرار دیا گیا تھا۔

بی بی سی کے مطابق مذکورہ رپورٹ آنے کے بعد ادارے نے تحریری طور پر شاہی خاندان اور خصوصی طور پر شہزادہ ولیم اور شہزادہ ہیری سے معافی مانگی ہے۔

سندھ میں کووڈ-19 بندشوں میں نرمی کی کوئی گنجائش نہیں، مراد علی شاہ

چین کا وہ منصوبہ جو دنگ کردینے والا ہے

واٹس ایپ ہسٹری ایک سے دوسرے فون نمبر میں منتقل کرنے کا فیچر