اکثر اس کا علاج ایک بڑے آپریشن سے ہوتا ہے جس میں آنکھ، کھوپڑی یا جبڑے کا ایک ٹکڑا نکال دیا جاتا ہے۔
عام طور پر یہ بیماری بہت کم افراد کو متاثر کرتی ہے مگر بھارت میں اب تک اس کے 7 ہزار 2 سو سے زیادہ کیسز اور 219 ہلاکتیں رپورٹ ہوچکی ہیں۔
یہ بیماری ایسے مریضوں میں زیادہ پھیل رہی ہے جن کو کووڈ 19 کی سنگین شدت کا سامنا ہوا اور اس کی وجہ علاج کے دوران اسٹرائیڈز کا بہت زیادہ استعمال قرار دیا جارہا ہے، جس کے نتیجے میں مدافعتی نظام دب جاتا ہے۔
بھارت میں ذیابیطس کی شرح بہت زیادہ ہونا بھی ایک ممکنہ وجہ ہے کیونکہ ہائی بلڈ شوگر میں اس کا خطرہ بڑھتا ہے۔
کچھ رپورٹس کے مطابق کووڈ کے ایسے مریض جو آئی سی یو میں وینٹی لیٹرز پر ہوتے ہیں، ان کی سانس کی گزرگاہ میں نمی بڑھنے سے فنگس کا خطرہ بڑھتا ہے۔
فنگس کا باعث بننے والے بیماری سطح اور آرگنگ مواد میں ہائی جاتی ہے اورسانس کے ذریعے جسم میں پہنچتی ہے۔
جسم میں داخل ہونے کے بعد یہ ناک اور آںکھوں کے ارگرد پھیلنے لگتی ہے جس سے ناک کی رنگت سیاہ ہوجاتی ہے اور اس کی روک تھام نہ کی جائے تو یہ دماغ تک پہنچ کر جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے۔
صحت مند افراد تو اس کا مقابلہ کرسکتے ہیں مگر کمزور مدافعتی نظام کے حامل لوگوں میں یہ بہت تیزی سے پھیلتی ہے۔
اب تک بھارت کی 5 ریاستوں تامل ناڈو، اوڑیسہ، گجرات، راجھستان اور تیلنگانہ نے اسے وبا قرار دیا ہے اور متعدد ریاستوں کی جانب سے بھی ایسا اعلان متوقع ہے۔
انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ نے اس بیماری کی تشخیص اور علاج کے لیے ایک ایڈوائزری بھی جاری کی ہے۔
مہاراشٹرا میں اب تک بلیگ فنگس کے ڈیڑھ ہزار سے زیادہ کیسز اور 90 اموات رپورٹ کیے جاچکے ہیں، جبکہ دہلی کے ہسپتالوں میں بھی تیزی سے کیسز کی شرح بڑھی ہے۔