پاکستان

پاکستان کی معاشی شرح نمو 3.94 فیصد تک بڑھنے کی پیش گوئی

نمو کے اعداد و شمار حیران کن ثابت ہوئے ہیں کیونکہ اسٹیٹ بینک نے جی ڈی پی کی شرح نمو کا تخمینہ 3 فیصد لگایا تھا، رپورٹ

اسلام آباد: پاکستان کی معیشت نے توقع سے بڑھ کر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کووڈ 19 کے دوران تمام بڑے معاشی اشاروں پر مثبت رجحان دکھایا جس کے نتیجے میں رواں مالی سال معاشی شرح نمو 3.94 فیصد رہی جو گزشتہ مالی سال منفی 0.47 فیصد تھی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نمو کے اعداد و شمار حیران کن ثابت ہوئے کیونکہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے جی ڈی پی کی شرح نمو کا تخمینہ 3 فیصد لگایا تھا جبکہ وزارت خزانہ نے تخمینہ اس سے مزید تھوڑا کم گایا تھا۔

اس کے علاوہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور ورلڈ بینک کی جانب سے نمو کا تخمینہ رواں مالی سال کے لیے بالترتیب 1.3 فیصد اور 1.5 فیصد کے درمیان تھا۔

مزید پڑھیں: آئندہ 5 سال کی معاشی شرح نمو زیادہ حوصلہ افزا نہیں

متعدد سالوں سے سروسز کا شعبہ ملک میں معاشی نمو کی ایک بڑی وجہ بن رہا ہے اور اس سال اس میں 4.43 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

بڑے شعبوں میں سروسز کی فراہمی میں کورونا وائرس نے رواں سال بھی خدمات کے شعبے کو جزوی طور پر متاثر کیا ہے۔

تاہم زراعت کے شعبے میں نمو میں 2.77 فیصد اضافہ ہوا جبکہ صنعتی پیداوار میں 3.57 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

یہ اعداد و شمار مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا جائزہ لینے کے لیے منصوبہ بندی، ترقی اور اصلاحات کے سیکریٹری حمید کی زیر صدارت قومی اکاؤنٹس کمیٹی کے 103ویں اجلاس میں سامنے لائے گئے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کے تیسرے سال میں معیشت کی مجموعی طور پر ایک بہتر تصویر پیش کرتے ہوئے ایک سرکاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ جی ڈی پی اور گراس فکسڈ کیپیٹل فارمیشن (جی ایف سی ایف) کے لیے مالی سال 21-2020 کے تخمینے 6 سے 9 ماہ کے تازہ دستیاب ڈیٹا کے مطابق پیش کیے گئے ہیں۔

جمعہ کو اپنے ٹوئٹ میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ یہ شرح نمو کورونا کی وبا پر قابو پاتے ہوئے حاصل کی گئی جو ہماری معاشی پالیسیوں کی کامیابی کی عکاس ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بہتر ہوتی ہوئی معیشت کا سراب

ان کا کہنا تھا کہ 'ہماری وی (انگریزی حروف تہجی وی) کی شکل کی معاشی بحالی زراعت، صنعت اور سروسز جیسے 3 بڑے شعبوں کے درمیان توازن پر محیط ہے'۔

2020-21 کے دوران ملک کی جی ڈی پی کا حجم 477 کھرب 9 ارب روپے رہا جبکہ اس سے گزشتہ سال یہ 415 کھرب 55 ارب 60 کروڑ روپے تھا جو 14.8 فیصد اضافہ ظاہر کرتا ہے۔

تاہم اس کے برخلاف 21-2020 میں جی ڈی پی کا حجم 296 ارب ڈالر ہو گیا جو 20-2019 میں 263 ارب روپے تھا جو 33 ارب یا 12.54 فیصد کا اضافہ ظاہر کرتا ہے۔

ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں اضافے کے ساتھ ڈالر کے لحاظ سے معیشت میں بہتری آئی، یہ کسی بھی سال میں سب سے زیادہ اضافہ ہے۔

2020-21 کے لیے فی کس آمدنی 2 لاکھ 46 ہزار 414 روپے لگائی گئی ہے جبکہ گزشتہ مالی سال یہ 2 لاکھ 15 ہزار 60 روپے تھی جس میں 14.6 فیصد کا اضافہ دکھایا گیا ہے۔

ڈالر کے لحاظ سے فی کس آمدنی رواں مالی سال کے دوران 13.4 فیصد اضافے سے ایک ہزار 543 ڈالر ہوگئی ہے جو گزشتہ سال ایک ہزار 361 ڈالر تھی۔

وزیر منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر نے کہا کہ جی ڈی پی کی نمو اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی مضبوطی کی وجہ سے فی کس آمدنی میں اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جی ڈی پی میں ایسے وقت میں نمو جب کووڈ 19 نے معیشت کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج کھڑا کردیا تھا، حکومت کی معاشی پالیسیوں کی کامیابی کا ثبوت ہے۔

وفاقی وزیر توانائی حماد اظہر نے جی ڈی پی کی نمو کو قابل ذکر بحالی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ماضی کی نمو کے مقابلے میں غیر ملکی کرنسی کے ذخائر میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے کرنٹ اکاؤنٹ میں اضافے کی نشاندہی کی اور کہا کہ اس ترقی کے پیچھے صنعتوں کا ہاتھ ہے۔

انہوں نے کہا کہ گندم اور بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ بہتر ہوئی تو پورے سال کے اعداد و شمار کا آخری تخمینہ مزید بڑھ سکتا ہے۔

زراعت کا شعبہ

مالی سال 21-2020 کے دوران زراعت کے شعبے میں 2.77 فیصد کا اضافہ ہوا جو 20-2019 میں 3.31 فیصد تھا۔

گندم، چاول اور مکئی کی تاریخ میں سب سے زیادہ اور گنے نے دوسری سب سے زیادہ پیداوار درج کی جس کے ساتھ رواں سال اہم فصلیں 4.65 فیصد زیادہ ہوئی ہیں۔

گندم، چاول، گنے اور مکئی کی پیداوار میں اضافہ بالترتیب 8.1، 13.6، 22 اور 7.38 فیصد ریکارڈ کیا گیا ہے۔

تاہم کپاس میں منفی 22.8 نمو دیکھنے میں آئی ہے۔

دیگر فصلوں بشمول سبزی، پھل اور سبز چارہ میں 1.41 فیصد اضافہ ہوا، مویشیوں کے شعبے میں 3.1 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا جبکہ جنگلات میں گزشتہ سال 2.29 فیصد کے مقابلے میں نمو 1.4 فیصد پر آگئی۔

صنعتی شعبہ

اس سال مجموعی طور پر صنعتی شعبے میں 3.57 فیصد کی نمو دیکھنے میں آئی ہے جبکہ گزشتہ سال 3.77 فیصد کی منفی نمو ہوئی تھی۔

تاہم کان کنی کے شعبے میں 6.5 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

لارج اسکیل مینوفیکچرنگ (ایل ایس ایم) سیکٹرمیں 9.29 فیصد کی غیر معمولی نمو دیکھی گئی، اس نمو میں اہم شراکت دار ٹیکسٹائل (5.9 فیصد) ، فوڈ مشروبات اور تمباکو (11.73 فیصد)، پیٹرولیم مصنوعات (12.71 فیصد)، ادویات (12.57 فیصد)، کیمیکل (11.65 فیصد)، غیر دھاتی معدنی مصنوعات (24.31 فیصد)، آٹوموبائل (23.38 فیصد) اور کھاد (5.69 فیصد) ہیں۔

مزید پڑھیں: پاکستان کی معیشت 1.5 فیصد تک بڑھے گی، موڈیز کی پیش گوئی

بجلی اور گیس کے ذیلی شعبے میں 22.96 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے جس کی بنیادی وجہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو حکومت کی طرف سے سبسڈی کم مختص کرنا، پیداوار میں کم اضافہ اور کھپت میں زیادہ اضافہ ہے۔

تعمیراتی سرگرمیوں میں 8.34 فیصد اضافہ ہوا ہے جس کی بنیادی وجہ عام سرکاری اخراجات اور نجی شعبے کے تعمیراتی کام سے متعلق اخراجات میں اضافہ ہے۔

سروسز کا شعبہ کئی سالوں تک ملک کی ترقی میں ایک اہم کردار ادا کرتا رہا ہے اور اس سال عارضی تخمینے کے مطابق اس میں 4.43 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

ہول سیل اور ریٹیل تجارت کے شعبے میں 8.37 فیصد اضافہ ہوا، ٹرانسپورٹ، اسٹوریج اور مواصلات کے شعبے میں 0.61 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے جبکہ فنانس اور انشورنس سیکٹر میں 7.84 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔

جنرل اسمبلی غزہ میں اسرائیلی جارحیت روکنے کا مطالبہ کرے، وزیرخارجہ

ہولی وڈ اداکارہ کا کووڈ سے موت کے منہ میں پہنچنے کا انکشاف

ریڈیو کے بعد آر جے خالد ملک کی ویب ٹاک شو میں انٹری