ایرانی فلم ڈائریکٹر کا والدین کے ہاتھوں قتل
ایرانی فلم ڈائریکٹر بابک خرمدین کو والدین کی جانب سے مبینہ طور پر قتل کردیا گیا اور اس کے بعد ان کے جسم کے ٹکڑے کردیے گئے۔
عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق بابک خرمدین، جنہوں نے لندن میں کام کیا تھا، وہ شادی نہ کرنے پر اپنے والد سے ایک بحث کے بعد نام نہاد 'غیرت کے نام' پر قتل کا نشانہ بنے۔
تہران کرمنل کورٹ کے سربراہ محمد شہریری نے کہا کہ بابک خرمدین کے والد نے ان کے جسم کے ٹکڑے کرنے اور کچرے میں ڈالنے سے قبل اپنے بیٹے کو منشیات دینے اور اس کا قتل کرنے کا اعتراف کیا ہے۔
ان کی باقیات تہران کے مغربی شہر اکباتان میں کچرے کے تھیلوں اور سوٹ کیس سے 16 مئی کو برآمد ہوئیں جہاں ان کے والدین مقیم تھے۔
ایرانی پولیس نے مزید کہا کہ قتل کے مزید شواہد ہدایت کار بابک خرمدین کے گھر سے ملے، ان کے والدین کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔
47 سالہ بابک خرمدین، نے 2009 میں یونیورسٹی آف تہران سے سینما کی تعلیم حاصل کی تھی اور اس کے ایک برس بعد لندن منتقل ہوگئے تھے۔
دوسری جانب مشرق وسطیٰ میں تجزیہ کار اور ایران انٹرنیشنل ٹی وی کے ایڈیٹر جیسن براڈسکی نے ڈیلی میل کو بتایا کہ 'میرا خیال ہے کہ بابک خرمدین کا ہولناک قتل گھریلو تشدد کے طویل المدتی مسئلے کی حالیہ مثال ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'ان سے قبل علی فضیلی کی المناک موت ہوئی تھی جنہیں ان کے اہلخانہ نے ہم جنس پرست ہونے کے باعث قتل کردیا تھا'۔
جیسن براڈسکی نے کہا کہ' گزشتہ برس 14 سالہ رومینہ اشفرفی نامی لڑکی کو اس کے والد نے غیرت کے نام پر قتل کردیا تھا۔
ایران میں 2020 میں بچوں کے تحٖظ کا قانون منظور ہونے کے باوجود غیرت کے نام پر قتل اور گھریلو تشدد جاری ہے۔
جیسن براڈسکی نے کہا کہ'عالمی برادری کو ایران کے ساتھ مل کر اس مسیلے کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔