نئی آٹو پالیسی میں الیکٹرک گاڑیوں کے فروغ پر توجہ مرکوز
اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار مخدوم خسرو بختیار نے کہا ہے کہ نئی پالیسی آٹوموٹیو انڈسٹری کی نمو اور ترقی کے ساتھ ساتھ قابل خرید ہونے، کوالٹی، دستیابی اور مقامیت پسندی پر توجہ مرکوز کرے گی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق آٹو انڈسٹری ڈیولپمنٹ اینڈ ایکسپورٹ پلان (اے آئی ڈی ای پی) 26-2021 پر تبادلہ خیال کے لیے آٹو سیکٹر کے اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ایک مشاورتی اجلاس میں وزیر کا کہنا تھا کہ حکومت برقی گاڑیوں کا اثر بڑھتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہے تاکہ ماحول بہتر بنایا جاسکے اور درآمدی بل میں کمی لائی جائے۔
پاکستان آٹوموٹو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پاما) اور پاکستان ایسوسی ایشن آف آٹو پارٹس اینڈ ایسیسیریز مینوفیکچررز (پاپم) نے وزیر کے ساتھ علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں جن میں مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد بھی موجود تھے۔
یہ بھی پڑھیں: آٹو انڈسٹری کے تحفظات نظرانداز، حکومت الیکٹرک گاڑیوں کی پالیسی فعال کرنے کیلئے کوشاں
وزیر نے تجویز دی کہ دونوں ایسوسی ایشنز ملک میں چھوٹی گاڑیوں کی قیمت میں کمی کے لیے تجاویز پیش کریں تا کہ اسے کم آمدن والے طبقے کے لیے قابل خرید بنایا جاسکے۔
پاما اور پاپم نے ایسی پالیسی تشکیل دینے کی حکومتی کوششوں کو سراہا جو کلیدی کھلاڑیوں کو عالمی سطح پر قابلِ قبول ہوں۔
تنظیموں نے موجودہ حکومت کی جانب سے صنعت کو بچانے کے لیے کورونا وبا کے دوران تنخواہوں کے لیے قرض، سرمایہ کاری کے لیے قرض اور شرح سود کو کم کرنے کو سراہا۔
مزید پڑھیں: آٹو اسمبلرز گاڑیوں کی قیمت میں اضافہ کرنے کو تیار
ساتھ ہی فیصلہ کیا گیا کہ اے آئی ڈی ای پی کے حتمی مسودے تک مشاورتی اجلاس ہوتے رہیں گے۔
ہائبرڈ گاڑیوں کے لیے تعاون طلب
دریں اثنا ایک علیحدہ پیش رفت میں حکومت نے مقامی صنعت سے ہائبرڈ الیکٹرک گاڑیوں (ایچ ای ویز) کے لیے تعاون اور پالیسی مانگ لی۔
صنعت کے مطابق صارفین کے لیے برقی گاڑیوں سے بہتر ایچ ای ویز ہیں۔
موجودہ حکومت پہلے ہی ملک کی پہلی ای وی پالیسی کو منظور اور نوٹیفائیڈ کرچکی ہے تاکہ آٹو آنڈسٹری میں نئی تبدیلیوں کے لیے سہولت فراہم کی جائے۔
پالیسی کا مقصد کنوینشنل انٹرنل کمبسشن انجن کو بیٹری والے نظام سے تبدیل کرنا ہے۔
ایس ایم انجینیئرنگ کے سی او او ایس ایم اشتیاق نے کہا کہ 'ہر سال 63 فیصد ای وی بیٹریوں کی تنزلی کا نتیجہ مزید چارجنگ کی صورت میں نکلتا ہے، اس کا مطلب زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس اور کم مائیلیج کے علاوہ بھاری مالیاتی نقصان ہے۔
یہ بھی پڑھیں: آٹو فنانسنگ 2 کھرب 73 ارب روپے کی 'بلند ترین' سطح تک پہنچ گئی
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک اندازے کے مطابق 30 ہزار ای ویز پاکستان کی بجلی پیداواری صلاحیت کا ایک فیصد استعمال کریں گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ بجلی کا فی یونٹ 50 روپے میں فروخت ہورہا ہے لہٰذا 180 کلومیٹر سے کم کا مائیلیج حاصل کرنے کے لیے 40 کلوواٹ کی بیٹری کو چارج کرنے میں 2 ہزار روپے لگیں گے۔
دوسری جانب ایچ ای ویز کی لاگت 5 روپے فی کلومیٹر ہے اور انٹرنل کمبسشن انجن کی لاگت 9 روپے 30 پیسی فی کلومیٹر ہے، جو صارفین کے لیے ایچ ویز کے مقابلے زیادہ مؤثر ہے۔