غزہ: اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں جاں بحق فلسطینیوں کی تعداد 122 ہوگئی
پر امن رہنے کے تمام عالمی مطالبات کو نظر انداز کرتے ہوئے اسرائیل کی جانب سے غزہ کی محصور پٹی کے مختلف علا قوں پر فضائی حملوں اور گولہ بارود برسانے کا سلسلہ جاری ہے۔
برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فورسز اور حماس کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جمعہ کو پانچویں روز میں داخل ہوگیا ہے لیکن اس کے تھمنے کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔
فلسطینی طبی حکام کے مطابق اب تک اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں 122 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں جن میں 31 بچے اور 19 خواتین شامل ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد 900 سے تجاوز کر گئی ہے۔
کئی روز سے جاری اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں اسرائیلی فوج کی جانب سے رات گئے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ حماس کے راکٹس کے جواب میں اسرائیلی حملے جاری ہیں اور کوئی زمینی کارروائی نہیں ہورہی بلکہ فوجی اسرائیلی علاقے میں سے ہی گولہ بارود برسا رہے ہیں۔
دوسری جانب اسرائیل کے مختلف علاقوں میں بھی عربوں اور یہودیوں کے درمیان بھی تصادم کا سلسلہ دیکھنے میں آیا جبکہ لبنان کی جانب سے میزائل بھی فائر ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں:فلسطین کی صورتحال پر او آئی سی کی وزارتی کمیٹی کا اجلاس طلب
جمعہ کی رات غزہ میں آگ کا انتہائی بڑا گولا دیکھا گیا جس نے آسمان کو نارنجی رنگ میں بدل دیا جبکہ اسرائیل کی جانب اڑتے راکٹس بھی دیکھے گئے۔
اسرائیلی فوج کے ترجمان نے کہا ہے کہ ان کا ملک مختلف صورتحال کے لیے تیار ہے جس میں زمینی حملہ بھی ایک صورت ہے۔
دوسری جانب غزہ میں اے ایف پی کے نمائندوں کا کہنا تھا کہ اسرائیلی حملوں کے باعث لوگ شمال مشرقی علاقے میں اپنے گھروں کو چھوڑ کر وہاں سے انخلا کررہے ہیں۔
ادھر حماس کے حملوں کے نتیجے میں اسرائیل میں ایک فوجی سمیت 8 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جن میں ایک بھارتی خاتون بھی شامل ہیں۔
مزید پڑھیں: عیدالفطر پر بھی اسرائیل کے غزہ میں حملے، 24 بچوں سمیت جاں بحق افراد کی تعداد 103 تک پہنچ گئی
فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج کا کہنا تھا کہ اس نے غزہ میں اب تک 600 سے زائد فضائی حملے کیے جبکہ محصور پٹی سے اب تک اسرائیل کی جانب سے ایک ہزار 750 راکٹس برسائے جاچکے ہیں جس میں سیکڑوں راکٹس کو آئرن ڈوم دفاعی نظام روک چکا ہے۔
علاوہ ازیں 3 راکٹس لبنان کی سرزمین سے بھی فائر کیے گئے جو بحیرہ روم میں گرے، اسرائیل کی سخت حریف تنظیم حزب اللہ کے ذرائع کا کہنا تھا کہ اس واقعے کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس طلب
دوسری جانب جمعہ کو امریکا کے اعتراض کے بعد اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس اب اتوار کو ہوگا جس میں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تشدد کی بگڑتی صورتحال پر کھلے عام تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
سفارتکاروں کا کہنا تھا کہ امریکا جو اسرائیل کا قریبی اتحادی ہے اس نے پہلے ورچوئل اجلاس منگل کو منعقد کرنے کی تجویز دی تھی۔
امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن نے امید ظاہر کی تھی کہ کچھ روز کے انتظار سے سفارتکاری کا کچھ اثر پڑے گا اور یہ دیکھنا ہے کہ کیا ہمیں واقعتاً تنازع میں کمی دیکھنے کو ملے گی۔
سفارتکاروں کا کہنا تھا رواں ہفتے 15 رکنی کونسل کا خطے میں جاری بدترین لڑائی پر 2 مرتبہ نجی اجلاس ہوچکا ہے لیکن ابھی تک اس حوالے سے عوامی بیان پر اتفاق نہیں ہوسکا۔
غزہ پر اسرائیلی حملے
خیال رہے کہ رمضان المبارک کے آغاز سے ہی مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) میں اسرائیلیوں کی جانب سے فلسطینیوں پر حملوں اور دیگر پرتشدد کارروائیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا جبکہ اس دوران دنیا کے 3 بڑے مذاہب کے لیے انتہائی مقدس شہر میں کشیدگی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس پر پاکستان نے شدید مذمت بھی کی ہے۔
مقبوضہ بیت المقدس میں جمعہ (7 مئی) سے جاری پرتشدد کارروائیاں سال 2017 کے بعد بدترین ہیں جس میں یہودی آبادکاروں کی جانب سے مشرقی یروشلم میں شیخ جراح کے علاقے سے متعدد فلسطینی خاندانوں کو بے دخل کرنے کی طویل عرصے سے جاری کوششوں نے مزید کشیدگی پیدا کی۔
یہ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں ایک طویل عرصے سے جاری قانونی کیس میں متعدد فلسطینی خاندان کو بے دخل کیا گیا ہے، اس کیس میں فلسطینیوں کی جانب سے دائر اپیل پر پیر (10 مئی) کو سماعت ہونی تھی جسے وزارت انصاف نے کشیدگی کے باعث مؤخر کردیا تھا۔
اسرائیلی فورسز کی جانب سے فلسطینیوں پر حالیہ حملے 7 مئی کی شب سے جاری ہیں جب فلسطینی شہری مسجد الاقصیٰ میں رمضان المبارک کے آخری جمعے کی عبادات میں مصروف تھے اور اسرائیلی فورسز کے حملے میں 205 فلسطینی زخمی ہوگئے تھے۔
جس کے اگلے روز 8 مئی کو مسجدالاقصیٰ میں دوبارہ عبادت کی گئی لیکن فلسطینی ہلالِ احمر کے مطابق بیت المقدس کے مشرقی علاقے میں اسرائیلی فورسز نے پرتشدد کارروائیاں کیں، جس کے نتیجے میں مزید 121 فلسطینی زخمی ہوئے، ان میں سے اکثر پر ربڑ کی گولیاں اور گرنیڈز برسائے گئے تھے جبکہ اسرائیلی فورسز کے مطابق ان کے 17 اہلکار زخمی ہوئے۔
بعدازاں 9 مئی کو بھی بیت المقدس میں مسجد الاقصٰی کے قریب ایک مرتبہ پھر اسرائیلی فورسز کی پُر تشدد کارروائیوں کے نتیجے میں سیکڑوں فلسطینی زخمی ہوئے۔
10 مئی کی صبح اسرائیلی فورسز نے ایک مرتبہ پھر مسجد الاقصیٰ کے قریب پرتشدد کارروائیاں کیں، جس کے نتیجے میں مزید 395 فلسطینی زخمی ہوئے تھے جن میں سے 200 سے زائد کو علاج کے لیے ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔
اسرائیلی فوج کے حملے کے نتیجے میں 300 فلسطینی شہریوں کے زخمی ہونے کے بعد حماس نے اسرائیل میں درجنوں راکٹس فائر کیے تھے جس میں ایک بیرج بھی شامل تھا جس نے بیت المقدس سے کہیں دور فضائی حملوں کے سائرن بند کردیے تھے۔
اسرائیل نے راکٹ حملوں کو جواز بنا کر جنگی طیاروں سے غزہ پر حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں حماس کے کمانڈر سمیت 25 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
بعد ازاں 11 مئی کی شب بھی اسرائیلی فضائیہ نے ایک مرتبہ پھر راکٹ حملوں کو جواز بنا کر غزہ میں بمباری کی جس کے نتیجے میں 13 بچوں سمیت جاں بحق افراد کی تعداد 43 تک پہنچ گئی، یہ راکٹ حملے بھی حماس کی جانب سے کیے گئے تھے جس میں 5 اسرائیلیوں کے ہلاک اور متعدد کے زخمی ہونے کا دعویٰ کیا گیا۔
غزہ کی وزارت صحت نے 12 مئی کو صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیلی فضائی کارروائیوں میں جاں بحق افراد کی تعداد 48 ہوگئی ہے جن میں 14 بچے شامل ہیں اور زخمیوں کی تعداد 300 سے زائد ہوگئی ہے۔
دوسری جانب 6 اسرائیلی بھی ہلاک ہوئے تھے جبکہ غزہ سے تقریباً 1500 راکٹ فائر کیے گئے اور اسرائیل میں مختلف مقامات نشانہ بنائے گئے۔
اقوامِ متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق کے مطابق 7 سے 10 مئی تک مشرقی بیت المقدس میں اسرائیلی فورسز کی پُرتشدد کارروائیوں میں ایک ہزار فلسطینی زخمی ہوچکے تھے۔
اسرائیلی لڑاکا طیاروں نے عید الفطر کے روز بھی غزہ میں بلند و بالا عمارتوں اور دیگر مقامات پر مزید فضائی حملے کیے، جس کے نتیجے میں پیر سے اب تک جاں بحق افراد کی تعداد 103 تک پہنچ گئی جس میں 24 بچے بھی شامل ہیں۔
مشرق وسطیٰ میں امن عمل کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی رابطہ کار نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کے فضائی حملوں اور حماس کے راکٹ کی وجہ سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں کی صورتحال 'وسیع پیمانے پر جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے'۔
اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں پر پرتشدد کارروائیوں کے بعد عالمی برداری کی جانب سے ان حملوں کی نہ صرف مذمت کی گئی بلکہ تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مطالبہ بھی سامنے آیا۔
مشرق وسطیٰ میں سب سے زیادہ حساس تصور کیے جانے والی مسجد الاقصیٰ اس وقت سے تنازع کی زد میں ہے جب 1967 میں اسرائیل نے بیت المقدس کے مشرقی حصے پر قبضہ کر لیا تھا اور اسے بعد میں اسرائیل کا حصہ بنا لیا تھا، اسرائیلی پورے بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت اور یہودیوں کے عقائد کا مرکز قرار دیتے ہیں لیکن فلسطینی اسے اپنی مستقبل کی ریاست کا دارالحکومت قرار دیتے ہیں۔