پاکستان

حدیبیہ کیس میں شہباز شریف کا ٹرائل کیا جاسکتا ہے، بابر اعوان

کیس پر نظرثانی نہ صرف جائز ہوگی بلکہ قانونی اور آئینی بھی ہوگی، وزیر اعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور
|

اسلام آباد: جہاں حدیبیہ پیپر ملز (ایچ پی ایم) بدعنوانی کے کیس کو دوبارہ کھولنے کے حکومتی اقدام پر قانونی ماہرین حیرت میں مبتلا ہیں جسے سپریم کورٹ سمیت ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے پہلے ہی ختم کردیا تھا، وزیر اعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان نے اصرار کیا ہے کہ کیس پر نظرثانی نہ صرف جائز ہوگی بلکہ قانونی اور آئینی بھی ہوگی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بابر اعوان نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے وضاحت کی کہ 'حدیبیہ پیپر ملز کیس میں سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف پر کبھی ٹرائل نہیں ہوا، لہٰذا بدعنوانی کے مشہور ریفرنس میں انہیں نئی تحقیقات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے'۔

واضح رہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے پیر کو اپنی قانونی ٹیم سے شریف خاندان کے خلاف ایک ارب 20 کروڑ روپے کے کرپشن ریفرنس کی تازہ تحقیقات شروع کرنے پر غور کرنے کو کہا تھا۔

آئین کے آرٹیکل 13 کا حوالہ دیتے ہوئے بابر اعوان نے وضاحت کی کہ ان دفعات میں شہباز شریف یا شریف خاندان کے کسی دوسرے فرد کو کوئی تحفظ فراہم نہیں کیا گیا جن سے پہلے قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے کیس میں تحقیقات یا ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی نہیں کی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: وفاقی حکومت کا شریف خاندان کے خلاف حدیبیہ کیس کی دوبارہ تفتیش کا فیصلہ

آرٹیکل 13 دوہری سزا کے خلاف تحفظ سے متعلق ہے اور اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ کسی بھی فرد کو ایک سے زیادہ مرتبہ ایک ہی جرم کی سزا نہیں دی جائے۔

وزیر اعظم کے مشیر نے کہا کہ اس طرح 'حدبندی' جو ہمیشہ عدالتوں کے سامنے اپیلیں چلاتے وقت لاگو ہوتی تھی، مجرمانہ کیسز میں کبھی قابل قبول نہیں رہی لہٰذا اس سے شہباز شریف کو کوئی تحفظ نہیں۔

انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کو پرویز مشرف کی حکومت کے دوران شریف خاندان کے خلاف دائر حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس میں ملزم کی حیثیت سے کبھی بھی ضمانت نہیں دی گئی تھی۔

بابر اعوان نے وضاحت کی کہ لہٰذا ان کا علیحدہ ٹرائل کیا جاسکتا ہے اور حکومت کسی بھی تحقیقاتی ایجنسی چاہے وہ وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) یا نیب ہو، سے درخواست کرسکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اسی طرح فوجداری ضابطہ کی دفعہ 403 کے تحت تحفظ بھی شہباز شریف کو دستیاب نہیں تھا'۔

قانونی شق میں کہا گیا ہے کہ ایک مرتبہ سزا یافتہ یا بری ہونے والے افراد پر ایک ہی جرم کے لیے مقدمہ نہیں چلایا جاسکتا ہے اور یہ کہ کسی بھی فرد کے خلاف عدالت میں کسی جرم کے تحت مقدمہ چلایا گیا ہو اور وہ اس جرم سے بری ہو گیا ہو تو اس کا اسی جرم پر دوبارہ ٹرائل نہیں کیا جاسکتا۔

بابر اعوان نے وضاحت کی کہ یہاں تک کہ اگر ایک کیس میں سیکڑوں افراد ملوث ہوں، ہر ملزم کے ساتھ الگ اور مختلف سلوک کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: 'اگر یاسمین راشد ملک میں علاج کرواسکتی ہیں تو شہباز شریف کیوں نہیں؟'

اسی طرح حکومت سے وابستہ ایک سینئر وکیل نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس میں منی لانڈرنگ کا الزام اور منی لانڈرنگ کے علاوہ بھی کئی الزامات ہیں جس معاملے کو اس سے قبل کبھی نہیں دیکھا گیا اور نہ ہی کبھی عدلیہ کے سامنے آیا، اور اس کی دوبارہ تحقیقات کی جاسکتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جو بھی کیا جائے گا ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کیا جائے گا۔

مسلم لیگ (ن) کا مؤقف

دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر اعظم نذیر تارڑ کا مؤقف تھا کہ اس معاملے کی تازہ تحقیقات کا آغاز توہین آمیز اقدام ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ نہ صرف لاہور ہائی کورٹ نے اس کیس کو بند کردیا تھا بلکہ سپریم کورٹ نے بھی نیب کی جانب سے دائر نظرثانی درخواست مسترد کردی تھی۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح معاملہ ایک بار طے ہوگیا تھا اور ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل یا نیب چیئرمین کیس کو دوبارہ کھول کر اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کے خلاف نہیں جاسکتے۔

حدیبیہ پیپر ملز کیس

سابق وزیر اعظم نواز شریف اور اسحٰق ڈار کے خلاف نیب نے ایک ارب 20 کروڑ روپے بد عنوانی کا حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس 2000 میں دائر کیا تھا لیکن لاہور ہائی کورٹ نے یہ ریفرنس خارج کرتے ہوئے اپنے حکم میں کہا تھا کہ نیب کے پاس ملزمان کے خلاف ثبوت کا فقدان ہے۔

پاناما پیپرز کیس کی تحقیقات کے دوران سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) نے کیس کی تفتیش کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کو حدیبیہ پیپر ملز کیس کا ریکارڈ جمع کرایا تھا، جس میں سنہ 2000 میں اسحٰق ڈار کی جانب سے دیا جانے والا اعترافی بیان بھی شامل تھا۔

اسحٰق ڈار نے اس بیان میں شریف خاندان کے کہنے پر ایک ارب 20 کروڑ روپے کی منی لانڈرنگ کرنے اور جعلی بینک اکاؤنٹس کھولنے کا مبینہ اعتراف کیا تھا، بعد ازاں انہوں نے اپنے اس بیان کو واپس لیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ بیان ان سے دباؤ میں لیا گیا۔

مزید پڑھیں: حدیبیہ پیپر ملز کیس: نیب کی درخواست مسترد

نیب نے ریفرنس میں دعویٰ کیا تھا کہ نواز شریف اور شہباز شریف سمیت دیگر ملزمان کے خلاف سنہ 2000 میں جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے ایک کروڑ 48 لاکھ ڈالر کی مبینہ منی لانڈرنگ کی تھی لیکن نیب، ملزمان کے خلاف ٹھوس شواہد پیش کرنے میں ناکام رہی اور لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ نے 2011 میں ریفرنس مسترد کردیا تھا۔

نیب نے لاہور ہائی کورٹ کے خلاف 2017 میں سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی لیکن عدالت عظمیٰ نے نیب کی اپیل مسترد کر دی تھی۔

سپریم کورٹ نے نیب کی جانب سے حدیبیہ پیپر ملز کیس کی دوبارہ تفتیش کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے تفصیلی فیصلے میں تشویش کا اظہار کیا تھا کہ ‘ریفرنس کو بلا جواز طوالت دی گئی، حدیبیہ کیس اسی وقت مر گیا تھا جب نیب حکام اس معاملے کو کئی برسوں تک متعدد عدالتوں میں گھسیٹتے رہے’۔

سپریم کورٹ نے تفصیلی فیصلے میں کہا تھا کہ ریفرنس کو غیر معینہ مدت تک زیر التوا رکھ کر قانونی عمل کی نفی کی گئی، لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے کیس کی ازسرنو تفتیش کا فیصلہ کمزور بنیادوں پر تھا، ریفرنس میں ملزمان کو دباؤ میں لانے کے سوا کچھ نہ تھا جبکہ ملزمان کو دفاع کا موقع بھی نہیں دیا گیا۔

عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیے تھے کہ ‘حدیبیہ کیس کی اصل موت تو احتساب عدالت میں ہی ہوگئی تھی، نیب نے ایک ہزار 229 دن میں اس کیس کی بحالی کے لیے کوئی اپیل دائر نہیں کی اور نہ ہی تعطل کے حق میں ٹھوس شواہد پیش کیے’۔

عالمی برادری فلسطینیوں پر طاقت کے استعمال کو روکے، پاکستان

توند کی چربی کووڈ 19 کی شدت کا خطرہ بڑھانے کا باعث قرار

تکینکی خامیوں کے باعث فلسطین سے متعلق پوسٹ حذف ہوئیں، ٹوئٹر و انسٹا گرام