نقطہ نظر

بھارت میں کورونا کی صورتحال اور مودی سرکار کی خود ستائشی اور تکبر

بھارت کو ویکسین بنانے والےسب سے بڑے ملک ہونے کا کریڈٹ ضرور جاتا ہے مگر اس حیثیت کا کیا فائدہ جب اپنےہی شہریوں کو ویکسین نہ مل سکے؟

اعداد و شمار اور تخمینے بتاتے ہیں کہ بھارت میں تباہی پھیلانے والی کورونا کی دوسری لہر مئی کے وسط میں اپنے عروج پر ہوگی، اور کسی نے بھی اس قسم کی کوئی پیش گوئی نہیں کی ہے کہ اس کے بعد کورونا کی شدت میں کمی آئے گی یا نہیں۔ ہم صرف امید ہی کرسکتے ہیں کہ وبا کے پھیلاؤ اور اموات میں کمی آئے گی۔

لیکن اس وقت تو آکسیجن، اسپتالوں میں بستر اور ویکسین کے ساتھ ساتھ امید بھی کمیاب ہوچکی ہے۔ آکسیجن کے حصول کی دوہائیوں سے لے کر بھرے ہوئے قبرستانوں اور شمشان گھاٹ تک بھارت سے اٹھنے والی مصائب کی روداد سب کے لیے مایوس کن ہے۔ اور شاید اتنا ہی مایوس کن حکام کی جانب سے شہریوں کی زندگیوں اور بہبود کو نظر انداز کرنا بھی ہے۔

اس مسلسل بگڑتی صورتحال کے دوران بھی مرکز کے وزیرِ صحت نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ بھارت میں شرح اموات اب بھی ’دنیا میں سب سے کم ہے‘۔ کچھ مہینے قبل انہوں نے آنے والے خطرے کے حوالے سے بے خبری میں یہ کہا تھا کہ بھارت میں ’کورونا اپنے اختتام پر ہے‘۔

جنوری میں ورلڈ اکنامک فورم میں نریندر مودی کا کہنا تھا کہ بھارت نے ’مؤثر طریقے سے کورونا پر قابو پاکر انسانیت کو ایک بڑے سانحے سے بچا لیا ہے‘۔ ان کے اس بیان سے پہلے یہ اعلان سامنے آیا تھا کہ وہ ’اس مشکل گھڑی میں ایک ارب 30 کروڑ بھارتیوں کے لیے اعتماد اور امید کا پیغام‘ دینے جارہے ہیں۔

مزید پڑھیے: بھارت میں کورونا وائرس سے ایک روز میں ریکارڈ 3 ہزار 780 اموات

مودی نے اس پیش گوئی کا بھی تمسخر اڑاتے ہوئے کہا کہ ’کہا جارہا تھا کہ بھارت دنیا میں کورونا سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہوگا۔ یہ کہا گیا کہ یہاں کورونا کا سونامی آجائے گا، کسی نے کہا کہ 7 سے 8 کروڑ بھارتی شہری اس سے متاثر ہوں گے اور دوسروں کا کہنا تھا کہ 20 لاکھ بھارتی شہری اس وائرس سے ہلاک ہوجائیں گے‘۔

ایسی صورتحال میں تو ’تکبر‘ اور ’زوال‘ جیسے الفاظ ہی ذہن میں آتے ہیں۔ حالات اس وقت مزید خراب ہوگئے جب اگلے مہینے حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اعلان کیا کہ بھارت نے ’[مودی کی] اہل اور پُرعزم قیادت میں کورونا کو شکست دے دی ہے‘۔ بڑے پیمانے پر ہونے والے انتخابی جلسوں، خاص طور پر مغربی بنگال میں کہ جہاں بی جے پی، ممتا بینرجی کی جماعت تری نمول کانگریس پارٹی کی حکومت گرانے کے خواب دیکھ رہی تھی، کی وجہ سے وائرس کے پھیلاؤ میں تیزی سے اضافہ ہوا۔

بی جے پی کو کچھ کامیابیاں تو حاصل ہوئیں لیکن وہ ہندوتوا کے نظریہ کی بنیاد پر صوبے میں حکومت بنانے کا مقصد حاصل نہیں کرسکی۔ رپورٹس کے مطابق اس دوران کلکتہ میں کورونا کا ٹیسٹ کروانے والوں کی نصف تعداد میں کورونا مثبت آرہا تھا۔ تو کیا یہی بی جے پی کا مقصد تھا؟

مزید پڑھیے: کورونا کیسز میں اضافہ: ویکسین برآمد کرنے والا بھارت، اب درآمد کرنے پر مجبور

پھر ہم نے ہردوار میں کمبھ کا میلہ بھی دیکھا جسے خطرات کو نظر انداز کرتے ہوئے کچھ فلکیاتی وجوہات کی وجہ سے ایک سال قبل منعقد کیا گیا۔ بی جے پی سے تعلق رکھنے والے اترا کھنڈ کے وزیرِ اعلیٰ نے دعویٰ کیا کہ عقیدہ اور گنگا ندی کا پانی کورونا کے سامنے ڈھال کا کام کرے گا۔

یقیناً کسی بھی حکومت کو کورونا کی اس خطرناک دوسری لہر کا مقابلے کرنے میں مشکل پیش آتی، لیکن کم از کم اسے اس صورتحال میں اپنی شبیہہ کو بہتر رکھنے کا خیال نہیں ہوتا۔

کوئی بھی حکومت وقت سے پہلے ہی ان فیلڈ اسپتالوں کو ختم نہ کرتی جو کورونا کی پہلی لہر کے دوران قائم کیے گئے تھے، حتیٰ کہ گزشتہ سال پابندیاں اٹھنے کے بعد اس وبا کے پھیلاؤ میں کچھ تیزی آئی تھی لیکن وہ بھی اب ختم ہوتی ہوئی محسوس ہورہی تھی لیکن دنیا کے تجربے کو دیکھتے ہوئے کیا اسپتال ختم کرنا درست ہوتا؟ کوئی بھی حکومت شاید کورونا وائرس ٹاسک فورس کے اس رویے کو برداشت نہیں کرتی جس نے اس سال جنوری کے وسط سے اپریل کے وسط تک ایک میٹنگ بھی نہیں کی۔

اور کوئی بھی حکومت شاید قبل ازوقت اس وائرس کے خلاف فتح کا اعلان نہیں کرتی جو عالمی سطح پر تبدیل ہونے اور باقی رہنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کرچکا ہے۔ شاید اس طرح بھارت کو وائرس کا ایسا مرکز بننے سے روکا جاسکتا تھا جہاں سرکاری اعداد و شمار اپنے آپ میں ہولناک ہونے کے باوجود وائرس کے پھیلاؤ اور اس سے ہونے والی اموات کی درست تعداد نہیں بتاتے۔

موجودہ وبا کے دوران خود ستائشی اور تکبر کا یہ مہلک امتزاج بھارت کے لیے نیا نہیں ہے۔ اس رویے کے نتائج گزشتہ سال برازیل سے لے کر برطانیہ اور ٹرمپو کریسی [امریکا] میں دیکھے جاچکے ہیں۔ تاہم ٹرمپ انتظامیہ نے بھی ویکسین کی جلد تیاری اور حصول کی کوششیں کی تھیں۔

مزید پڑھیے: متعدد کھلاڑیوں میں کورونا کی تشخیص کے بعد انڈین پریمیئر لیگ ملتوی

لیکن ویکسین کی تیزی سے تیاری بھی عالمی سطح پر ویکسین لگانے کے عمل کو تیز نہیں کرسکی۔ ہم دنیا کے ہر خطے میں حکومتی نااہلی کے ساتھ ساتھ گدھ جیسے سرمایہ دارانہ نظام کے منفی اثرات کا بھی مشاہدہ کر رہے ہیں جس کی وجہ سے منافع کی حیثیت انسانی جان سے بھی زیادہ ہوگئی ہے۔ دانشورانہ املاک اپنے مالک کے لیے کتنی ہی قیمتی کیوں نہ ہو لیکن اسے نظر انداز کرنے کا اس سے بہتر کیا وقت ہوگا کہ جب کروڑوں جانیں داؤ پر لگی ہوں۔

بھارت کو اس بات کا کریڈٹ ضرور حاصل ہے کہ وہ دنیا میں ویکسین بنانے والا سب سے بڑا ملک ہے لیکن اس حیثیت کا کیا فائدہ جب وہاں کے اپنے ہی شہریوں کو ویکسین نہ مل سکے؟ شاید یہ سوال یہاں کے ’پرنس آف ویکسین‘ کہلائے جانے والے سیرم انسٹیٹیوٹ آف انڈیا کے باس ادار پونا والا سے کیا جانا چاہیے جو ملک میں ویکسین کی شدید قلت کے درمیان خود برطانیہ میں سیلف آئیسولیٹ ہوچکے ہیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ سال ان کے خاندان کی دولت میں کئی ارب ڈالر کا اضافہ ہوا تھا۔

بھارت میں آج جو کچھ ہورہا ہے وہ تقریباً ایک صدی قبل انگریز راج کے دوران رونما ہونے والے ایک سانحے کی یاد دلا رہا ہے کہ جب اسپینش فلو کی وبا پھیلنے سے برِصغیر کے کچھ حصوں میں اموات کی شرح سب سے زیادہ تھی۔ موجودہ صورتحال صرف پاکستان کے لیے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک سبق ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ اس بات کی بھی یاد دہانی ہے کہ مٹی کے خداؤں پر اعتقاد کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے۔


یہ مضمون 05 مئی 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ماہر علی

لکھاری سے ای میل کے ذریعے رابطہ کریں: mahir.dawn@gmail.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔