نقطہ نظر

ادب، عید کا تہوار اور ادبی تحریریں

اس خطے کے تہوار میں عید ایک بڑا تہوار ہے۔ رمضان اور چاند کی دید کے بعد اس کا دن ظہور اسے مزید اہم بنا دیتا ہے۔

ادب کے عالمگیر سروکار تسلیم شدہ، مگر اس کی دھرتی سے جڑت بھی لازمی ہے۔ ادب مقامی کہانیوں، کرداروں، تہواروں سے جتنا گندھا ہوگا، اتنا ہی رنگ جمائے گا۔ اتنا ہی چوکھا آئے گا۔

اس خطے کے تہوار میں عید ایک بڑا تہوار ہے۔ رمضان اور چاند کی دید کے بعد اس کا دن ظہور اسے مزید اہم بنا دیتا ہے۔ اسی اہمیت کے پیشِ نظر گاہے بہ گاہے یہ ادبی تحریروں اور اشعار کا موضوع بنتا رہا۔ قمر بدایونی نے اسے یوں یاد کیا:

عید کا دن ہے گلے آج تو مل لے ظالم

رسم دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے

اس تہوار کو منانے کے رائج کلیہ تو موجود ہیں، مگر ہر شخص اس تہوار کو اپنے ہی ڈھب پر مناتا ہے۔ شعرا کے لیے تو یہ محبوب کا چہرہ ہے، جو عید کی نوید ہے۔ جیسے لیاقت علی عاصم نے کہا تھا:

ہم نے تجھے دیکھا نہیں کیا عید منائیں

جس نے تجھے دیکھا ہو اسے عید مبارک

اس مختصر سی تحریر میں یہ سعی کی ہے کہ چند اہم ادبی شخصیات کے احوالِ عید کو قلم بند کیا جاسکے۔

علامہ کی چاند رات اور دہی والی سویاں

اس خطے کے عظیم مفکر، شاعر مشرق علامہ اقبال کے ہاں رمضان کا اہتمام کیسے ہوتا تھا؟ اس کا کچھ احوال ان کے بیٹے، جسٹس (ر) جاوید اقبال کی خودنوشت 'اپنا گریباں چاک' میں ملتا ہے۔ وہ کتاب کے صفحہ نمبر 20 پر لکھتے ہیں کہ 'ماہ رمضان میں گھر میں والدہ اور دیگر خواتین باقاعدہ روزے رکھتیں اور قرآن شریف کی تلاوت کرتیں۔ گھر کے ملازم بھی روزے رکھتے‘۔

چاند رات کی چند جھلکیاں بھی دستیاب ہیں۔ لکھتے ہیں:

'جب عید کا چاند دکھائی دیتا ہے، تو گھر میں بڑی چہل پہل ہوجاتی۔ میں عموماً والد کو عید کا چاند دکھایا کرتا تھا۔ گو مجھے نہانے سے سخت نفرت تھی، لیکن اس شب گرم پانی سے والدہ نہلاتیں اور میں بڑے شوق سے نہاتا۔ نئے کپڑے یا جوتوں کا جوڑا سرہانے رکھ کر سوتا۔ صبح اٹھ کر نئے کپڑے پہنے جاتے، عیدی ملتی، کمخواب کی ایک اکچن، جس کے نقرئی بٹن تھے، مجھے والدہ پہنایا کرتیں۔'

عید کی صبح علامہ اقبال کی سرگرمیوں کو انہوں نے یوں منظر کیا، 'میں والد کے ساتھ موٹر میں بیٹھ کر نماز پڑھنے جایا کرتا تھا۔ ان کی انگلی پکڑے شاہی مسجد میں داخل ہوتا اور ان کے ساتھ عید کی نماز ادا کرتا۔ نماز سے فارغ ہوکر میرے والد بہ مطابق معمول بارودخانہ میں میاں نظام الدین کی حویلی میں ان کے ساتھ کچھ وقت گزارتے۔ گھر واپس آکر والد کی عادت تھی کہ وہ عید کے روز سویوں پر دہی ڈال کر کھایا کرتے تھے۔ سارا دن انہیں ملنے والوں کا تانتا بندھا رہتا‘۔

بخاری برادران کے الگ الگ انداز

معروف ماہرِ نشریات اور ادیب، زیڈ اے بخاری (سید ذوالفقار علی بخاری) نے نہ صرف پاکستان، بلکہ برِصغیر کی ریڈیو براڈکاسٹنگ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ ان کے بڑے بھائی، معروف مزاح نگار، معلم اور مترجم، پطرس بخاری سے تو 'پطرس کے مضامین' کے ذریعے عہدِ حاضر کا طالب علم بھی خوب واقف ہے، بشرطیکہ اس نے اپنی نصابی کتب کو ایک بار پڑھا ہو۔

گو زیڈ اے بخاری کی آپ بیتی 'سرگزشت' کے متن میں دونوں بھائیوں کی عیدوں کا احوال نہیں ملتا، مگر کتاب کا پیش لفظ لکھنے والے فیض احمد فیض نے دونوں کا تذکرہ، بلکہ کہہ لیجیے موازنہ کرتے ہوئے ان کے معمولات پر خوب روشنی ڈالی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

'بڑے بخاری صاحب کو رسم و رواج سے سخت نفرت تھی۔ ہمیشہ سرگشتہ رسوم و قیود رہے۔ زیادہ سے زیادہ اپنے دو چار دوستوں کو جمع کرلیا اور عید بقر عید منا لی۔ وہ بھی کس طرح؟ چلو تماشا دیکھیں، تماشا کریں۔ سڑک پر بندر کا تماشا یا ریچھ کا ناچ ہورہا ہے، تو موٹر روک لی اور کھڑے ہوکر دیکھنے اور اپنے احباب کو دکھانے لگے۔ خاص دکان پر گئے اور شربت یا فالودہ پی لیا۔ پھر پان کی دکان پر پہنچے اور خاص پان بنوا کر کھائے اور کھلائے۔

چھوٹے بخاری (زیڈ اے بخاری) کا طریقہ بالکل دوسرا تھا۔ عید کے دن کمرے یا ہال میں سفید چاندنی کا فرش ہے۔ گاؤ تکیے سے لگے بیٹھے ہیں۔ کشتیوں میں پان، سگریٹ، پھل، مٹھائی اور بچوں کے چاکلیٹ ٹافی۔ ملنے والے آئے۔ کسی سے گلے ملے، کسی کو گلے لگایا، بچوں کو پیار کیا، ان کی پیٹھ تھپکی۔ گاؤ تکیے کے نیچے 5، 5 یا 10، 10 کے نوٹ رکھے ہیں اور نکال نکال کر چھوٹوں کو عیدی دے رہے ہیں۔ شام کو کھانا، شعر یا موسیقی کی محفل۔ رت جگا اور دھوم دھڑکا'۔

فیض صاحب کی بے رنگ عید

بخاری برادران کی عید کی ایسی پُرلطف منظر کشی کرنے والے فیض صاحب کو ایک بار انتہائی بے رنگ عید گزارنی پڑی۔ عید، جو تنہائی اور اداسی سے پُر تھی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے، جب وہ راولپنڈی سازش کیس میں اسیر تھے۔ اپنی زوجہ، ایلس فیض کے نام خط میں انہوں نے اس عید کا تذکرہ کیا۔ یہ خط 'صلیبیں مرے درچے میں' کا حصہ بنا۔ لکھتے ہیں:

'جیل میں جو بہت سے عیدیں آئیں اور گزر گئیں، ان میں یہ عید غالباً سب سے زیادہ ویران تھی۔ بالکل بے رنگ اجاڑ دن تھا، جس نے کوئی یاد یا آرزو بھی بیدار نہ کی۔ میں نے قیدیوں کی جماعت کے ساتھ نماز ادا کی، لیکن اس کے سوا اور کچھ بھی نہیں کیا۔ صرف ’ڈان کوئکزوٹ‘ (Don Quixote) پڑھتا رہا۔ اور اب کے سانچو پانزا (ناول کا مزاحیہ کردار) پر بھی ہنسی نہیں آئی۔ اگلے ہفتے تم آؤ گی، تو ہم جھوٹ موٹ کا تہوار کا کچھ سماں پیدا کرلیں گے'۔

سجاد ظہیر، فیض اور عید کی دعوت

راولپنڈی سازش کیس میں فیض اور سجاد ظہیر سمیت چند نامور شخصیات اسیر رہیں۔ فوج سے وابستہ اور بعد ازاں فکشن نگاری کی سمت آنے والے، ظفر اللہ پوشنی پر بھی مقدمہ ہوا۔ وہ ان 'شرپسندوں' میں سب سے کم عمر تھے۔ انہوں نے اس زمانے کی یادوں کو 'زندگی زنداں دلی کا نام ہے' کے زیرِ عنوان قلم بند کیا۔ جس میں عید سے جڑے چند دلچسپ واقعات ملتے ہیں۔ لکھتے ہیں:

'البتہ ایک نوازش ہمارے حال پر ضرور کی گئی اور وہ یہ کہ عید الفطر اور عیدالاضحی کے موقعے پر ہم تمام ملزموں کو اپنے عزیزوں کے ساتھ ایک ہی کمرے میں اکٹھا ہونے اور ان کے ساتھ کھانا کھانے کی خاص اجازت دے دی گئی۔ ہم نے مقدمے کی سماعت کے دوران میں ایسی کل 4 عیدیں حیدرآباد جیل میں گزاریں۔ ہم سب 4 گھنٹے تک ایک بڑے ہال میں اکٹھے بیٹھتے تھے، اور خوب رونق رہتی'۔

اسی مضمون میں ظفر اللہ پوشنی عید کے روز ملنے والی ظہرانے کی ایک دعوت کا ذکر کرتے ہیں، جو اسیروں کے درمیان موضوعِ بحث بن گئی تھی۔ ان کے بقول، عید میں ابھی چند روز باقی تھے۔ ایک شام کو اکبر خان نے دوستوں (اسیروں) کو یہ خبر دی کہ سرکاری وکیل مسٹر بروہی نے تمام ملزموں کو عید کے روز دوپہر کے کھانے پر مدعو کیا ہے۔

'کس نے دعوت دی ہے؟'، فیض نے حیران ہوکر پوچھا، 'ذرا پھر سے کہنا؟'

ظفر اللہ پوشنی بھی حیران تھے۔ ایسے میں ایک صاحب نے طنزاً یہ کہہ کر بات آگے بڑھائی کہ 'وہ باہر لے جاکر کسی ہوٹل میں کھانا کھلائیں، تو بات بنے'۔

مصنف کے مطابق عید آنے تک لنچ کی یہ دعوت زیرِ بحث رہی۔ جب فیض صاحب سے اس بابت پوچھا گیا، تو انہوں نے کہا، 'یہ بلاوا اس قدر مضحکہ خیز ہے کہ اسے ضرور منظور کرلینا چاہیے'۔

سجاد ظہیر نے فیض کی تائید کی، انہوں نے کہا کہ 'دنیا کی تاریخ میں آج تک کسی سرکاری وکیل نے ایسے ملزموں کو کھانے پر مدعو نہیں کیا ہوگا، جنہیں وہ عدالت میں غدار اور سنگین مجرم ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہو'۔

اکثریت دعوت قبول کرنے کے حق میں تھی، مگر بقول پوشنی میجر حسن خان 'لٹھ لے کر میدان میں کود پڑے'۔

سرکاری وکیل کے بھی لتے لیے، اپنے دوستوں کو بھی خوب سنائی۔ بحث بڑھی، شگوفے بھی پھوٹے، پُرلطف جملے کہے گئے، مگر آخر میں فیض صاحب نے حسن خان سے کہا 'حسن خان، مجھے دوستی زیادہ عزیز ہے، اگرچہ میں ذاتی طور پر دعوت نامہ منظور کرنے کے حق میں ہوں، لیکن میں اسے زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ چونکہ تمہیں اس بات پر شدید اعتراض ہے، اس لیے برادرم من میں لنچ پر نہیں جاؤں گا'۔

یوں عید کے روز ہونے والا ایک تاریخی ظہرانہ کوئی آہ بھرے بغیر... خاموشی سے دم توڑ گیا۔

عید اور انتظار صاحب کا ایک پُرلطف کالم

اچھا، چھوٹی عید کا معاملہ رویتِ ہلال سے جڑا ہے۔ آج بھی پاکستان سمیت کئی ممالک میں اسی طریقے کی پیروی رائج ہے۔ اس وجہ سے جہاں دلچسپ واقعات جنم لیتے ہیں، وہیں تنازعات بھی کھڑے ہوئے۔ لکھنے والوں کو اس کا ادراک رہا۔ اپنے انتظار صاحب ہی کو لیجیے۔

انتظار حسین کا شمار جہاں اردو کے ممتاز فکشن نگاروں میں ہوتا ہے، وہیں ان کے کالم بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ ان کی کتاب 'قصہ کوتاہ' میں آصف فرخی نے انتظار صاحب کے کالموں کا احاطہ کیا ہے، جس میں شامل ایک کالم 'ہلال عید ہماری ہنسی اڑاتا ہے' میں وہ اس تہوار کے بدلتے رنگ، رویتِ ہلال کمیٹی اور دہشت گردی کے خطرات پر تبصرے کرتے ہیں۔ چند لقمے پیش خدمت ہیں:

1: عید بے اعتبار تہوار ہے، جس تہوار کا انحصار رویتِ ہلال پر ہو یا کہہ لیجیے چاند دیکھنے پر ہو، اس کا اعتبار معلوم۔ سو اگر یہ کالم یاروں کی نظر سے عید کے دن گزرے، تو پھر اسے عید مبارک کا مضمون سمجھا جائے۔

2: یہ جو عید کے ساتھ چاند کی دید کی پخ لگی ہوئی ہے، ارے آپ اسے پخ کہتے ہیں۔ عید منانے والوں سے پوچھو۔ شام کو ان سب کے دم چاند میں اٹکے ہوتے ہیں۔ چاند نظر آگیا، تو وہ رات چاند رات، ورنہ پھر اندھیری رات۔

3: عید کے چاند کی دید پر جو خوشی منائی جاتی ہے، اس کے طفیل یوں سمجھو کہ چاند رات اپنی جگہ ایک تہوار بن گئی ہے۔ مگر اب بیچ میں آگئی ہے رویتِ ہلال کمیٹی، اس کی رویت نے تو چاند رات کا مزہ ہی کرکرا کردیا۔

4: اب ہم پولیس کے پہرے میں نماز عید ادا کرتے ہیں اور جب عید کے بعد اپنے پرائے، یار آشنا اور اجنبی گلے ملتے ہیں، تو ہمارا دل دھکڑ پکڑ کرنے لگتا ہے کہ جانے بیچ میں کون اجنبی گلے ملنے میں کیا گل کھلائے۔ کہیں ہم یاروں سے عید ملتے ملتے کسی خودکش حملے آور سے تو بغل گیر نہیں ہوجائیں۔

محمد حمید شاہد کی عید سے جڑی ذرخیز یادیں

ممتاز فکشن نگار اور نقاد، محمد حمید شاہد کے مطابق ان کے بچپن کے زمانے کی عید کا رنگ ہی اور تھا۔ عید ایک مکمل پیکج ہوا کرتی تھی صاحب۔ تہوار کا آغاز عید کی صبح سے نہیں بلکہ ان سحری جگانے والوں سے ہوتا، جو چاند نظر آنے کے بعد عید مبارک کہنے اور عیدی لینے آیا کرتے تھے۔

والد صاحب چھت پر چڑھ کر چاند دیکھا کرتے تھے۔ انہیں بھی کاندھے پر بیٹھا لیتے۔ جہاں اشارہ کرتے، وہیں بچوں کو چاند نظر آجاتا۔ یہی عید کا طلسم تھا۔ گھر میں چہل پہل ہوتی۔ رات میں حلوے کی تیاری شروع ہوجاتی۔ لڑکوں کے جوڑے، لڑکیوں کی چوڑیاں۔ صبح عید گاہ جانا، جہاں مسلکی تفریق کا شائبہ بھی نہیں ہوتا۔

نماز کے بعد سب قبرستان جاتے۔ بعد ازاں عیدی ملتی، مگر وہ آج جیسی عیدی نہیں تھی۔ شہر سے باہر میلہ لگتا تھا، جہاں مردوں اور عورتوں کے الگ الگ حصے ہوتے۔ وہاں کھانے پینے کی اشیا کے اسٹال ہوتے، جھولے لگتے۔ وہیں انہوں نے کبڈی کے مقابلے اور بیلوں کی دوڑ دیکھی۔

محمد حمید شاہد کے مطابق اس وقت عید میں زندگی کی بھرپور شرکت نظر آتی تھی۔ اب یہ زمانہ عنقا ہوا۔

حروفِ آخر

صاحبو، عید کا ذکر ادیبوں اور شعر کے ہاں جا بجا ملتا ہے۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ بدلتے رجحانات اور رویوں نے اس تہوار کو یکسر بدل دیا۔ ماضی میں عید کی جو گہما گہمی، جو ملنا جلنا ہوتا تھا، وہ اب دکھائی نہیں دیتا۔ کورونا سے پہلے ہی ہم نے اپنی خوشیوں کو 'قرنطینہ' کرلیا تھا۔ اب تو حالات دگرگوں ہیں۔ نمازِ عید اور مختصر سے اکٹھ کے بعد ہم موبائل فونز میں گم ہوجاتے ہیں۔ ڈیجیٹل دنیا میں ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے ہیں مگر حقیقی دنیا میں اپنوں سے دُور ہوتے جاتے ہیں۔ اس لاعلمی پر ظفر اقبال کا شعر یاد آتا ہے:

تجھ کو میری نہ مجھے تیری خبر جائے گی

عید اب کے بھی دبے پاؤں گزر جائے گی


اقبال خورشید کالم نویس، انٹرویو کار، فکشن نگار اور بلاگر ہیں۔ وہ ’ون منٹ اسٹوری‘ کے عنوان سے صحافتی کہانیاں لکھتے ہیں، ایک ادبی جریدے’ اجرا‘ کے مدیر ہیں۔ سیاست، سماج، ادب اور شہر کراچی اُن کے موضوعات ہیں۔


اقبال خورشید

اقبال خورشید کالم نویس، انٹرویو کار، فکشن نگار اور بلاگر ہیں۔ وہ ’ون منٹ اسٹوری‘ کے عنوان سے صحافتی کہانیاں لکھتے ہیں، ایک ادبی جریدے’ اجرا‘ کے مدیر ہیں۔ سیاست، سماج، ادب اور شہر کراچی اُن کے موضوعات ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔