فوائد کیلئے غیر قانونی اثاثے چھپانے سے ممبران نااہل ہوسکتے ہیں، سپریم کورٹ
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے وضاحت کی ہے کہ واپس آنے والے امیدوار کو صرف تب ہی نااہل کیا جائے گا جب اس نے بے ایمانی سے اثاثے حاصل کیے ہوں اور کچھ فوائد حاصل کرنے لیے انہیں چھپا رکھا ہو۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق امیدوار شمعون بادشاہ قیصرانی کی اپیل پر سپریم کورٹ نے فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ 'اگر (اثاثوں کی) ڈیکلیریشن یا ڈسکلوژر نہیں کی جس سے کسی امیدوار کو غیر قانونی فائدہ ہوتا ہے تو وہ اس کی امیدواریت ختم ہوجائے گی۔
شمعون بادشاہ قیصرانی نے اپنی اپیل میں 12 اگست 2018 کو لاہور ہائیکورٹ (ایل ایچ سی) ملتان بینچ کے حکم پر سوال کیا تھا جس میں پی پی 240 (ڈیرہ غازی) کے ضمنی انتخاب کے لیے ان کے کاغذات نامزدگی مسترد کرنے کے ملتان الیکشن ٹربیونل کے جنوری 2015 کے حکم کو برقرار رکھا گیا تھا۔
جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس قاضی محمد امین اور جسٹس سید مظہر علی اکبر نقوی پر مشتمل تین رکنی بینچ نے فیصلہ سنایا۔
جسٹس سید مظہر علی اکبر نے نقوی نے فیصلہ تحریر کیا جس میں کہا گیا کہ ہر ڈیکلیریشن یا ڈسکلوژر ایسا نہیں جس کی بنیاد پر پارلیمنٹ کے ممبر یا امیدوار کو مستقل طور پر نااہل قرار دے دیا جائے۔
شمعون بادشاہ قیصرانی کے کاغذات نامزدگی کو حریف امیدوار خواجہ محمد داود سلیمانی نے انتخابی ٹریبونل کے سامنے اس بنیاد پر چیلنج کیا تھا کہ انہوں نے کاغذات نامزدگی میں زرعی اراضی کا ایک ٹکڑا ظاہر نہیں کیا تھا۔
بہاولپور کے الیکشن ٹربیونل نے درخواست قبول کرتے ہوئے ضمنی انتخاب کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔
الیکشن ٹربیونل نے اپیل کنندہ کو ڈی نوٹیفائی کیا اور حلقہ میں تازہ انتخابات کا حکم دیا تھا۔
شمعون بادشاہ قیصرانی نے اس حکم کو سپریم کورٹ کے سامنے چیلنج کیا لیکن 9 مئی 2016 کو ان کی اپیل خارج کردی گئی۔
اس دوران 17 جنوری 2015 کو تازہ ضمنی انتخابات ہونے والے تھے تب انہوں نے دوبارہ اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرائی اور ایک مرتبہ پھر محمد داود سلیمانی نے بہاولپور کے انتخابی ٹربیونل میں اعتراض اٹھایا۔
لیکن ریٹرننگ افسر نے 27 دسمبر 2014 کو ان کے کاغذات نامزدگی قبول کرلیے جس کے بعد اسے ملتان کے انتخابی ٹریبونل کے سامنے چیلنج کیا گیا۔
ملتان کے انتخابی ٹریبونل نے جنوری 2015 میں ان کی نامزدگی کے خلاف درخواست کی اجازت دیتے ہوئے انہیں آئین کے آرٹیکل 62 (1 ایف) کے تحت نااہل قرار دے دیا۔
یہ معاملہ ایل ایچ سی کے سامنے اٹھایا گیا جس نے ملتان ٹریبونل کے حکم کو برقرار رکھا۔
جسٹس سید مظہر علی اکبر نقوی نے اپنے فیصلے میں ریمارکس دیے کہ ملتان کے الیکشن ٹربیونل نے بغیر سوچے سمجھے اپیل کنندہ کو نااہل قرار دے دیا جبکہ اپیل کنندہ کے اس عمل کو غلط فیصلہ یا غفلت قرار دیا جاسکتا ہے اور چونکہ جائیداد وراثت میں جائز طور پر حاصل کی گئی تھی اسی لیے (اراضی) بے ایمانی کے ذریعے حاصل کرنے کا لیبل نہیں لگایا جاسکتا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ اس غفلت کے سبب انہیں تاحیات نااہل قرار نہیں دیا جا سکتا اور انہیں اپیل کی اجازت حاصل ہے۔