مخصوص ساحلوں پر بہہ کر آنے والے انسانی پیروں کا حیران کن اسرار
امریکا اور کینیڈا میں بحیرہ سالیش کے ساحلی علاقوں میں 20 اگست 2007 سے کٹے ہوئے انسانی پیر لہروں کے ساتھ بہہ کر آرہے ہیں۔
ویسے تو کسی بھی ساحل پر لہروں کے ساتھ بہہ کر آنے والے انسانی پیر دل ہلا دیتے ہیں مگر 2007 سے 2019 کے درمیان جوتوں کے ساتھ 21 پیروں کو اس ساحلی خطے میں دریافت کیا گیا۔
مزید پڑھیں : قریب المرگ افراد کو کن احساسات کا تجربہ ہوتا ہے؟
جسم سے علیحدہ ہوجانے والے ان پیروں کو ساحل پر گھومنے آنے والے افراد نے دریافت کیا اور اب تک معمہ بنا ہوا تھا کہ ایسا کیوں ہورہا ہے۔
تاہم سائنسدانوں نے اب اس معمے کو حل کرلیا ہے یا کم از کم ان کا دعویٰ تو یہی ہے۔
معمہ کیا تھا؟
20 اگست 2007 کو ایک 12 سالہ بچی نے ایک نیلے و سفید جوگر کو برٹش کولمبیا کے ایک جزیرے جڈیڈہا کے ساحل پر دیکھا۔
یہ بھی پڑھیں : جیل توڑ کر فرار ہونے والے قیدیوں کا وہ واقعہ جو اب بھی ذہن گھما دیتا ہے
بچی نے جوتے کے اندر جھانکا تو اس میں ایک جراب تھی اور جب اس نے جراب کے اندر دیکھا تو اس میں ایک پیر موجود تھا۔
6 دن بعد ایک قریبی جزیرے گبرولا میں ایک جوڑا سیر کررہا تھا جب اس نے ایک بلیک اینڈ وائٹ جوگر کو دیکھا اور اس کے اندر سڑتا ہوا پیر موجود تھا۔
دونوں جوتوں کا سائز 12 تھا اور دائیں پیر کے تھے یعنی یہ واضح تھا کہ یہ 2 مختلف افراد کے ہیں۔
یہ بھی جانیں : 6 دہائیوں پرانا 'آسیب زدہ' معمہ حل کرلیا گیا
اس معاملے نے پولیس کو دنگ کردیا اور مقامی حکام نے اس وقت میڈیا کو بتایا کہ دونوں پیر گل سڑ چکے تھے مگر ان پر گوشت موجود تھا۔
پولیس کا کہنا تھا کہ اتنے کم وقت میں 2 پیروں کا ملنا کافی چونکا دینے والا ہے، اس طرح تو کسی ایک پیر کے ملنے کا امکان 10 لاکھ میں سے ایک فیصد ہوتا ہے، مگر 2 کی دریافت تو حیران کن ہے۔
اگلے سال یعنی 2008 میں قریبی کینیڈین ساحلوں میں 5 مزید پیروں کو دریافت کیا گیا اور اس کے نتیجے میں لوگوں میں خوف پھیل گیا جبکہ میڈیا کے قیاسات بڑھنے لگے، جیسے کیا کوئی سیریل کلر آزاد گھوم رہا ہے جو پیروں کا دشمن ہے؟
رونگٹے کھڑے کردینے والی کہانی : اپنا ہاتھ کاٹ کر خود کو بچانے والے شخص کی رونگٹے کھڑے کردینے والی داستان
اگلے 12 برسوں میں کینیڈین ساحلوں پر مجموعی طور پر 15 جبکہ امریکی ساحلی علاقوں میں 6 پیروں کو جوتوں کے ساتھ دریافت کیا گیا۔
درحقیقت جوگرز پہنے یہ پیر بہت زیادہ مشہور ہیں اور وکی پیڈیا پر ان کا اپنا ایک پیج بھی ہے، اس شہرت کے نتیجے میں افواہوں میں بھی اضافہ ہوا جبکہ کچھ لوگ جوتوں میں مرغیوں کی ہڈیاں بھر کر کینیڈین ساحلوں پر چھوڑنے لگے۔
کچھ کا خیال تھا کہ یہ مافیا گروپس کا کارنامہ ہے جو لاشوں کو ٹھکانے لگارہے ہیں۔
ایک اور دلچسپ داستان پڑھیں : 8 چہروں والا وہ شخص جس نے لاکھوں ذہن گھما کر رکھ دیئے
درحقیت اس میں ایک کلاسیک مسٹری کی تمام نشانیاں موجود ہیں اور یہ سوال تو سب کے ذہنوں میں ابھرتا ہے کہ آخر یہ پیر اچانک اس طرح کیوں مل رہے ہیں اور اس کی وجہ کیا ہے۔
لوگوں کی جانب سے پولیس سے رابطہ کرکے ان پیروں کے حوالے سے متعدد خیالات ظاہر کیے گئے۔
پولیس حکام کے مطابق ہمیں سیریل کلرز کے بارے میں کافی دلچسپ تفصیلات ملیں یا یہ بتایا گیا کہ تارکین وطن سے بھرے ہوئے کنٹینرز سمندر کی تہہ میں موجود ہیں۔
مزید پڑھیں : وہ خاتون جو ہر 24 گھنٹے بعد 26 سال پہلے کے 'عہد' میں پہنچ جاتی ہے
مگر اس طرح کے اسرار کے لیے پولیس کی بجائے سائنسی تحقیقات کی ضرورت ہوتی ہے۔
مختلف سوالات جیسے پورے جسم کی بجائے صرف پیر ہی کیوں ساحل پر بہہ کر آرہے ہیں اور وہ مخصوص ساحلی پٹی پر ہی کیوں دریافت ہورہے ہیں؟ کے جواب اب سائنسدانوں نے دے دیئے ہیں۔
یہ دلچسپ داستان بھی جانیں : وہ مجرم جو حقیقی معنوں میں ہوا میں غائب ہوکر اب تک معمہ بنا ہوا ہے
تو یہ کسی نامعلوم سیریل کلر کا کام نہیں جو جوگرز سے نفرت کرتا ہے بلکہ اس معمے کے پیچھے ایک سادہ وجہ ہے اور وہ ہے جوتوں کی صنعت میں آنے والی ایک تبدیلی۔
اس تبدیلی سے پہلے چند اہم نکات جان لیں تاکہ سائنسدانوں کی وضاحت زیادہ آسانی سے سمجھ سکیں۔
یہ اسرار بھی پڑھیں : وہ پراسرار بیماری جس نے لاکھوں افراد کو 'زندہ بت' بنادیا تھا
لاش تیرتی ہے یا ڈوب جاتی ہے
جب کوئی فرد حادثاتی یا خودکشی کے باعث سمندر میں مرتا ہے تو لاش یا تو تیرتی ہے یا ڈوب جاتی ہے۔
اگر وہ تیرتی ہے تو ہوا کا بہاؤ اسے سطح پر لے آتا ہے اور وہ جلد ساحل تک پہنچ جاتی ہے جبکہ ڈوبنے کی صورت میں وہ ایک جگہ رہ سکتی ہے۔
ہوسکتا ہے کہ یقین کرنا مشکل ہو مگر پھیپھڑوں میں ہوا ہو تو جسم کے تیرنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے جبکہ ہوا سے خالی پھیپھڑے جیسے لاشوں کا ڈوبنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
بالخصوص اگر ان کے جسموں پر بھاری ملبوسات یا پھیپھڑوں میں پانی بھر جائے تو لاش ڈوب جاتی ہے اور تہہ میں پہنچ جاتی ہے۔
یہ بھی جانیں : اس 'آسیب زدہ' ٹرین کے بارے میں کبھی آپ نے سنا ہے؟
کورنرز سروس کی محقق یازدجیان نے اس معمے پر کافی کام کیا اور ان کا کہنا تھا کہ گہرے پانیوں میں پانی کا شدید دباؤ لاشوں کو بہنے سے روکتا ہے۔
وہاں ایک مختلف قسم کا جراثیمی عمل ہوتا ہے اور لاش کے ٹشوز کو ایک چربیلے مادے ایڈیپوسیرے میں بدل دیتا ہے جو کم آکسیجن والے ماحول میں برسوں بلکہ صدیوں تک رہ سکتا ہے۔
بحیرہ سالیش میں دریافت ہونے والی پیروں میں یازدجیان نے ایسا ہی کچھ دیکھا اس پر ایڈیپوسیرے کو دیکھا، جس سے عندیہ ملتا ہے کہ جسم کے ڈوبنے کے بعد وہ گلنے سڑنے کے دوران زیرآب رہا، جس سے یہ وضاحت ہوتی ہے کہ وہ ڈوب گئے اور وہی پھنسے رہے، مگر پھر کیا پیروں کو بھی جسم کے ساتھ ہی نہیں جڑے رہنا چچاہیے؟
یہ بھی پڑھیں : 18 سال تک ایئرپورٹ پر پھنسا رہنے والا مسافر
تو پیر ساحل پر کیوں پہنچ جاتے ہیں؟
اس بات کا جواب کورنرز سروس کے محقق بارب میکلنٹوک نے دیتے ہوئے بتایا 'ہمیں لگتا ہے کہ ہم اب جان چکے ہیں کہ ایسے ہر کیس میں کیا ہوا'۔
ایک انٹرویو میں انہوں نے بتایا 2016 میں جب مزید پیر ساحل پر بہہ کر آئے تو ایسے کوئی شواہد نہیں ملے کہ یہ قتل کا نتیجہ ہیں بلکہ اس کی ایک متبادل اور قابل قبول وضاحت موجود ہے۔
مزید پڑھیں : 6 دہائیوں سے معمہ بنی ہوئی تصویر جس کا راز اب تک معلوم نہیں ہوسکا
انہوں نے بتایا کہ جب کوئی سمندر میں ڈوب کر تہہ میں پہنچ جاتا ہے تو ان کی جانب مردار خور لپکتے ہیں۔
مگر یہ مردار خور کافی سست رفتاری سے کھاتے ہیں اور جسم کے سخت کی بجائے نرم حصوں کو ترجیح دیتے ہیں اور انسانوں کے نرم حصوں میں ٹخنے میں بھی شامل ہوتے ہیں۔
ٹخنے نرم ٹشوز اور ہڈیوں پر مشتمل ہوتے ہیں جب ان کو یہ مردار خور چبا لیتے ہیں تو پیر لاش کے زیادہ گلنے سے قبل ہی تیزی سے الگ ہوجاتے ہیں۔
دنگ کردینے والی داستان : وہ باہمت شخص جو سمندر میں گم ہوکر 438 دن گزار کر زندہ بچ گیا
آسان الفاظ میں پورا جسم ڈوب جاتا ہے مگر پیروں کو مچھلیاں جسم سے الگ کردیتی ہیں جو اور ساحل پر پہنچ جاتے ہیں۔
مگر یہاں یہ سوال بھی ذہن میں آسکتا ہے کہ 2007 سے قبل ایسا کیوں دیکھنے میں نہیں آتا تھا تو اس کی وجہ حالیہ برسوں میں جوگرز ٹیکنالوجی میں پیشرفت ہے۔
اس طرح کے جوتے اب زیادہ نرم فوم سے بنتے ہیں جبکہ ان میں ایئر پاکٹس بھی موجود ہوتے ہیں۔
انٹرنیٹ بدل دینے والی داستان پڑھیں : وہ تصویر جس نے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا
بارب میکلنٹوک نے بتایا 'ماضی میں ایسا نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ پہلے کبھی ایسے رننگ شوز موجود نہیں تھے جو اتنی اچھی طرح تیر سکتے ہیں، اسی لیے پہلے پیر بھی جسم کے ساتھ سمندر کی تہہ تک ہی محدود رہتے تھے'۔