طبی ماہرین نے پاکستان میں دستیاب ویکسین کے غیر مؤثر ہونے کا تاثر مسترد کیا
طبی ماہرین نے کووڈ-19 ویکسین کے غیرمؤثر ہونے کے تاثر کو مسترد کرتے ہوئے عوام پر زور دیا ہے کہ وہ جلد سے جلد حفاظتی ویکسین لگائیں اور احتیاطی تدابیر بھی اپنائیں۔
وزیر صحت سندھ ڈاکٹر عذرا پیچوہو کی جانب سے ویڈیو پیغام میں صوبے میں نئی قسم کے وائرس کی موجودگی کی تصدیق کی گئی تھی۔
مزید پڑھیں: 10 سال سے کم عمر بچوں سے کورونا پھیلنے کا امکان بہت کم ہوتا ہے، تحقیق
انہوں نے خبردار کیا تھا کہ ویکسی نیشن غیرمؤثر ہے اور سوالات اٹھائے ہوئے کہا تھا کہ ویکسی نیشن کا کوئی فائدہ ہے بھی یا نہیں۔
تاہم وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے نے دعووں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ فی الحال اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے جس سے یہ پتہ چلے کہ کووڈ-19 ویکسین وائرس کی مختلف اقسام کے خلاف غیرمؤثر ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں لازمی طور پر ویکسی نیشن کا عمل جاری رکھنا چاہیے اور اس وقت کے تمام شواہد یہی عندیہ دیتے ہیں کہ حفاظتی اثر برقرار رکھا جائے گا۔
ویکسین کی افادیت کے بارے میں ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے معاون خصوصی نے ویڈیو بیان میں کہا کہ نئے تغیرات بعض اوقات غیرجانبدار رہتے ہیں، رویوں پر اثر انداز نہیں ہوتے البتہ بعض اوقات کچھ تبدیلیوں کا باعث بنتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کیا بھارت میں کورونا کی دوسری لہر کورونا کی نئی قسم کا نتیجہ ہے؟
ان کا کہنا تھا کہ مثال کے طور پر بی-117 طرز کا وائرس آسانی سے منتقل ہوتا ہے، کچھ قسم کے وائرس کے دوبارہ انفیکشن پھیلانے کی شرح زیادہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ وائرس کی مختلف حالتوں کی تشکیل محض معمولی ارتقا کی بات ہے اور اس میں حیرت کی بات نہیں۔
معاون خصوصی نے کہا کہ بی-117 وائرس کی پہلی مرتبہ تشخیص برطانیہ میں ہوئی تھی لیکن اس وقت یہ دنیا بھر میں عام ہے اور وائرس کی سب سے زیادہ پائی جانے والی قسم ہے، اسی طرح پاکستان میں حال ہی میں بی-1351 [جنوبی افریقہ میں پایا جانے والا) اور پی-1 (برازیل میں پایا جانے والا وائرس) کے کچھ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ویکسین لگوانے کے باوجود ماسک اور دیگر احتیاطی تدابیر کی ضرورت ختم نہیں ہوتی، گوکہ ہم ویکسین لگواتے ہیں اور وسیع پیمانے پر پروگرام کو پھیلا رہے ہیں لیکن اس بیماری کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ایس او پیز پر عمل کرنا بھی ضروری ہے، یہ ایس او پیز ہر طرح کے وائرس کی طرز کے خلاف کام کرتے ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ویکسین وائرس کی مختلف طرز کے خلاف تحفظ فراہم کرے گہ تو انہوں نے کہا کہ آپ پاکستان میں دستیاب ویکسین اعتماد کے ساتھ استعمال کرسکتے ہیں، جب آپ کی باری آئے تو آپ ضرور جاکر ویکسین لگوائیں تاکہ آپ خود کو انفیکشن سے بچا سکیں۔
مزید پڑھیں: کورونا کیسز میں اضافہ: یوم علیؓ پر ہر قسم کے جلوسوں پر پابندی کا فیصلہ
میڈیکل مائیکروبایولوجی اور متعدی امراض سوسائٹی آف پاکستان نے ڈان ڈاٹ کام کو دیے گئے ایک بیان میں کہا کہ کووڈ-19 کی ویکسین تمام سنگین بیماریوں اور اموات سے تحفظ فراہم کرتی ہے۔
ملک میں متعدی بیماریوں کے ماہرین کی نمائندگی کرنے والی ایسوسی ایشن نے کہا کہ ویکسین لگانے والے افراد وائرس سے متاثر ہونے کے بعد بھی انفیکشن کا شکار ہو سکتے ہیں لیکن انہوں نے کہا کہ اس کی علامتیں ہلکی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کمزور مدافعتی نظام کی وجہ سے بزرگ ویکسین کا مکمل کورس کرنے کے بعد بھی شاید مضبوط مدافعتی نظام نہ بنا سکیں اور ہو سکتا ہے کہ انہیں اضافے خوراک کی ضرورت پڑے۔
انہوں نے کہا کہ برطانیہ، جنوبی افریقہ اور برازیل کے طرز کے وائرس کے خلاف سینو فارم اور سینو ویک ویکسین کی افادیت کے حوالے سے ابتدائی نتائج دستیاب ہیں، نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ سینوفارم اور سینوویک ویکسین کے ذریعہ تیار کردہ اینٹی باڈیز مختلف طرز کے وائرس کو مؤثر طریقے سے بے اثر کر سکتی ہیں۔
آغا خان یونیورسٹی میں انفیکشن کے امراض کے شعبے کے سربراہ ڈاکٹر فیصل محمود نے اعتراف کیا کہ یہ معاملہ پیچیدہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کا کورونا کے پیش نظر ایئر ٹریفک کو 80 فیصد کم کرنے کا فیصلہ
انہوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ جنوبی افریقہ کی طرز کے وائرس پر آسٹرا زینیکا، جے اینڈ جے اور نووا ویکس بے اثر ہیں لیکن یہ پھر بھی سنگین بیماری سے بچنے میں مددگار ہے۔
انہوں نے کہا کہ دیگر سینوفارم، سینوویک ، اور کینسو بایو سمیت دیگر ویکسین کو ابھی تک وائرس کی اس طرز پر آزمایا نہیں گیا لیکن اس کے باوجود عوام کو لازمی ویکسین لگوانی چاہیے۔
چینی ویکسین کے لیے عالمی ادارہ صحت کی سفارشات
مارچ میں ہونے والے اجلاس کے بعد عالمی ادارہ صحت کے اسٹریٹیجک ایڈوائزری گروپ کی سربراہی کرنے والے ایلجینڈرو کراویٹونے کہا کہ ادارے کو امید ہے کہ اپریل کے آخر تک سینوفارم اور سونوویک ویکسین پر سفارشات جاری کر دی جائیں گی۔
کراویٹو نے آزاد ماہرین کے بند دروازہ اجلاس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کمپنیوں نے جو معلومات عوامی طور پر شیئر کیں ان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں افادیت کے درجے ہیں جو عالم یادارہ صحت کی ضروریات کے مطابق ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب اس ویکسین کی افادیت تقریباً 50فیصد سے 70 فیصد ہے، ان کے پاس حفاظت کے تمام اعداد و شمار موجود ہیں تاکہ یہ ظاہر کیا جاسکے کہ اس ویکسین کے انسانوں پر کوئی منفی اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔
مزید پڑھیں: بھارت سے آسٹریلیا میں داخلے پر پابندی، خلاف ورزی پر 5سال قید اور جرمانے کا اعلان
پاکستان کے ساتھ ساتھ سینوفارم اس وقت چین اور متحدہ عرب امارات سمیت متعدد ممالک میں استعمال کی جا رہی ہے۔
سینوفارم ویکسین کی افادیت کے حوالے سے عوامی سطح پر کوئی ڈیٹا دستیاب نہیں تاہم اس کو تیار کرنے والے ادارے بیجنگ بایولوجیکل پروڈکٹس انسٹی ٹیوٹ نے کہا ہے کہ یہ ویکسین 79.34فیصد مؤثر ہے۔