پاکستان

مسلم لیگ (ن) اسٹیبلشمنٹ کے بجائے پیپلز پارٹی سے مقابلہ کرنا چاہتی ہے تو کرے،بلاول

اگر مسلم لیگ (ن) جیت جاتی تو میں خود شہباز شریف کو فون کر کے مبارکباد دیتا مگر ان کے ردعمل سے نقصان ان کو ہی ہو گا۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کراچی کے حلقہ این اے-249 میں کامیابی کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے دوست عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے بجائے پیپلز پارٹی سے مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو کریں مگر ہار انہی کی ہوگی۔

کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حلقہ این اے 249 کے ضمنی انتخابات میں پارٹی کے اُمیدوار کی کامیابی پر بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ عوام نے ہمیں اس ضمنی انتخاب میں کامیابی دلا کر ایک مرتبہ پھر ثابت کردیا ہے کہ پاکستان کے عوام اس حکومت کے ساتھ نہیں ہیں، پاکستان کے عوام ہمارے ساتھ ہیں اور اپوزیشن کے ساتھ کھڑے ہیں۔

مزید پڑھیں: کراچی: این اے-249 ضمنی انتخاب میں پیپلز پارٹی کے قادر خان مندوخیل کامیاب

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے عوام نے پھر سے تحریک انصاف کو عبرتناک شکست دلوائی ہے اور کراچی کے عوام نے اس کٹھ پتلی، نالائق اور نااہل حکومت کو واضح پیغام بھیجا ہے کہ اس سلیکٹڈ کی حکومت کو کراچی کے عوام نے مسترد کردیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ غربت، مہگائی اور بے روزگاری کا سامنا کرنے والے عوام نے پیپلز پارٹی کے غریب دوست اور عوام دوست منشور کا ساتھ دے کر اس عوام اور غریب دشمن حکومت کو شکست دی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ پاکستان کی سیاست کے لیے نئے رخ کا ثبوت ہے کہ پاکستان کی سیاست جمہوری قوتوں کی طرف آگے بڑھتی نظر آ رہی ہے۔

بلاول نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی جمہوری اور اپوزیشن کی حکمت عملی کی وجہ سے ہم نے ناصرف حکومت کو پچھلے ضمنی انتخابات میں ملک بھر میں شکست دی بلکہ قومی اسمبلی، چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں شکست دی اور اب ہم نے کراچی کے ضمنی انتخاب میں پیپلز پارٹی نے اس نشست سے کامیابی حاصل کی جس کے بارے میں آپ سب کہہ رہے تھے کہ وہاں سے پیپلز پارٹی نہیں جیت سکتی۔

انہوں نے کہا کہ کراچی کے عوام نے ملیر کے بعد بلدیہ کے ضمنی انتخاب میں یہ ثابت کردیا کہ وہ پیپلز پارٹی کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہیں اور انشااللہ پیپلز پارٹی بھی یہ ثابت کرے گی کہ ہم کراچی کے عوام کی امیدوں کے مطابق کام اور محدود وسائل میں زیادہ محنت سے ان کے مسائل دور کرنے کی کوشش کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: پیپلزپارٹی کا پی ڈی ایم کے تمام عہدوں سے مستعفی ہونے کا اعلان

ایک سوال کے جواب میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے کئی مرتبہ اس نشست سے کامیابی حاصل کی اور ہم سے ہماری یہ کامیابی چھینی گئی تھی، 1970 اور 1988 میں اس نشست سے ہمارا امیدوار کامیاب ہوا لیکن اس کے بعد ہر الیکشن میں پیپلز پارٹی کو تو ووٹ ملے، 2008 کے الیکشن میں 60 ہزار ووٹ ملے تھے اور ہم کہتے ہیں جب صاف و شفاف الیکشن ہوں گے تو پیپلز پارٹی اچھے نتائج لے کر آئے گی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے متعلق فیصلے کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ ہم نے جسٹس قاضی فائز کے خلاف کیے جانے والے غیرقانونی اقدامات کی پہلے بھی مخالفت کی تھی اور ججز کی بلیک میلنگ، ان کی جاسوسی کرنے والوں اور ریفرنس بھیجنے والوں کو اپنے عہدوں پر نہیں رہنا چاہیے تھا اور عدلیہ پر اس طرح کے حملے کرنے کے بعد انہیں مستعفی ہونا چاہیے تھا اور جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بری کر کے اس سازش کو بے نقاب کردیا ہے تو ان لوگوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے کہ جنہوں نے سپریم کورٹ کے معزز جج کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا۔

ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں پیپلز پارٹی عدالتی قتل اور سیاسی انتقام کا نشانہ بن چکی ہے لہٰذا ہم اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ سیاسی انتقام کا یہی معیار جو سپریم کورٹ نے اپنے جج کے لیے رکھا، وہی معیار ان سیاستدانوں کے لیے بھی برقرار رکھا جائے گا جو سیاسی انتقام کا نشانہ بن رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ صدر پاکستان مستعفی ہو جائیں کیونکہ اب وہ اخلاقی طور پر صدر کے عہدے پر برقرار رہنے کے اہل نہیں رہے کیونکہ انہوں نے سپریم کورٹ کے معزز جج کے خلاف غلط، جھوٹا اور جعلی ریفرنس بھیجا، کوئی وجہ نہیں ہے ہمارا وزیر قانون اپنے منصب پر برقرار رہے، مشیر احتساب عہدے پر برقرار رہے، سب کو مستعفی ہونا چاہیے۔

مزید پڑھیں: پی ڈی ایم میں اصل پھوٹ کب اور کیوں پڑی؟

ان کا کہنا تھا کہ خان صاحب اور ان کی پوری کابینہ اس جرم میں شریک ہے، انہوں نے مل کر صدر مملکت کو تجویز دی تھی کہ وہ یہ ریفرنس بھیجیں اور صدر پاکستان کی یہ غلطی تھی، انہیں سوچنا چاہیے تھا کہ میں غلط کام کررہا ہوں اور سب کو اس جرم کا حساب دینا ہو گا۔

بلاول نے کہا کہ پی ڈی ایم کے حوالے سے فیصلے پر قائم ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے اتنے بڑے اتحاد کی بنیاد اس لیے رکھی تھی کہ جمہوریت کی بحالی ہو اور ناصرف ہم قانون کی بالادستی کے لیے پرامن جمہوری طریقہ کار سے بڑھیں اور نالائق، نااہل اور سلیکٹڈ حکومت کو جمہوری ہتھیار استعمال کر کے گھر بھیج سکیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں پیپلز پارٹی نے سیاسی طور پر پورے پاکستان کو ایک راستہ دکھا دیا کہ اگر آپ کو عمران خان کو گھر بھیجنا ہے اور نالائق، نااہل اور سلیکٹڈ وزیر اعظم سے قوم کی جان چھڑوانی ہے تو ہمیں ایک سیاسی جمہوری روڈمیپ پوری قوم کے سامنے رکھ دیا ہے اور یہ یوسف رضا گیلانی کی الیکشن میں جیت اس کا ثبوت تھا۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہمارے اتحاد میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو عمران خان اور عثمان بزدار کو نہیں ہٹانا چاہتے تو میں کیا کروں؟ لیکن پیپلز پارٹی جمہوری انداز میں اپوزیشن جاری رکھے گی۔

مسلم لیگ (ن) کی جانب سے این اے-249 میں مبینہ دھاندلی کے الزامات عائد کیے جانے کے سوال پر پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے کہا کہ اس طرح کے الزامات افسوسناک ہیں، کوئی یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ پیپلز پارٹی نے دھاندلی کی اور اگر کوئی الزام لگا رہا ہے تو اسے یہ الزام ثابت کرنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: پی ڈی ایم اب نہیں رہی، اس میں واپسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، میاں افتخار

ان کا کہنا تھا کہ میں کافی سن رہا تھا کہ اس الیکشن کو ڈسکہ قرار دیا جا رہا ہے لیکن ڈسکہ کی طرح یہاں فائرنگ نہیں تھی جو آپ لوگوں نے کروائی تھی، ڈسکہ کی طرح کہاں پولنگ ایجنٹ کو اغوا کیا گیا، کہاں ہیں غائب بیگ، اپنی ہار پر پردہ ڈالنے کے لیے آپ جھوٹا دھاندلی کا الزام لگائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو کس جماعت نے سب سے زیادہ دھاندلی کی، کونسی جماعت اصل سلیکٹڈ ہے اور اب وہ کس کو لیکچر دیں گے، میں سمجھتا ہوں کہ جھوٹے الزام جمہوری پارٹی پر لگانے کے بجائے ہمارے دوستوں کو کچھ جائزہ لینا چاہیے کہ کیا وجہ ہے کہ جس نشست سے شہباز شریف نے خود الیکشن لڑا تھا، 2 سال کے اندر ان کا ووٹ 35 ہزار سے زائد سے لے کر 15ہزار سے بھی کم ہو چکا ہے اور 7 ہزار ووٹ سے چھٹے نمبر پر رہنے والی پیپلز پارٹی کے ووٹ دوگنے ہو گئے ہیں۔

بلاول نے کہا کہ کراچی کا ضمنی انتخاب ہو یا اپوزیشن لیڈر کا سینیٹ میں مسئلہ ہو، ہمارے مسلم لیگ (ن) کے دوستوں کو ہار ماننا سیکھنا چاہے، یہ بڑا اچھا موقع تھا کہ ہم سب ایک ہی بیان دیتے لیکن ان کو اپوزیشن سے اپوزیشن کرنے کا شوق ہے، ان کو شوق ہے کہ عمران اور اسٹیبلشمنٹ کے بجائے یہ پیپلز پارٹی کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں، پیپلز پارٹی مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو کریں لیکن آپ ہاریں گے۔

ایک سوال کے جواب میں چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ کیا کراچی کے عوام اس نعرے کو مانیں گے کہ مجھے ووٹ دو تاکہ میں استعفیٰ دے سکوں، نہ کوئی سر، نہ پیر، ان کی سیاست اور سیاسی حکمت عملی کا نقصان پوری پاکستانی قوم کو ہو گا، مسلم لیگ (ن) جس کنفیوژن کا شکار ہے اس طرح سیاست نہیں چل سکتی۔

انہوں نے کہا کہ اگر اس الیکشن میں مسلم لیگ (ن) جیت جاتی تو میں خود شہباز شریف کو فون کر کے مبارکباد دیتا اور میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح کا ردعمل انہوں نے اس ہار پر دیا ہے یہ انتہائی بدقسمتی ہے اور اس کا نقصان ان کو ہی ہو گا۔

بحریہ ٹاؤن کے معاملے کا نوٹس لیا ہے، بلاول

دوسری جانب بلاول نے کراچی میں بحریہ ٹاؤن کے ملازمین اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کے ذریعے دیہاتیوں کو بے دخل کرنے کی خبروں کا نوٹس لیتے ہوئے معاملے پر رپورٹ طلب کر لی ہے۔

بلاول نے کہا کہ وہ جمعرات کو این اے-249 کے ضمنی انتخاب کی مہم میں مصروف تھے لیکن سوشل میڈیا پر اس معاملے پر بہت ساری خبریں اور ناانصافی کی شکایات آرہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے کہہ کر معاملے کا نوٹس لے لیا ہے اور ایک دن میں رپورٹ طلب کر لی ہے، وہاں جاری تمام کام رپورٹ آنے تک فوراً روک دیے جائیں۔

گزشتہ روز سوشل میڈیا پر اس طرھ کی رپورٹس منظر عام پر آئی تھیں جس میں کہا گیا تھا کہ بحریہ ٹاؤن کے ملازمین سندھ پولیس کے اہلکاروں کی مدد سے رہائشیوں کو زبردستی ان کی املاک اور زمین سے بے دخل کررہے ہیں۔

قومی عوامی تحریک کے صدر ایاز لطیف پلیجو نے کہا تھا کہ بحریہ ٹاؤن اور صوبائی حکومت کی جانب سے کراچی میں دیہات کو مسمار اور خواتین سمیت سیکڑوں افراد کو زخمی کرنے پر میں ایک احتجاج کا اعلان کرتا ہوں۔

تعلیم کے شعبے سے منسلک سماجی کارکن عمار علی جان نے ٹوئٹر پر پوسٹ کیا تھا کہ این اے-249 کے ضمنی انتخابات کی کوریج کے درمیان ملک ریاض کو راضی کرنے کے لیے ہزاروں مقامی دیہاتیوں کو زبردستی بے دخل کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی، یہ 'بحریہ کی جانب سے اور بحریہ ٹاؤن کے لیے بحریہ ٹاؤن کی جمہوریت ہے'۔

انہوں نے کہا تھا کہ یہ مناظر کراچی کے ہیں، یہ رمضان کے دوران ہو رہا ہے، اس سلسلے میں ملک بھر میں احتجاج ہونا چاہیے تاکہ سندھ حکومت کو اس آپریشن کو روکنے پر مجبور کیا جا سکے۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ سب کے سامنے ہے اور نہ ہی میں اور نہ ہی کوئی اور 'توہین عدالت' کا مرتکب ہونا چاہتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم یقینی طور پر اس طرف توجہ مرکوز کرنا چاہتے ہیں کہ کسی کے ساتھ کوئی ناانصافی نہیں ہو اور خاص طور پر اگر کل کے واقعے میں ناانصافی ہوئی ہے تو اس ناانصافی کی حمایت کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے، انہوں نے مزید کہا کہ متاثرہ لوگوں کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق ان کے حقوق اور رقم ملنی چاہیے۔

بلاول نے دعویٰ کیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے ملیر کے عوام پر 'ایک روپیہ' تک خرچ نہیں کیا گیا اور پیپلز پارٹی بار بار یہ درخواست کرتی رہی ہے کہ ملیر اور سندھ کا پیسہ سندھ پر خرچ کیا جائے۔ یہ سندھ کا پیسہ ہے۔

’میرے جم میں جو شخص جتنی فیس دے سکتا ہے میں قبول کرلیتا ہوں‘

کورونا کے تشویشناک مریضوں کی تعداد جون کے مقابلے میں 57 فیصد زیادہ ہے، اسد عمر

بھارت میں کورونا کیسز میں ایک مرتبہ پھر ریکارڈ اضافہ