سائنسدانوں کا پہلی حاملہ مصری ممی کی دریافت کا دعویٰ
وارسا: پولینڈ کے سائنسدانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ 2 ہزار سال قدیم ممی کے اسکین کے بعد دنیا کی پہلی حاملہ مصری ممی دریافت کرلی گئی ہے، جو دارالحکومت وارسا کے نیشنل میوزیم میں موجود ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ میں فرانسیسی خبر رساں ادارے کے حوالے سے بتایا گیا کہ یونیورسٹی آف وارسا کی ماہر بشریات (anthropologist) اور ماہر آثار قدیمہ (archaeologist) مرزینہ اوزیرک سزیلک نے صحافیوں کو بتایا کہ 'میرے شوہر اسٹینسلا، ایک ماہر مصری آثار قدیمہ، اور میں نے ممی کا ایکسرے دیکھا جس میں مردہ حاملہ عورت (ممی) کے پیٹ میں تین بچوں کے آثار دیکھائی دیئے'۔
مزید پڑھیں: برطانیہ: 1400 سال پرانی 'پراسرار' انسانی باقیات دریافت
اس حوالے سے مزید تجزیے سے انکشاف ہوا اور وارسا ممی پروجیکٹ پر کام کرنے والے سائنس دانوں کا خیال ہے کہ مردہ خاتون کی عمر 20 سے 30 سال کے درمیان تھی اور وہ 26-30 ہفتوں کی حاملہ تھیں۔
ایک اور منصوبے میں شامل پولینڈ اکیڈمی کے سائنسدان ووجیچ ایجسمنڈ نے کہا کہ 'ہم نہیں جانتے کہ ماں کے پیٹ سے ممی بنائے جانے کے وقت ان بچوں کو کیوں نہیں نکالا گیا'، انہوں نے مزید کہا کہ 'اسی لیے یہ ممی منفرد نوعیت کی ہے، ہم نے اس سے پہلے اس طرح کے کیسز نہیں دیکھے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری دریافت دنیا کی پہلی حاملہ ممی ہے'۔
اوزیرک سزیلک نے اندازہ لگایا ہے کہ شاید حمل ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہو یا پھر اس کا تعلق اس وقت کے دوبارہ جنم لینے کے عقائد سے متعلق ہوسکتا ہے'۔
ممی کے تابوت پر موجود علامات کے تجزیے کی بنیاد پر یہ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ممی کا تعلق کسی مرد بچاری سے تھا جو پہلی صدی قبل از مسیح یا پہلی صدی عیسوی کے درمیان زندہ تھے۔
لیکن سائنسدانوں کو اب یقین ہے کہ یہ اس سے بھی قدیم زمانے سے تعلق رکھتی ہے اور وہ اب اس کی ہلاکت کی وجوہات تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ممی کھولی نہیں گئی ہے تاہم اسکین میں عورت کے لمبے گھنگرالے بال اس کے کندھے پر دیکھے جاسکتے ہیں۔
مزکورہ تحقیق آثار قدیمہ کے ایک جرنل (جرنل آف آرکیالوجیکل سائنس) کے حالیہ جائزہ اشاعت میں شائع ہوئی۔
اشاعت کے مطابق 'یہ محفوظ کی گئی حاملہ خاتون کی دریافت کا پہلا کیس ہے، اس کے ذریعے قدیم وقتوں میں حمل اور زچگی سے متعلق نئے ممکنات پر تحقیق کے موقع ملیں گے'۔
یہ بھی پڑھیں: مصر میں 100 سے زائد قدیم تابوت دریافت
ممی کی اسکینگ جی ای کے فراہم کردہ آلات کے ذریعے افیڈیا میڈیکل انالیسز کمپنی سے کروائی گی تھی۔
مذکورہ ممی کو 19ویں صدی میں پولینڈ منتقل کیا گیا تھا اور اسے وارسا یونیورسٹی کے نوادرات کے کلیکشن کا حصہ بنایا گیا تھا۔
اس ممی کو 1917 میں نیشنل میوزیم میں رکھا گیا جسے علامتی تابوت کے ساتھ عوام کے دیکھنے کے لیے پیش کیا گیا۔
یہ رپورٹ 30 اپریل 2021 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی