مغل شہنشاہ عید کس طرح مناتے تھے؟
دنیا کا کوئی بھی زندہ وجود کبھی نہیں چاہے گا کہ اس کی تقدیر میں تپتے صحراؤں میں بھٹکنا لکھا ہو۔ اس پر ہر پل دہکتا اور آگ اگلتا سورج چمکتا رہے۔ وہ یہ بھی نہیں چاہے گا کہ رات بغیر کسی تحفظ اور بستر کے کڑکڑاتی سردی میں گزار دے۔ وہ یہ بھی کبھی نہیں چاہے گا کہ، خشک ہونٹ اور حلق تَر کرنے اور پیاس بجھانے کے لیے اسے طوفانِ نوح کو سہنا پڑے۔ مگر جس طرح کڑی سے کڑی مل کر زندگی کی یہ کہانی بنی ہے اور اس کہانی کے سارے مناظر و کردار ہمارے سامنے ہیں، ان کو دیکھ کر ایسا لگتا نہیں ہے کہ، چاہتیں، تمنائیں اور دیکھے ہوئے خواب سچے بھی ہوتے ہوں گے۔
انسان کا ایک طبقہ تو ایسا ہے جو تمناؤں اور چاہتوں کی شیرینی کا تو ذائقہ تک نہیں جانتا۔ پھر ایک طبقہ ہے جو اس ذائقے کو چکھنے کے لیے سرگرداں ہے، مگر ذائقہ اس سے بھاگتا پھرتا ہے۔ پھر ایک طبقہ ہے جو کچھ چکھ کر اور کچھ خواب دیکھ لیتا ہے۔ یہ ان 3 طبقات کا ذکر ہے جو ہمارے ملکوں میں موجود تھے اور ہیں۔
اب کرتے ہیں ان 2 طبقات کا ذکر، جہاں زندگی کی شیرینی کی نہریں بہتی ہیں۔ ان کی ہر تمنا کو سرخاب کے پَر لگتے ہیں، اور ’ہونا‘ اتنا ہوتا ہے کہ چاہتیں جنم ہی نہیں لیتیں، تمناؤں میں اتنی یکسانیت آجاتی ہے کہ وہاں سے وحشت جنم لینے لگتی ہے۔
چنانچہ ہم اپنے معاشرے کو طبقات میں بٹا ہوا سماج کہتے ہیں۔ بات کو آسانی سے سمجھنے کے لیے ہم اس تصویر کو کچھ اس طرح پینٹ کرتے ہیں کہ: ایک طبقہ وہ جو فصلیں اگاتا ہے، دوسرا وہ جو بیچتا اور بیوپار کرتا ہے، تیسرا وہ جو بادشاہ بن کر ان سب کا مالک بن بیٹھتا ہے۔ کچھ صدیاں پہلے یہ طبقات کی دیواریں کچھ زیادہ ہی اونچی تھیں۔ اب بھی دیواریں ہیں جو بظاہر بلند و بالا نہ سہی مگر اتنی چھوٹی بھی نہیں کہ پھلانگ کر دوسری طرف جایا جاسکے۔
شام کا وقت ہے، سورج ڈوبنے میں ابھی وقت ہے۔ ننگر ٹھٹہ کے بازاروں اور محلوں میں، مغل حکومت کے مقرر کردہ نواب کا ایک آدمی جو اونٹ پر سوار ہے۔ اونٹ پر 2 نقارے توازن میں جمے ہوئے ہیں۔ وہ ان نقاروں پر چوبیں لگاتا گزرتا جاتا ہے۔ یہ اس بات کی منادی ہے کہ کل عید ہوگی۔ اگر عیدالفطر کا موقع ہوگا تو، چاند کی شہادت کے بعد یہ نقارہ بجانے والا انہی راستوں پر نکلے گا اور نقارے بجا کر منادی دے گا۔ ان نقاروں کی آواز جہاں جہاں تک جاتی، ہر امیر و غریب تک آنے والے دن کی خوشی بھی جاتی کہ اگر نئے کپڑے نہیں ہیں تو کپڑے دھو کر پہن لیے جائیں گے۔ گھر میں کچھ میٹھا بنے گا کہ گندم کے آٹے سے مٹکے پر ہاتھ سے بنائی ہوئی سیویاں شیریں گڑ میں پکیں گی۔
اگر کوئی بیوپاری ہوگا تو اس کے گھر میں مرغی کے چاول بھی بنیں گے۔ ساتھ میں دیسی گھی میں آٹے کا شیرہ بھی بنے گا جس میں کشمش کے دانے بھی ضرور شامل ہوں گے۔ ساتھ میں مصری کا شربت بھی ہوگا۔
اس رات ٹھٹہ کی گلیوں میں رات دیر تک گہماگہمی رہی کہ جو بن پڑا کے مصداق جو بنا وہ رشتہ داروں اور پڑوسیوں کو دینے کا سلسلہ جاری تھا۔ صبح کو ابھی مرغے نے اذان دی تو سارا شہر جاگ پڑا کہ عید نماز کی تیاری کے لیے نہانا اور گھر میں جو میٹھا پکا ہے وہ کھا کر مکلی کی طرف نکل پڑنا ہے کہ عید کا بڑا اجتماع وہاں ہوتا ہے۔
ٹھٹہ کا نواب گھوڑے پر سوار جلوس کے ساتھ رواں دواں ہے۔ اس جلوس میں 40 گھوڑے، 20 سے زائد سجے دھجے اونٹ سوار، کچھ بندوقچی بارودی بندوقیں بھی چلا رہے ہیں، جن کی آواز دُور دُور تک جاتی ہے کہ لوگوں کو پتہ چلے کہ ٹھٹہ کا نواب عید نماز پڑھنے جا رہا ہے۔ ساتھ میں ڈھول تاشے اور شہنائی والوں کی ٹولیاں بھی ہیں جو اس مجمعے کو مزید دلچسپ اور مزیدار بنا رہی ہیں۔ لوگ خراماں خراماں آگے بڑھ رہے ہیں۔ نماز کے اختتام پر یہ سلسلہ مغرب کی نماز کی ادائیگی کے بعد شہر کے مرکزی چوراہے پر اجتماعی دعا کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچے گا۔
تاریخ کے صفحات، خاص کر عہدِ تغلق کے زمانے سے، عید (عیدالفطر اور عید الاضحیٰ) کے دنوں سے متعلق تفصیل سے بتاتے ہیں۔ ابنِ بطوطہ ہمارے لیے انتہائی اہم ماخذ رہا ہے۔ چونکہ وہ 9 سے 10 برس یہاں (1333ء سے 1341ء تک) رہا۔ یہ زمانہ محمد بن تغلق کا تھا۔ ابنِ بطوطہ تغلق سلطنت کا حصہ رہا۔ اسے دربار میں خاص اہمیت حاصل تھی۔ اس کا تحریر کیا ہوا سفرنامہ ہمارے لیے مطالعہ تاریخ کا اہم ذریعہ ہے، کیونکہ وہ آج سے تقریباً 700 برس پہلے کی زندگی سے ہمیں متعارف کرواتا ہے۔ اس نے 18 عیدیں یہاں منائیں۔ ہم بھی اس زمانے کے روز و شب کو دیکھنے کے لیے اس کے ساتھ چل پڑتے ہیں۔ لیکن ایک بات ذہن میں ضرور رہے کہ عیدوں کی یہ پھلجھڑیاں فقط محلاتوں میں پھوٹتی ہیں۔
دہلی میں عید کا چاند نظر آچکا ہے۔ نقارے عید کا اعلان کرکے ابھی خاموش ہوئے ہیں۔ ابھی شہر کو سجایا جائے گا۔ ہر فنکار کل اپنی فنکاری دکھانے کے لیے خوشی خوشی اپنی تیاری میں مصروف ہے۔ کوئی 40 فٹ کے لکڑے پر چڑھ کر کرتب دکھائے گا۔ کوئی بندر کو نچا کر اور کوئی بکری اور بندر کا تماشا دکھا کر۔ جادوگر اپنی ہاتھ کی صفائی دکھائیں گے کہ 4 پیسے کما سکیں۔ کل خوراک کی کوئی پریشانی بھی نہیں ہوگی کیونکہ بادشاہ سلامت کا عام لنگر خانہ 3 دن کے لیے عام ہوگا۔
ابنِ بطوطہ لکھتے ہیں کہ ’چاند رات کو بادشاہ، اپنی طرف سے امیروں، مصاحبوں، افسروں اور پرچہ نویسوں کو درجے کے موافق، ایک ایک خلعت بھیجتا ہے۔ بادشاہ کے محل میں چہل پہل ساری رات اپنے عروج پر ہوتی ہے اور دیوان خانوں میں بھی بڑا جوش و خروش ہوتا ہے۔
’جب صبح ہونے والی ہوتی ہے تو ہاتھی سجائے جاتے ہیں، ان پر ریشم کے طلائی اور جڑاؤ جھولیں ڈالی جاتی ہیں۔ 100 کے قریب ہاتھی خاص بادشاہ کی سواری کے لیے مختص ہوتے ہیں۔ ان پر ایک ایک چھتری ہوتی ہے جو ریشم کی بنی اور جواہرات سے جڑی ہوتی ہے۔ چھتری کی ڈنڈی خالص سونے کی ہوتی ہے اور ہر ہاتھی پر ایک ریشمی گدی مرصع بہ جواہرات رکھی جاتی ہے۔ ایک ہاتھی پر بادشاہ سوار ہوتا ہے اور اس کے آگے آگے، زین پوش جن پر جواہرات جڑے ہوتے ہیں۔ ایک عَلم پر بطور پرچم لے کر جاتے ہیں۔ ہاتھی کے آگے غلام پیادہ چلتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کے سر پر چاچی ٹوپی یعنی ساشیہ ہوتی ہے اور کمر پر زرّیں پیٹی۔ بادشاہ کے آگے آگے نقیب بھی ہوتے ہیں جو تعداد میں 300 کے قریب ہوتے ہیں۔ ان میں ہر ایک کے سر پر پوستین کی کلاہ ہوتی ہے۔ کمر میں طلائی پیٹی اور ہاتھ میں تازیانہ جس کا دستہ سونے کا ہوتا ہے۔ صدر جہاں قاضی القضات، کمال الدین غزنوی اور جہاں قاضی القضات ناصرالدین خوارزمی اور تمام قاضی، ذی رُتبہ پردیسی، عراقی، خراسانی اور مغربی سب ہاتھیوں پر سوار ہوتے ہیں اور تکبیر کہتے جاتے ہیں۔
’بادشاہ اس ترتیب سے شاہی محل کے دروازے سے نکلتے ہیں اور لشکر باہر منتظر ہوتا ہے۔ ہر ایک امیر اپنی فوج کے ساتھ الگ الگ کھڑا ہوتا ہے اور ہر ایک کے ساتھ نوبت نقارے بھی ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے بادشاہ کی سواری بڑھتی ہے۔ بادشاہ کے آگے آگے وہ لوگ جن کا تذکرہ کیا گیا ہے، یعنی قاضی اور مؤذن ہوتے ہیں جو تکبیر پڑھتے جاتے ہیں۔ بادشاہ کے پیچھے باجے والے ہوتے ہیں، ان کے پیچھے بادشاہ کے خدمت گار۔ پھر بادشاہ کے بھائی مبارک خان کی سواری مع ان کی فوج اور باجے ہوتے ہیں۔ اس کے بعد بادشاہ کے بھتیجے بہرام خان کی سواری، اس کے بعد بادشاہ کے چچازاد بھائی ملک فیروز کی پھر ملک قبولہ کی۔ یہ امیر بادشاہ کا نہایت مقرب اور منہ چڑھا ہے۔ یہ لوگ جن کا میں نے ذکر کیا ہے وہ امیر ہیں جو ہمیشہ بادشاہ کی خدمت میں رہتے ہیں اور عید کے دن بادشاہ کے ساتھ نوبت نقارے ساتھ لے کر چلتے ہیں اور باقی امیر بغیر نوبت کے جاتے ہیں۔
’جب بادشاہ عیدگاہ کے دروازے پر پہنچتے ہیں تو وہیں کھڑے ہوجاتے ہیں اور حکم دیتے ہیں کہ، قاضی اور مؤذن اور بڑے بڑے امیر اور ذی رُتبہ پردیسی پہلے داخل ہوجائیں، بادشاہ بعد میں اترتا ہے پھر امام خطبہ پڑھتا ہے اور نماز ہوتی ہے۔ اگر بقر عید ہوتی ہے تو نماز کے بعد بادشاہ نیزے سے اونٹ کو ذبح کرتا ہے اور اس سے پہلے اپنے کپڑوں پر ایک ریشمی لُنگی اوڑھ لیتا ہے تاکہ کپڑوں پر خون کے چھینٹے نہ پڑیں۔ قربانی کرکے بادشاہ ہاتھی پر سوار ہوکر محل واپس آجاتا ہے۔
’عید کے دن، دیوان خانے میں فرش بچھایا جاتا ہے اور دیوان خانے کے صحن میں بارگاہ کھڑی کرتے ہیں۔ وہ ایک بہت بڑا خیمہ ہوتا ہے جو بہت سارے موٹے موٹے کھنبوں پر کھڑا کیا جاتا ہے اور اس کے چاروں طرف اور خیمے ہوتے ہیں جن پر ریشم کے بوٹے جن پر رنگ برنگ کے ریشمی پھول بنے ہوتے ہیں وہ لگائے جاتے ہیں۔
’دیوان کے صدر میں ایک بڑا تخت رکھا جاتا ہے۔ یہ تخت خالص سونے کا ہوتا ہے اور اس پر جواہرات جڑے ہوتے ہیں۔ اس پر جب بادشاہ آکر بیٹھتا ہے تو نقیب اور دربان بلند آواز سے بسم اللہ کہتے ہیں۔ اس کے بعد بادشاہ کو سلام کرنے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ ساتھ میں یہ بھی دستور ہوتا ہے کہ جن کو جاگیریں ملی ہوئی ہیں وہ کچھ اشرفیاں لاتے ہیں اور رومال میں باندھ کر، جس پر دینے والے کا نام لکھا ہوتا ہے، سونے کے تھالوں میں ڈالتے جاتے ہیں۔
’اس طرح بہت سا مال جمع ہوجاتا ہے۔ اسی میں سے بادشاہ جس کو چاہے بخشش کرتا ہے۔ جب سلام کا سلسلہ اپنے اختتام کو پہنچتا ہے تو کھانا لایا جاتا ہے۔ عید کے دن بڑی انگیٹھی باہر نکالتے ہیں۔ وہ برج کے شکل کی خالص سونے کی بنی ہوتی ہے اور مختلف حصوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ سب حصے باہر لاکر جوڑے جاتے ہیں۔ اس کے 3 خانے ہوتے ہیں، اور اس میں فراش داخل ہوکر عود اور الائچی اور عنبر جلاتے ہیں۔ اس کی خوشبو سے تمام دیوان خانہ مہک اٹھتا ہے۔ غلاموں کے ہاتھوں میں سونے اور چاندی کے گلاب پاش ہوتے ہیں اور وہ حاضرین پر گلاب اور پھولوں کا عرق چھڑکتے رہتے ہیں۔
’اس کے بعد بادشاہ ایک اور تخت پر جلوس کرتے ہیں، جسے تخت زرین کہا جاتا ہے۔ اس رسم کے بعد گانے بجانے والے آتے ہیں۔ سب سے پہلے راجاؤں کی بیٹیاں آتی ہیں جو اسی برس لڑائی میں پکڑی گئی تھیں۔ وہ اپنا گانا بجانا اور ناچ دکھاتی ہیں اور راگ سناتی ہیں۔ ان کو بادشاہ اپنے بھائی بندوں، دامادوں اور شہزادوں میں تقسیم کردیتا ہے۔ یہ جلوس عصر کے وقت ہوتا ہے۔ دوسرے دن بھی یہ جلوس عصر کے بعد اسی ترتیب سے ہوتا ہے۔ عید کے تیسرے دن بادشاہ کے رشتہ داروں کے نکاح ہوتے ہیں اور ان کو جاگیریں انعام میں ملتی ہیں۔ چوتھے دن غلام آزاد کیے جاتے ہیں، پانچویں دن لونڈیاں آزاد کی جاتی ہیں، چھٹے دن غلاموں اور لونڈیوں کے نکاح ہوتے ہیں اور ساتویں دن خیرات تقسیم کی جاتی ہے۔‘
آپ تھوڑا تصور کی آنکھ سے دیکھیں اور محسوس کریں کہ دن کا کتنی شدت سے انتظار ہوتا ہوگا۔ بڑے شہروں کے قرب و جوار میں وہ غریب آبادیوں میں رہنے والے لوگ، جن کی جھگیوں میں چراغ کو دیا سلائی اس لیے نہیں دکھائی جاتی کہ سرسوں کے تیل کے لیے کچھ کوڑیاں دینا وہ کوڑیوں کا ضیاع سمجھتے۔ جب مسلسل یہ حالات رہیں تو اس ماحول میں بھاگ، نصیب اور قسمت کی آکاس بیل بڑی تیزی سے اگ پڑتی ہے۔ یہ اگر ایسی کیفیت میں اگ پڑے جہاں روشنی کے لیے 2 کوڑیاں دینا درکنار اور پیٹ کے لالے پڑے ہوں تو، اس کی گرفت صدیوں تک اور کچھ سوچنے نہیں دیتی۔ ایسی حالت میں 2 نوالوں کے لیے بے بسی اور مجبوری میں ہاتھ دینے والا نہیں رہتا۔ لینے والا بن جاتا ہے۔
ایسے میں اگر عید کے 7 روز دُور سے ہی سہی یہ عید میلہ دیکھنے کو مل جائے اور کچھ اچھی خوراک پیٹ کو بھی میسر ہو تو بُرا کیا تھا۔ بادشاہ کبھی ہل نہیں چلاتا۔ نہ تپتی دھوپ اور ٹھنڈی اندھیری راتوں میں زمینوں پر پانی دینے جاتا ہے۔ وہ کبھی کپڑے بُننے کی کھڈی پر بیٹھتا ہے اور نہ ہی وہ کبھی گائے بھینس کو چارہ ڈالتا ہے۔ مگر اس کے پاس سب کچھ ہوتا ہے۔ بے تحاشا دولت اور طاقت، بس اس کے لب ہلانے کی دیر ہوتی ہے اور وہ ہوجاتا ہے۔ یہ سب کیسے ہوتا ہے یہ الگ کتھا ہے۔ مگر ہوتا ہے۔ یہ سارے حقائق بادشاہ کو ہیرو بنادیتے ہیں۔ آپ ابھی 700 برس پہلے کا احوال ابن بطوطہ سے سن چکے ہیں۔ ایسی حرکتیں یقیناً بادشاہ ہی کرسکتے ہیں!
عید ایک میلے میں تبدیل ہوجاتی۔ اچھا تھا کہ تفریح کا کوئی سامان تو مہیا ہوتا۔ شہروں کے بازار سجائے جاتے۔ جس کو جو فن آتا وہ پیش کرتا اور جن کو پسند آتا وہ کچھ سکے دے دیتے۔ یہ عید میلہ سال میں 2 بار بڑی شان سے منایا جاتا۔
جب محمد بن تغلق کو زہر دے کر مار دیا گیا تو فیروز تغلق کا زمانہ آیا۔ اس کے زمانے میں عید کے ان میلوں میں اضافہ اور خوبصورتی پیدا ہوئی۔ نمازِ عید کے بعد شام کو جب محفل موسیقی ہوتی تو تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ، فیروز تغلق کے زمانے میں مطربوں کو بڑی اہمیت حاصل تھی۔ بادشاہ تھا، جس کو چاہتا اہمیت دیتا۔
عفیف لکھتے ہیں کہ ’مطرب جب آتے تو زعفرانی لباس پہنے ہوتے، ان کے سروں پر سُرخ دستار ہوتی، ان میں سے بعض مطربوں کا لباس بہت ہی مرصع اور مُکلل (جس پر موتی جواہر جڑے ہوں) ہوتا، بعض لباس کی قیمت 40 ہزار تنکے تک ہوتی۔ مطربوں کے بعد قوالوں کا گروہ ہوتا، پھر اہل طرب آکر رقص کرتے۔ اس کے بعد دربار کی خوانین، امرا، علما اور مشائخ سلام کرنے کے لیے حاضر ہوتے، تمام اراکینِ سلطنت اپنے اپنے مرتبے کے مطابق اپنی اپنی جگہوں پر کھڑے رہتے۔۔‘ اور پھر یہ جشنِ عید کا سلسلہ چلتا رہتا۔
اب ہم عہدِ مغلیہ کا تذکرہ کرتے ہیں، جن کے 16 کے قریب بادشاہوں نے تقریباً 325 برس تک حکومت کی۔ پاک و ہند کے معاشرے نے سب سے زیادہ ان کی ثقافت کا اثر قبول کیا، جن میں رسم و رواج کے ساتھ ساتھ فنِ تعمیر میں بھی انتہائی شاندار اضافہ ہوا۔ ’مغل‘ عید روایتی شان و شوکت کے ساتھ مناتے رہے اور ساتھ میں وقت کے ساتھ عید کے ان میلوں میں دلچسپ تبدیلیاں بھی آتی رہیں۔
عید کا چاند ہوتا تو مفتی اور قاضی بادشاہ کو خبر کرتے۔ یہ اعلان عوام تک پہنچانے کے لیے توپ کے گولے داغے جاتے۔ دہلی میں یہ رواج اب بھی ہے، البتہ اب توپ تو نہیں ہے لیکن گولے ضرور چھوڑے جاتے ہیں۔ عید منانے کے لیے کئی روز سے تیاری ہوتی رہتی، محل اور دربار دلہن کی طرح سجادیا جاتا۔ عید کی صبح بادشاہ ہاتھی پر جلوس کے ساتھ عید کی نماز پڑھنے کے لیے روانہ ہوتا۔
چاؤش و نقیب آگے ہوتے، نقارے کی صدائیں بلند ہوتی رہتیں، شاہی رعب وتاب رکھنے کے لیے کچھ توپیں بھی اس جلوس کے ساتھ چلتیں۔ شہزادوں کے پیچھے محل سراؤں کی پالکیاں ہوتیں، ان کے پیچھے فوج کا ایک دستہ ہوتا۔ ایک ہاتھی پر روپے لدے ہوتے جو راستے میں غریبوں اور مسکینوں میں لٹائے جاتے، عید گاہ تک ایک ہجوم ہوتا، بادشاہ کی عیدگاہ میں پہنچ جانے کی اطلاع دینے کے لیے 21 توپیں چلائی جاتیں۔ منبر کے پاس شاہی خیمہ لگتا جس میں بادشاہ اپنے شہزادوں اور امرا کے ساتھ جاکر بیٹھتا۔ نماز سے پہلے صف بندی ہوتی اور جب امام خطبہ پڑھنے کے لیے منبر پر آتا ہے تو اس کے گلے میں، جواہرنگار قبضے کی تلوار لٹکی ہوتی اور جب خطبے میں بادشاہ کا نام آتا تو ایک توپ کا گولہ چھوڑا جاتا تھا۔ نماز کے اختتام پر، شاہی جلوس پھر اسی شان و شوکت سے واپس ہوتا۔ پھر دیوان عام میں دربار لگتا، دربار کے بعد بادشاہ محل میں جاتا جہاں ایک اور جشن کی ابتدا ہوتی، اس میں بادشاہ بیگمات اور شہزادوں کو خلعت عطا کرتا۔
1040ھ کے ’بادشاہ نامہ‘ میں موجود عید سے متعلق مختصر سا ذکر ہی شاید آپ کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردے۔ مصنف لکھتا ہے کہ ’عید فطر مسرتوں کی نوید کے ساتھ آئی، اسی روز ایک مرصع ہَودَج یمین الدولہ نے پیش کیا تھا جو ایک لاکھ روپے میں تیار ہوا تھا۔ وہ ہاتھی کی پیٹھ پر باندھ دیا گیا۔ بادشاہ دین پرور اس کوہ ہیبت اور فلک حرکت ہاتھی پر بیٹھے۔ 20 ہزار روپے محتاجوں میں تقسیم کے لیے عنایت کیے اور شہزادوں اور دیگر کو صوبیداریاں اور منصب عطا کیے‘۔
تھوڑا اندازہ تو کریں ہاتھی پر بادشاہ کے بیٹھنے کے لیے ایک نشست ایک لاکھ روپے کی۔ جبکہ غریبوں اور محتاجوں کو اس مبارک دن دینے کے لیے خیرات فقط 20 ہزار روپے!
شاہجہاں کو جہاں اور بہت سارے شوق تھے، وہیں عمارات بنانے کا بھی جنون تھا۔ 1060ھ میں، 10 لاکھ روپوں، 6 برسوں اور 5 ہزار مزدوروں کی لاگت سے دہلی کی جامع مسجد تیار ہوئی۔ شاہجہاں نے اس نئی اور شاندار مسجد میں عید نماز ادا کی۔ تعمیرات کے جنون نے دہلی میں عیدگاہ بھی بنوائی۔ یہ زمانہ درحقیقت مغلوں کے کمال کی دوپہریں تھیں۔
شاہجہاں کے بعد محی الدین محمد عالمگیر کا زمانہ آیا۔ تو عالمگیر 21ویں سالِ جلوس تک، عید کا جشن پوری شاہانہ روایتوں کے ساتھ مناتا رہا۔ ’مآثر عالمگیری‘ کی تحریر کے مطابق، ’یہ مسرت انگیز دن آتا تو ہماری سلطنت کی ترتیب و انعقاد کی تیاری بڑے اہتمام سے کرتے، نغموں کی آوازوں سے زمین و آسمان گونج اٹھتے، عالمگیر ہاتھی پر عیدگاہ جاتا۔ عیدگاہ سے واپسی کے بعد دربار میں آتا، تو عطر اور پان تقسیم کیے جاتے، شہزادے اور امرا نذرانے پیش کرتے، خود عالمگیر بھی ان کو خلعت اور مناصب دیتا۔ خلعت کے ساتھ قیمتی موتی اور روپے ہوتے اور یہ جشن کئی روز تک چلتا رہتا‘۔
تاریخ کے صفحات ہمیں بتاتے ہیں کہ، 10ویں سالِ جلوس کے عید والے جشن کے بعد عالمگیر نے عید کے اس جشن کو سادگی سے منانے کا اعلان کیا۔ مگر کچھ برسوں کے بعد یہ جشنِ عید کا سلسلہ پھر شروع ہوگیا کیونکہ ایک برس جس میں 360 دن ہوتے ہیں ان دنوں میں بادشاہ اور بیوپاری کے سوا عوام کو تو حالات نچوڑ کر رکھ دیتے ہوں گے۔ خاص کر ان زمانوں میں جب دوسرے حاکموں کے حملوں کا اندیشہ ہر روز اس کوے کی طرح بولتا رہتا تھا جو روز شام کو منڈیر پر آکر مہمان کے آنے کی خبر دیتا ہے۔ گزرے دنوں میں عام انسان کی زندگی انتہائی مشکل حالات کے جنگلوں میں گھری ہوئی تھی۔ ایسی کیفیتوں میں کسی بہانے اگر میلوں اور جشن کا انعقاد ہوتا تو کچھ پل تفریح کے ضرور مل جاتے تھے۔ ہر جگہ میلوں اور جشن منانے کا سلسلہ اسی ذہنی تفریح کے حصول کی خاطر شروع ہوا اور بڑی کامیابی سے یہ آج تک چل رہا ہے کہ کسی بہانے، کسی بھی صورت میں، کچھ دنوں یا گھنٹوں کے لیے اس ذہنی تناؤ سے آزادی تو نصیب ہو۔
عالمگیر کے بعد مغل خاندان کے 10 حاکم تخت پر بیٹھے۔ ان بادشاہوں کے جوڑوں میں آسودگی نے کچھ ایسے ڈیرے ڈالے کہ ان کی سوچ خوراک اور سرخ ریشمی لباس میں الجھ کر رہ گئی۔ ان کے اباؤ اجداد نے جو یہاں کے لوگوں کا خون بہا کر حکومت قائم کی تھی، تعمیرات کی تھیں، جو بھی کیا وہ ان کی حفاظت نہ کرسکا۔ یہ مغلوں کے وہ حاکم تھے جو اپنے تسلسل کو قائم نہ رکھ سکے۔ اگر یہ وقت کے ساتھ قدم ملا کر چلتے رہتے تو وقت ان کو کبھی ان محلوں کی آسائشوں میں نہ دھکیلتا، بلکہ جو وقت کے ساتھ چلتا ہے، وقت خود اس کے لیے راستہ بناتا ہے۔ محمد شاہ رنگیلا سے جو کمزوری اور بے بسی کی دھار پھوٹی تو اس نے 1857ء میں آکر اپنا سفر مکمل کیا۔
مگر اس زوال کی آخری سرحد پر، تاریخ کے صفحات ہمیں بہادر شاہ ظفر کی شاید آخری عید کے جشن کا احوال سناتے ہیں۔
ان دنوں کمپنی حکومت کی رسیوں کی گانٹھیں روز بروز مغل حکومت کے لیے تنگ سے تنگ ہو رہی تھیں۔ مصنف تحریر کرتے ہیں کہ ’خاندان مغلیہ کے آخری تاجدار کے عہد میں، مغلیہ حکومت برائے نام رہ گئی تھی، اس کی شان و شوکت کو گرہن لگ گیا تھا، لیکن پھر بھی اس کی بہت سی روایتیں باقی تھیں، دربار میں جشنِ عید روایتی طور پر منایا جاتا‘۔
دہلی کے ایک اخبار (احسن الاخبار) مورخہ 8 اکتوبر 1848ء میں، بہادر شاہ ظفر کے جشن عید کا حال کچھ اس طرح درج ہے، ’بادشاہ ہفتے کے دن شوال کی پہلی تاریخ کو قلعے سے باہر تشریف لائے، اور عید کی نماز پڑھنے عید گاہ تشریف لے گئے۔ نماز جماعت کے ساتھ ادا کی اور حسبِ معمول نیاز کی تقسیم کے بعد واپس قلعہ مولیٰ میں آئے۔ آتے جاتے وقت حسبِ ضابطہ شاہی انگریزی توپ خانوں سے سلامی کی توپیں چلائی گئیں۔ شام کے وقت تخت ہوادار پر سوار ہوکر باغ میں رونق افروز ہوئے۔ محفل و رقص سرود منعقد ہوئی، اس کے ختم ہونے کے بعد محل میں جاکر آرام فرمایا۔ ہر طرف سے مبارکباد کی آوازیں آئیں اور توپ خانے سے سلامی کی توپیں چلائی گئیں‘۔
صدیوں سے عید منانے کا سلسلہ ایک شان سے چلتا آیا ہے۔ ہر زمانے نے اپنے ماحول اور حالات کے مطابق اس تہوار کو انتہائی جوش و خروش سے منایا ہے۔ اس روایت سے یہ اخذ ہوتا ہے کہ ہم انسان تنہائی پسند نہیں ہیں۔ ہمیں ایک دوسرے کو خوش دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔ ہر ایک چاہتا ہے کہ دوسرا نئے کپڑے پہنے۔ ہم سب چاہتے ہیں کے عید کے سوا بھی ہمارے خاندان کو لذیذ اور شاندار خوراک ملے۔ ہم انسانوں کے لیے یہ معاشرہ یہ دنیا ہماری کائنات ہے۔ ہم سب چاہتے ہیں کہ، عید کے موقعے پر میلے لگنے چاہئیں۔ عید کی رات گلیوں میں چہل پہل ہو۔ گھروں میں میٹھا بنے۔ ہر کوئی نئے کپڑے پہنے کہ مثبت عمل لافانی ہوتے ہیں۔ وقت ان کو اپنے ساتھ لے کر چلتا ہے اور یہ تہوار وقت کے ساتھ چلتے ہیں۔
حوالہ جات
۔ ’سفرنامہ ابن بطوطہ‘ ۔رئیس احمد جعفری ۔ 2016ء، بک کارنر، جہلم
۔ ’تاریخ فیروز شاہی‘ ۔ شمس سراج عفیف ۔ 2009ء۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور
۔ ’شاہجہان نامہ۔ محمد صالح کمبوہ۔ 2013ء۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور
۔ ’مآثر عالمگیری‘ ۔محمد ساقی مستعد خان۔ 1932ء۔ جامع عثمانیہ، دکن
۔ ’مغل شہنشاہوں کے شب و روز‘۔سید صباح الدین عبدلارحمٰن۔ 2019ء۔ نگارشات، لاہور
۔ ’بادشاہ نامہ‘ ۔ ٹی۔ایس۔مارٹن۔ 2008ء۔ العصر پبلیکیشنز، لاہور
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔
ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔