تحیق کے دوران محقین نے روسی دارالحکومت ماسکو کے ایک ہسپتال میں اپریل سے اگست 2020 کے دوران کووڈ کے باعث زیرعلاج رہنے والے 500 سے زائد بچوں کے والدین سے انٹرویو کیے گئے۔
انہوں نے دریافت کیا کہ ایک چوتھائی کے قرہب بچوں میں گھر لوٹنے کے 5 ماہ بعد بھی علامات کا تسلسل برقرار رہا تھا۔
ان میں سب سے عام تھکاوٹ، نیند اور سنسر مسائل سب سے عام تھے۔
بین الاقوامی سائنسدانوں کی ایک ٹیم کی اس تحقیق کے ابتدائی نتائج کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ آن لائن پری پرنٹ سرور پر جاری کیے گئے۔
یہ نتائج حتمی تو نہیں مگر ابتدائی ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ سے متاثر بچوں میں ابتدائی بیماری کے بعد بھی لانگ کووڈ کی علامات کا خطرہ ہوتا ہے۔
تحقیق میں شامل 518 بچوں میں سے 24 فیصد میں ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے 7 سے 9 گھنٹے بعد بھی علامات کا تسلسل موجود تھا۔
10 فیصد نے تھکاوٹ، 7 فیصد نے نیند میں مداخلت اور 6 فیصد نے سنسری مسائل کو رپورٹ کیا۔
لڑکپن کی عمر میں پہنچ جانے والے بچوں میں چھوٹے بچوں کے مقابلے میں لانگ کووڈ کا خطرہ زیادہ نظر آتا ہے یا الرجی کی تاریخ بھی اس خطرے کو بڑھاتی ہے۔
محقین نے بتایا کہ اگرچہ نتائج ابتدائی ہیں مگر ڈاکٹروں کو بچوں میں لانگ کووڈ کے امکان کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔
اننہوں نے بتایا کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ایک اہم معاملہ ہے، تھکاوٹ سب سے عام مسئلہ ہے، ہم ایک یا 2 دن کی تھکاوٹ کی بات نہیں کررہے بلکہ ایسی تھکاوٹ کی بات کررہے ہیں جو مسلسل برقرار رہتی ہے اور اس کی وجہ کا تعین کرنے کی ضرورت ہے۔
تحقیق کے مطاب 16 فیصد بچوں میں تھکاوٹ کا مسئلہ ہسپتال سے باہر آتے ہی نمودار ہوگیا تھا اور چند ماہ بعد یہ شرح 12 فیصد تک گھٹ گئی۔
مگر اس کے بعد شرح میں کمی سست ہوگئی، 11 فیصد بچوں کو 7 ماہ بعد بھی اس مسئلے کا سامنا تھا۔
اسی طرح ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے بعد 8 فیصد سے زیادہ بچوں کو سونگھنے کی حس سے محرومی کا سامنا ہوا جس مٰں وقت کے ساتھ بہتری آئی مگر 7 ماہ بعد بھی لگ بھگ 6 فیصد نے اس مسئلے کو رپورٹ کیا۔
بالغ افراد میں تو لانگ کووڈ کے حوالے سے کافی کام ہورہا ہے اور اسے اہم مسئلہ سمجھا جارہا ہے مگر اب تک بچوں میں اس حوالے سے زیادہ تحقیق نہیں ہوئی۔