'فعال' آجروں کی تعداد میں کمی سے 'ای او بی آئی' کے مستقبل پر خدشات
قومی احتساب بیورو (نیب) کے خوف اور زیر التوا قانونی چارہ جوئی نے ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹس انسٹی ٹیوشن (ای او بی آئی) کی کارکردگی کو متاثر کیا ہے اور ادارے کے 2013 میں 86 ہزار 587 کے مقابلے میں 'فعال آجروں' کی تعداد 84 ہزار 811 ہوگئی ہے۔
بظاہر ایسا نظر آتا ہے کہ ای او بی آئی جیسے اہم ادارے حکومت کی ترجیح نہیں کیونکہ اس نے کئی ماہ گزر جانے کے باوجود بھی کسی افسر کو ادارے کا بطور چیئرمین تعینات نہیں کیا۔
اپریل 1976 میں قائم ہونے والے 'ای او بی آئی' کا مقصد ادارے سے بیمہ کرانے والے لوگوں یا معذوری یا وفات کی صورت میں ان کے ورثا کو پینشن کی رقم کی ادائیگی یقینی بنانا ہے۔
ای او بی آئی کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت فعال رجسٹرڈ آجروں کی تعداد 84 ہزار 811 اور ادارے سے بیمہ کروانے والوں کی تعداد 86 لاکھ ہے۔ صرف ایک دہائی قبل 56 لاکھ افراد نے ادارے سے بیمہ کرا رکھا تھا۔
سال 2013 میں رجسٹرڈ آجروں کی تعداد 86 ہزار 587 تھی اور 2021 میں یہ تعداد ایک لاکھ 30 ہزار 530 ہے۔
تاہم ای او بی آئی کے سینیئر عہدیدار نے کہا کہ ان ایک لاکھ 30 ہزار 530 رجسٹرڈ آجروں میں سے صرف 84 ہزار 811 'فعال' ہیں کیونکہ گزشتہ چند سالوں کے دوران 41 ہزار 685 افراد نے اپنا کاروبار بند کردیا اور 4 ہزار 23 غیر رجسٹرڈ ہوگئے۔
انہوں نے کہا کہ عدالت کے ازخود نوٹس اور اس کے نتیجے میں نیب کی کارروائی کے بعد ای او بی آئی کے بورڈ نے نہ صرف اسٹاک مارکیٹ اور جائیدادوں میں سرمایہ کاری کا سلسلہ بند کردیا بلکہ اس نے اپنے جاری منصوبوں پر عملدرآمد بھی روک دیا۔
یہ بھی پڑھیں: 18ویں ترمیم کے بعد سے ای او بی آئی کے فنڈز میں مسلسل کمی
سرمایہ کاری کا پورٹ فولیو
اپنے قیام سے 2009 تک ای او بی آئی کی سرمایہ کاری کا پورٹ فولیو (مالی اثاثے) 149 ارب روپے تھا، لیکن 2013 میں یہ بڑھ کر 260 ارب روپے ہوگیا اور یہ امکان ظاہر کیا جارہا تھا کہ اس رفتار سے اس کے اثاثے مزید بڑھ جائیں گے۔
یہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ 2021 میں ادارے کے مالی اثاثے کم از کم تین گنا ہوجائیں گے، لیکن آج یہ 375 ارب پر موجود ہیں۔
ایک اندرونی شخص نے کہا کہ اگرچہ نئے اثاثے حاصل کرنے یا موجودہ اثاثوں کی قدر بڑھنے کے حوالے سے کوئی خاص پیشرفت نہیں ہوئی، لیکن کراچی اور لاہور میں اس کے اثاثوں کی مارکیٹ قیمتوں میں بےپناہ اضافے کے بعد چند سالوں میں ادارے کے مالی اثاثے بڑھ چکے ہیں۔
2013 میں سپریم کورٹ نے 13-2012 کے دوران خریدے گئے اثاثوں پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے معاہدے ختم کر دیے تھے، چند کمپنیوں نے بھی ای او بی آئی کے ساتھ منصوبوں کو ترک کردیا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت کے چیف جسٹس آپ پاکستان افتخار محمد چوہدری نے 2005 میں اسلام آباد کے ڈی ایچ اے فیز ٹو ایکسٹینشن میں ایک ارب 44 کروڑ روپے کی بہت زیادہ قیمت پر خریداری کا معاملہ نہیں اٹھایا تھا۔
تاہم ای او بی آئی نے ان پلاٹوں کا قبضہ نہیں لیا تھا کیونکہ اس علاقے میں ابھی کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوا۔ماہر کے مطابق سرمایہ کاری کا پورٹ فولیو صرف اثاثوں میں سرمایہ کاری کی قدر میں اضافہ کرکے بڑھایا جاسکتا ہے۔
ای او بی آئی نے قانونی چارہ جوئی اور عدالتی کیسز کے باعث اپنی بیلنس شیٹ کو بڑھانا روک دیا۔
صورتحال اس حد تک نازک ہوگئی تھی کہ 2016 میں ای او بی آئی کے اس وقت کے چیئرمین صالح فاروقی نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کو بریفنگ کے دوران خدشات ک اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وسائل میں کمی کے باعث ادارہ 2027 تک پینشنز کی ادائیگی اور اپنے اخراجات پورے کرنے کے قابل نہیں رہے گا۔
مزید پڑھیں: ای او بی آئی پنشنرز کی پنشن میں 20 فیصد اضافہ
ای او بی آئی کا موقف
ای او بی آئی کے ترجمان نعیم شوکت نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ قانونی چارہ جوئی نے ادارے کی کام کی رفتار کو کم کردیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ شرح سود میں کمی سے بھی ای او بی آئی کی سرمایہ کاری کو بُری طرح نقصان پہنچا ہے۔
انہوں نے کہا کہ انتظامیہ معاملات کو درست سمت میں لانے کے لیے ضروری اقدامات اٹھا رہی ہے۔
ترجمان نے ادارے کے سابق چیئرمین کے خدشات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کمیٹی کو 2016 میں تیار کردہ جائزہ رپورٹس کی بنیاد پر بریفنگ دی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ صورتحال میں بہتری آئی ہے اور نئی رپورٹس کے مطابق دستیاب وسائل میں بھی ای او بی آئی کم از کم اگلی دو دہائی تک برقرار رہے گا۔
یہ خبر 26 اپریل 2021 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔