نقطہ نظر

حقیقی دنیا میں محمد رضوان کی فلمی کہانی

شاید رضوان کو نہ کھلانے والا فیصلہ ٹھیک بھی تھا کہ صرف 110 کے اسٹرائیک ریٹ سے رنز بنانے والے کھلاڑی کو کوئی فرنچائز کیوں موقع دے؟

پاکستان کرکٹ ٹیم نے تیسرے ٹی20 میچ میں زمبابوے کو شکست دے کر 3 میچوں کی سیریز 1-2 سے جیتی تو یہ چوتھے نمبر کی ٹیم کی 11ویں نمبر پر موجود ٹیم کے خلاف فتح نہیں لگی بلکہ 2 برابر کی ٹیموں کا مقابلہ لگ رہا تھا۔

ان دونوں ٹیموں میں فرق محمد رضوان کی بیٹنگ کا رہا جنہوں نے 2 بہترین اننگز کھیلتے ہوئے پاکستان کو فتح دلوائی۔ رضوان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ جس میچ میں وہ ناکام ہوئے وہاں قومی ٹیم بھی شکست سے دوچار ہوگئی۔ محمد رضوان نے جہاں اس سیریز میں 186 کی اوسط اور 134 کے اسٹرائیک ریٹ سے 186 رنز بنائے وہیں باقی تمام پاکستانی بیٹسمین 90 کے اسٹرائیک ریٹ سے صرف 201 رنز ہی بنا پائے، اور شاندار کارکردگی کی بنیاد پر انہیں سیریز کا بہترین کھلاڑی بھی قرار دیا۔

لیکن آج سے اگر صرف 6 یا 7 ماہ پیچھے چلے جائیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے یہ کھلاڑی ٹی20 کرکٹ کے لیے بنا ہی نہیں۔ صورتحال یہ تھی کہ رضوان پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں کراچی کنگز کا حصہ تو تھے لیکن انہیں موقع تک نہیں ملتا تھا۔ شاید وہ فیصلہ ٹھیک بھی تھا کہ بھلا صرف 110 کے اسٹرائیک ریٹ سے رنز بنانے والے کھلاڑی کو کوئی فرنچائز بھلا موقع بھی کیوں دے؟

چھکوں اور چوکوں کے اس کھیل میں محمد رضوان کی بطور وکٹ کیپر تو جگہ بنتی تھی لیکن ان کی بیٹنگ ایسی ہرگز نہیں تھی کہ جس کی آج کل ہر ٹیم کو ضرورت ہے۔ لیکن اب حالات بدل گئے ہیں اور قومی ٹیم میں واپسی کے بعد سے رضوان کی بیٹنگ مسلسل زیرِ بحث ہے، خاص طور پر مختصر کرکٹ میں تو وہ کمال کررہے ہیں۔

اس موقع پر یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ آخر یہ تبدیلی شروع کہاں سے ہوئی، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا آغاز نیشنل ٹی20 کپ سے ہوا جب ایونٹ کے دوسرے ہی میچ میں رضوان نے اچانک پہلے میچ کے ٹاپ اسکورر صاحبزادہ فرحان کو ہٹا کر خود اوپننگ کرنے کا فیصلہ کیا۔ 4 نصف سنچریاں، 128 کا اسٹرائیک ریٹ اور بطور کپتان فائنل میں فتح محمد رضوان کے لیے بہترین نتائج تھے۔ لیکن اس سب کے باوجود بطور اوپنر رضوان کی قومی ٹیم میں جگہ نہیں بنتی تھی کہ بابر اعظم پہلے ہی موجود تھے اور اسی ٹورنامنٹ میں فخر زمان اور عبداللہ شفیق کی کارکردگی رضوان سے کہیں بہتر تھی۔

مگر جب آپ کے نصیب میں کامیابی و کامرانی لکھ دی گئی ہو تو پھر اسباب بھی بن ہی جاتے ہیں، تو نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز سے پہلے تقدیر رضوان کے حق میں ہونے لگی۔ نیوزی لینڈ روانگی سے قبل فخر زمان کو بخار ہوگیا اور یوں وہ اس دورے سے باہر ہوگئے، جبکہ پریکٹس کے آغاز پر ہی بابر اعظم ان فٹ ہوگئے اور اچانک یہ فکر لاحق ہوگئی کہ ان دونوں کی غیر موجودگی میں یہ بھاری ذمہ داری کون نبھائے گا؟

اگرچہ ٹیم میں حیدر علی اور عبداللہ شفیق جیسے نوجوان موجود تھے اور ساتھ ہی محمد حفیظ جیسے تجربہ کار بیٹسمین بھی، لیکن انتظامیہ نے عبداللہ شفیق کے ساتھ محمد رضوان کو موقع دینے کا سوچا۔ ابتدائی طور پر اس فیصلے پر سخت تنقید ہوئی اور جب پہلے ٹی20 میچ میں رضوان صرف 17 گیندوں پر 17 رنز ہی بنا سکے تو یہ تنقید بے وجہ بھی نہ محسوس ہوئی۔ لیکن ان کے لیے ایک اچھی خبر یہ تھی کہ دوسری طرف عبداللہ شفیق، حیدر علی اور محمد حفیظ مل کر بھی اتنے رنز نہیں بنا سکے۔ اس میچ میں قومی ٹیم کی حالت اس قدر پتلی تھی کہ 157 رنز کے تعاقب میں آدھی ٹیم محض 39 رنز پر پویلین لوٹ گئی تھی۔

بہرحال دوسرے ٹی20 میچ میں محمد رضوان کے ساتھی عبداللہ شفیق کو بدل کر حیدر علی کو یہ ذمہ داری سونپی گئی مگر اس تبدیلی کے باوجود نتائج میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور یوں 3 میچوں کی سیریز میں قومی ٹیم کو فیصلہ کن 0-2 سے شکست ہوگئی۔

اس میچ میں بھی رضوان نے کوئی اہم کارنامہ سرانجام نہیں دیا اور 20 گیندوں پر صرف 22 رنز ہی بنا پائے اور اب صرف ایک میچ باقی تھا۔ اس موقع پر اعظم خان، ذیشان اشرف اور کئی دوسرے آپشنز کی باتوں نے زور پکڑ لیا، لیکن رضوان کے نصیب اچھے تھے کہ انہیں ایک اور موقع دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ لیکن اب ان پر دباؤ بہت زیادہ بڑھ چکا تھا کیونکہ اس میچ میں ناکامی کی صورت میں رضوان کے بیٹنگ آرڈر میں تبدیلی سے زیادہ یہ خوف تھا کہ انہیں شاید ٹیم سے ہی باہر کردیا جائے۔

اس میچ میں قومی ٹیم کو جیت کے لیے 178 رنز درکار تھے اور اس کے حصول کے لیے 8.5 سے زائد کا رن ریٹ درکار تھا اور اس وقت تک ٹی20 انٹرنیشنل میں رضوان کا اسٹرائیک ریٹ 100 سے بھی کم تھا، لیکن یہ دن رضوان کے لیے کوئی خاص پیغام لے کر آیا تھا۔ اپنے پہلے 25 میچوں میں رضوان نے صرف 2 چھکے لگائے تھے لیکن صرف اس ایک میچ میں وہ صرف 3 چھکے لگانے میں کامیاب نہیں ہوئے بلکہ 150 سے زائد کے اسٹرائیک ریٹ سے بیٹنگ کرکے انہوں میں قومی ٹیم کو وائٹ واش ہونے سے بھی بچا لیا۔

2 ٹیسٹ اور 3 ٹی20 میچوں پر مشتمل اس سیریز میں قومی ٹیم کو بس یہی ایک واحد فتح نصیب ہوئی اور اس کا سہرا رضوان کو ہی جاتا ہے۔ اگرچہ اس میچ میں محمد حفیظ نے بھی رضوان کا اچھا ساتھ دیا جبکہ فہیم اشرف نے بھی 4 اوورز میں صرف 20 رنز دے کر 3 وکٹیں لے کر شاندار باؤلنگ کا مظاہرہ کیا مگر فتح میں اہم ترین کردار بہرحال رضوان کا ہی تھا۔

لیکن کیا محض ایک میچ میں اچھی کارکردگی کی بنیاد پر پاکستان کے دورے پر آئی جنوبی افریقہ کے خلاف رضوان کو بطور اوپنر مزید موقع ملنے کی کوئی امید تھی؟ یہ سوال اس وقت ضرور اہمیت اختیار کرجاتا جب فخر زمان کو موقع میسر آجاتا اور نوجوان عبداللہ شفیق ٹیم سے ڈراپ نہیں ہوتے۔ بہرحال کپتان بابر اعظم کی واپسی کی اچھی خبر کے ساتھ یہ بھی خبر ملی کہ ان کے ساتھ رضوان ہی بطور اوپنر میدان میں اتریں گے اور اس موقع کا فائدہ رضوان نے دونوں ہاتھوں سے اٹھایا۔

مہمان جنوبی افریقہ کے خلاف کھیلے جانے والے پہلے ٹی20 میچ میں رضوان کو دیکھ کر تو ایسا لگا جیسے انہوں نے وہیں سے بیٹنگ شروع کی جہاں نیوزی لینڈ کے خلاف تیسرے ٹی20 میچ میں روکی تھی۔ رضوان اس میچ میں پاکستان کی طرف سے ٹی20 انٹرنیشنل میچ میں سنچری بنانے والے دوسرے پاکستانی بیٹسمین بن گئے تھے۔ اس سے پہلے یہ اعزاز صرف احمد شہزاد کو حاصل تھا، جو انہوں نے 2014ء میں بنگلہ دیش کے خلاف حاصل کیا تھا۔ رضوان نے اس میچ میں تن تنہا ہی قومی ٹیم کو ایک میچ وننگ ٹوٹل تک پہنچا دیا۔ محمد رضوان کی یہ اننگ کتنی اہم تھی اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگا لیجیے کہ قومی ٹیم کی طرف سے رضوان کے 104 رنز کے بعد جو سب سے بڑا اسکور تھا وہ حیدر علی کی جانب سے بنایا گیا 21 رنز کا تھا۔

یہ وہ موقع تھا جہاں سے رضوان نے پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھا اور پھر اگلے دونوں ٹی20 میچوں میں بھی انہوں نے بالترتیب 51 اور 42 رنز کی اہم اننگز کھیلی اور خود کو اس فارمیٹ کے لیے بہترین اوپنر ثابت کردیا۔

بس پھر رضوان کی یہ فارم دورہ جنوبی افریقہ اور زمبابوے میں بھی جاری رہی۔ اس مختصر سے عرصے میں محمد رضوان نے 11 ٹی20 اننگز میں اپنا اسٹرائیک ریٹ 97 سے 127 تک اور اوسط کو 17 سے 44 تک پہنچا دیا ہے۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ ٹی20 انٹرنیشنل میں عالمی سطح پر بیٹنگ اوسط کے اعتبار سے رضوان کا نمبر پانچواں ہے۔

ان آخری ٹی20 انٹرنیشنل میچوں میں محمد رضوان ایک سنچری اور 6 نصف سنچریاں بھی اسکور کرچکے ہیں۔ بطور اوپنر محمد رضوان کی اوسط 82 اور اسٹرائیک ریٹ 140 ہے، لیکن حیران کن طور پر اب بھی رضوان کی جگہ کسی ایسے اوپنر کو موقع دیے جانے کی باتیں ہورہی ہیں جو پاور پلے کا مناسب فائدہ اٹھا سکے۔

اس سال محمد رضوان کی کارکردگی کس قدر اچھی رہی، اس کو ثابت کرنے کے لیے یہ خبر کافی ہے کہ وزڈن نے سال کے پانچ بہترین کھلاڑی میں رضوان کو بھی شامل کیا ہے۔ آخری بار اس فہرست میں پاکستان کے یونس خان اور مصباح الحق 2017ء میں شامل ہوئے تھے۔

محمد رضوان ٹیسٹ کرکٹ میں تو اچھا کھیل پیش کر ہی رہے تھے لیکن ٹی20 کرکٹ میں ان کی اس فارم نے قومی ٹیم کی بڑی مشکل آسان کردی ہے۔ سال 2021ء ٹی20 ورلڈکپ کا سال ہے اور ورلڈکپ کے علاوہ بھی پاکستان کو کئی اہم ٹی20 سیریز کھیلنی ہیں بشمول جولائی میں دورہ انگلینڈ، جہاں قومی ٹیم کو 3 ٹی20 میچ بھی کھیلنے ہیں۔ امید ہے کہ محمد رضوان اپنی موجودہ فارم کا بہترین فائدہ اٹھائیں گے اور پاکستان کو مزید میچ اور سیریز میں فتوحات دلوائیں گے۔

شہزاد فاروق

ایم بی اے مارکیٹنگ کرنے کے بعد نوکری سیلز کے شعبے میں کررہا ہوں۔ کرکٹ دیکھنے اور کھیلنے کا بچپن سے جنون تھا ۔ پڑھنے کا بچپن سے شوق ہےاور اسی شوق نے لکھنے کا حوصلہ بھی دیا۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔