پہلی بار سری لنکن راہبوں کا دورہ پاکستان اور اس کے ممکنہ اثرات
ہمارے دادا جی گوکہ اَن پڑھ تھے مگر اکثر بڑے پتے کی بات کیا کرتے تھے۔ جیسے ایک روز ان کا کہنا تھا کہ ہمارا سوات بتوں کی پوجا کرنے والوں کے لیے بالکل ویسا ہے جیسے ہم مسلمانوں کے لیے مکہ مکرمہ ہے۔
آج ٹھیک 30 سے 32 سال بعد دادا جی کی اس کہی ہوئی بات پر سری لنکا سے آئے ہوئے بدھ مت مذہب کے ایک وفد کے بزرگ راہب 'ڈاکٹر ولپولے پائنندانا' (Dr. Walpole Piyanandana) نے یہ کہتے ہوئے مہرِ تصدیق ثبت کردی کہ بدھ مت کے 2 فرقوں 'مہایانا' اور 'وجریانا' کا آغاز سوات کی سرزمین سے ہوا ہے۔
ڈاکٹر ولپولے نے بتایا کہ 'سوات پوری دنیا کے بدھ مت پیروکاروں کے لیے انتہائی اہم ہے۔ یہاں سے بدھ مت کے 2 فرقوں مہایانا اور وجریانا کا نہ صرف آغاز ہوا بلکہ اس علاقے سے شہنشاہ اشوکا نے پیغام رسانوں کو 18 مختلف ممالک میں بدھ مت کی ترویج کے لیے بھیجا۔ اس کے علاوہ شہنشاہ اشوکا نے یہاں کثیر تعداد میں خانقاہیں اور رہائش گاہیں بھی تعمیر کروائیں'۔
بزرگ راہب نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے اس نکتے پر زور دیا کہ بدھ مت کے پیروکار پاکستان بالعموم اور سوات بالخصوص آنا چاہتے ہیں۔ ان کے لیے اگر حکومتِ پاکستان آسانیاں پیدا کرے، تو یہ بہت زبردست کام ہوگا۔ وہ کہتے ہیں کہ 'یہاں پوری دنیا، مثلاً سری لنکا، ویتنام، کمبوڈیا، کوریا، چین، تبت، بھوٹان، نیپال حتیٰ کہ امریکا سے بدھ مت کے پیروکار آنا چاہتے ہیں اور اپنی مذہبی رسومات ادا کرنا چاہتے ہیں‘۔
ڈاکٹر ولپولے پائنندانا' کے مطابق بدھ مت کے 3 فرقے ہیں: مہایانا' (Mahayana Buddhism)، 'وَجریانا' (Vajrayana Buddhism) اور 'تِھراوادا (Theravada Buddhism)۔
ڈاکٹر ولپولے پائنندانا' کا کہنا تھا کہ 'ہمارا یہ وفد جو آج پاکستان آیا ہے، یہ مستقبل قریب میں ایک طرح سے سری لنکا اور پاکستان کے درمیان بہت بڑے پُل کا کردار ادا کرے گا‘۔
سری لنکا کے بدھ مت راہبان کے دورہ سوات کی جھلکیاں:
سری لنکا سے تعلق رکھنے والے بدھ مت کے راہبان نے سوات کا دورہ کیا۔ اس موقعے پر انہوں نے اپنی مرکزی عبادت گاہ سیدو شریف خانقاہ اور اسٹوپا میں اپنی مذہبی رسومات ادا کیں اور دعا مانگی۔ اس موقعے پر بدھ راہبوں نے زرد رنگ کے 2، 3 اقسام کا کپڑا پہن رکھا تھا، جس میں زرد رنگ، سرخ مائل زرد رنگاور کلیجی رنگ شامل تھا۔
اس حوالے سے وفد کے ساتھ آئے ہوئے ایک پاکستانی گائیڈ نے بتایا کہ ان کے کپڑوں میں موجود مختلف رنگوں کا فلسفہ بڑا دلچسپ ہے۔ 'جس طرح بہار کی آمد ہوتی ہے، تو پتے ہرے ہوتے ہیں۔ وقتِ خزاں یہ زرد پڑ جاتے ہیں اور آخر میں کلیجی رنگ بدلتے ہی جھڑ جاتے ہیں۔ انسانوں کا بھی یہی حال ہے۔ جوانی اور بڑھاپے کے اسٹیج سے گزر کر آخر موت کو گلے لگا لیتے ہیں'۔
سری لنکا سے آنے والا 16 رکنی وفد 11 راہبوں اور سرکاری عملے کے 5 افراد پر مشتمل تھا۔ وفد جیسے ہی اپنی مرکزی عبادت گاہ پہنچا، تو فرطِ مسرت سے ان کی آنکھیں نم تھیں۔ انہوں نے اوّل اسٹوپا کے گرد چکر لگائے اور بعد میں اپنی مذہبی رسومات ادا کیں۔ آخر میں یہ سلسلہ دعائیہ تقریب پر ختم ہوا۔
سوات پہنچنے کے بعد راہبوں نے شنگردار اسٹوپا، بت کڑہ 1 اور جہان آباد بدھا کا بھی دورہ کیا اور وہاں بھی اپنی مذہبی رسومات ادا کیں۔
وفد نے 'سوات میوزیم' کا بطورِ خاص دورہ کیا۔ دراصل 'سوات میوزیم' میں ایک بڑا پتھر رکھا گیا ہے، اور بدھ مت کے عقیدت مندوں کے مطابق وہ پاؤں کے نشان درحقیقت گوتم بدھ کے نقشِ پا ہیں۔
ڈاکٹر ولپولے پائنندانا کے بقول وہ بہت پہلے سے اس کوشش میں تھے کہ یہاں آکر مقدس مذہبی مقامات کا دیدار کا موقع نصیب ہوجائے۔ 'عالمی میڈیا میں پاکستان کا ایسا نقشہ کھینچا گیا ہے کہ یہاں آنے کا سوچ کر بھی لوگ جھرجھری محسوس کرتے ہیں۔ میڈیا پر دکھایا جاتا تھا کہ پاکستان میں لوگ بدھ مت کے ماننے والوں کا گلا کاٹتے ہیں۔ یوں ہمیں خاندان والوں کی طرف سے اجازت نہیں ملتی تھی۔ مگر جیسے ہی ہم یہاں آئے اور پاکستان کے عوام کا بالعموم اور سوات کے مہمان نواز عوام کا بالخصوص دوستانہ رویہ دیکھا، تو میں متاثر ہوئے بنا رہ نہیں پایا۔ چھوٹے بڑے ہمیں ماتھے پر ہاتھ رکھ کر اور دُور سے ہاتھ ہلا ہلا کر ویلکم کہتے رہے'۔
ڈاکٹر ولپولے پائنندانا نے اس عزم کا اظہار کیا کہ اب بڑی تعداد میں سری لنکا سے لوگ عبادت کے لیے آئیں گے۔ 'یہ وفد پاکستان اور سری لنکا کے بیچ پُل کا کردار ادا کرے گا'۔
دنیا بھر میں بدھ مت ماننے والوں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق 53 کروڑ 50 لاکھ ہے۔
سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سے ایک کلومیٹر دُور 'بت کڑہ 1' دنیا بھر کے بدھ مت ماننے والوں کی مرکزی عبادت گاہ ہے، جو بت کڑہ سیدو شریف میں واقع ہے۔ اس کے علاوہ بت کڑہ 2، سیدو شریف اسٹوپا، شنگردار اسٹوپا، جہان آباد بدھا، وہاڑا (Double Dome Structure) سمیت اہم مقدس مقامات بھی سوات کے ماتھے کا جھومر ہیں۔
سوات میں سیاحت سے وابستہ حلقوں کا ماننا ہے کہ مذہبی سیاحت معیشت کو سہارا دے سکتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں اب بھی 40 فیصد سے زیادہ آثار زمین کے اندر دبے پڑے ہیں۔
سری لنکن وفد نے جہاں اپنی مذہبی رسومات ادا کیں، کتب میں اس جگہ کو 'سیدو شریف اسٹوپا' لکھا گیا ہے۔ اس حوالے سے تاریخی کتب میں درج ہے کہ یہ بدھ مت کی ایک اہم خانقاہ ہے۔ اطالوی آثارِ قدیمہ کے ماہرین اس مقدس عبادت گاہ کو پہلی صدی سے چوتھی صدی عیسوی تک کی تعمیر مانتے ہیں۔ خانقاہ دو حصوں پر مشتمل ہے۔ نچلی سطح پر مرکزی اسٹوپا ہے جس کے ارد گرد چھوٹے اسٹوپے اور وہاڑے ہیں جبکہ بالائی سطح پر خانقاہ کے آثار موجود ہیں۔
یہ مستطیل شکل میں بنی ہوئی خانقاہ ہے جہاں مشرقی اور مغربی اطراف میں 2 منزلہ کمرے تھے جبکہ وسطی صحن چاروں اطراف سے کمروں سے گھرا ہوا ہے۔ بدھ مت کی اس مقدس عبادت گاہ کو بدھ مت سے قبل رہنے والی قوم نے قبرستان کے اوپر بنایا گیا ہے۔
اطالوی آثارِ قدیمہ کے ماہر ڈاکٹر فیسنا نے یہاں پر ابتدائی گندھارا فنِ تعمیر کی تقویم کا تعین کیا ہے۔ اطالوی ماہرین کے مطابق مرکزی اسٹوپا کے چاروں طرف سرخ رنگ کے عظیم الشان ستون بنائے گئے تھے۔ بدھ مت کے پیروکار جب بھی سوات آتے ہیں یہاں پر اپنی مذہبی رسومات ادا کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
امجد علی سحابؔ روزنامہ آزادی اسلام آباد اور باخبر سوات ڈاٹ کام کے ایڈیٹر ہیں۔ اردو بطور مضمون پڑھاتے ہیں، اس کے ساتھ فری لانس صحافی بھی ہیں۔ نئی دنیائیں کھوجنے کے ساتھ ساتھ تاریخ و تاریخی مقامات میں دلچسپی بھی رکھتے ہیں۔
امجد علی سحابؔ روزنامہ آزادی اسلام آباد اور باخبر سوات ڈاٹ کام کے ایڈیٹر ہیں۔ اردو بطور مضمون پڑھاتے ہیں، اس کے ساتھ فری لانس صحافی بھی ہیں۔ نئی دنیائیں کھوجنے کے ساتھ ساتھ تاریخ و تاریخی مقامات میں دلچسپی بھی رکھتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔