مصر کے اوسیرس بازار سے کراچی کی لی مارکیٹ تک
ہر آنکھ کے دیکھنے کا اپنا زاویہ ہے، یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ 2 وجود کسی منظر کو ایک جیسا دیکھیں۔ پھر ہر ایک وجود کی الگ ایک کائنات ہے، اس کے اپنے زمین اور آسمان ہیں، اس لیے وہ کسی تصور یا عکس کو آپ کی طرح سوچے یہ بھی ممکن نہیں ہے۔
مگر ہزاروں برسوں کی ذہنی ارتقا کے سفر نے ہمیں لگ بھگ سوچنے کے قابل بنایا ہے۔ اس قابلیت نے ہمیں مثبت اور منفی میں تمیز کرنا سکھایا ہے۔ جس کی وجہ سے ہم اجتماعی سوچ کے دائرے میں سفر کرنا سیکھے ہیں۔ اسی حقیقت کی چھاؤں میں انسان نے مل جُل کر ترقی کی منازل طے کی ہیں لیکن ایک کیفیت ابھی تک ہمارے ذہنوں میں کسی گھنے برگد کے پیڑ کی طرح موجود ہے۔ وہ ہے ذاتی پسند اور نا پسند۔ اب یہ درست ہے یا نہیں یہ کام ہم سائنسدانوں اور فلسفیوں کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔
یہ 1845ء کے گرم دنوں کی ایک ٹھنڈی صبح کی بات ہے۔ ’رچرڈ برٹن‘ جو ایسٹ انڈیا کمپنی کی 18ریجمنٹ کا کیپٹن تھا، اس نے کل شام کو ایک پارسی ’میروانجی برجو جی‘ (Merwanji Burjo Ji) کو صبح 5 بجے تانگہ بھیجنے کو کہا تھا کہ وہ صبح کو جلدی ’منگھو پیر‘ کے لیے روانہ ہوسکے۔
مگر میروانجی نے یہ تانگہ 6 بجے بھیجا ہے لہٰذا برٹن ہمیشہ کی طرح مقامی لوگوں پر سخت ناراض ہے۔ وہ لکھتا ہے ’جب میں نے تانگہ لے کر آنے والے ہندو کو ایڈوانس کرایہ ادا کیا تو وہ ہنسا اور کمزور گھوڑوں کو 2 چابکیں رسید کیں۔ ہمارا سفر شروع ہوا۔ ہمارا تانگہ صدر بازار سے ہوتا ہوا نیپئر روڈ پر پہنچا۔ پھر ہم آئرش پُل سے ہوکر آگے بڑھے۔ ہمارے راستے کے دائیں ہاتھ پر بلوچ ریجمنٹ کی بیرکس ہیں‘۔
اس کے بعد وہ سرکاری باغ اور ساتھ میں پانی کے کنوؤں اور سبزی کے باغات کی بات کرتا ہے۔ باتیں کرتا اور مقامی لوگوں پر غصہ نکالتا وہ قدیم کراچی کا ذکر کرتا ہے۔ وہ لکھتا ہے ’کراچی کا قدیم قلعہ اور اس میں بنے مکانات ’لئی‘ (Tamarisk) کی لکڑی اور گارے کے بنے ہوئے تھے۔ وسطی ایشیا میں بھی تعمیرات کے حوالے سے اس گارے کی بڑی اہمیت رہی ہے کیونکہ اس کے بنے ہوئے گھر گرم اور ٹھنڈے دیر سے ہوتے ہیں۔ لیاری ندی کے کنارے آپ کو ایسے بنے گھروں کی قطاریں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ لیاری ندی کے جنوب میں ایک بازار سے آپ گزریں گے تو مرچوں اور گرم مصالحوں کی تیز خوشبو آپ کی ناک کو بہت متاثر کرے گی۔ پھر اس مارکیٹ میں تھوڑا آگے جائیں تو آپ کو جڑی بوٹیوں کو کوٹنے کی آواز سنائی دے گی ساتھ میں ان کی عجیب قسم کی بُو آپ کے دماغ پر چڑھ جائے گی۔ اس بازار سے گزرتے ہوئے ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے ہم مصر کے اوسیرس بازار سے گزر رہے ہیں‘۔
اگر ایک زاویے سے دیکھیں تو کل کی بات ہے، مگر میں جس وقت ریور (River) روڈ کے نکڑ پر بنی حلوے کی قدیم دکان پر شیریں حلوہ کھا رہا تھا تب اس بازار سے برٹن صاحب کو گزرے پورے 175 برس گزر چکے تھے۔ حلوے کی شیرینی میرے منہ میں گھلتی تھی اور میرا ساتھی اقبال کھتری صاحب تصاویر بنا رہا تھا۔ مجھے نہیں پتا کہ جب برٹن یہاں سے گزرے ہوں گے تب یہ حلوے کی دکان تھی بھی یا نہیں مگر مالک نے بتایا کہ 'جب لیاری ندی میں پانی بھر آتا اور یہاں تک نہر کی صورت میں چلا آتا تب بھی ہماری دکان اس کے کنارے پر تھی۔ ایک چھپرے کی کیفیت میں ہی سہی مگر موجود ضرور تھی'۔
برٹن کی تحریر سے مجھے ہوسکتا ہے کہ کوئی اختلاف ہو مگر میں اس صاحب کا اس حوالے سے یقیناً شکر گزار ہوں کہ اس نے باتوں باتوں میں ایک شاندار بات کہہ دی اور اس قدیم مارکیٹ کو مصر کے قدیم ’خان الخلیلی بازار‘ (یہ بازار 1385ء میں بنی تھی) سے مشابہت دے دی، اور یہ ایک یادگار اور حقیقی نسبت تھی جو برٹن نے محسوس کی اور دی۔
دراصل وہ ساری چیزیں یہاں تک کہ جڑی بوٹیاں جو اوسیرس کے بازار میں موجود ہیں وہ یہاں بھی دستیاب ہیں۔ کمال یہ بھی ہے کہ جن جن لکھاریوں، سیاحوں یا ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے مصر کو دیکھا اور پھر سندھ کا رخ کیا وہ ہمیشہ ان دونوں کو ایک جیسا مانتے ہیں۔ دونوں کے طبعی حالات ایک جیسے ہیں۔ لباس ایک دوسرے سے کافی ملتے جلتے ہیں، جسمانی بناوٹ اور رنگ بھی ایک جیسے ہیں۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ دونوں ہی قدیم تہذیبوں کو تخلیق کرنے والے ہیں۔ اس بارے میں کسی دوسری نشست میں بات کریں گے۔
جب میں نے حلوے کی جو تھوڑی مقدار تھی اس کو ختم کیا تو اتنے میں اقبال صاحب اپنا کام ختم کرکے ٹیبل پر آگئے اور ساتھ میں اپنے ان گزرے دنوں کو ساتھ لائے جو انہوں نے ان گلیوں اور بازاروں میں دوڑتے گاتے، برساتوں میں نہاتے اور عیدوں کی پھلجھڑیاں چھوڑتے گزارے تھے۔
’کیا فرق محسوس کرتے ہیں تب میں اور اب میں؟‘، میں نے پوچھا۔
اقبال بھائی نے پھیکی چائے کی چسکی لی اور بولے، ’فرق تو ہے۔ 2 بالکل برعکس مناظر ہیں۔ ایک وہ زمانہ جب ضیاالحق کا مارشل لا نہیں لگا تھا اور دوسرا وہ منظر جو اس مارشل لا کے بعد پینٹ ہوا۔ پہلے منظر میں: ان گلیوں میں موسیقی بہتی تھی، کوٹھے تھے جہاں عورتیں گاتی تھیں۔ سنیماؤں کا زمانہ تھا۔ بلبل ہزار داستان جیسی کئی خوبصورت آوازیں تھیں جن کو سننے اور دیکھنے لوگ دُور دُور سے آتے۔ ان گانے والیوں کے مکانوں پر سُرخ بلب جلتے، مطلب یہ اس وقت کا سچ تھا کوئی مانے نہ مانے۔ اس کے بعد ضیا صاحب کی عنایتوں سے ہارمونیم کی جگہ کلاشنکوف نے لے لی، بلبل ہزار داستان کی جگہ سفید رنگ کا پاؤڈر یعنی ہیروئن نے لے لی۔ سُرخ بلب یہاں سے بجھے تو نہ جانے کہاں کہاں جلے۔ بہت فرق ہے تب میں اور اب میں‘۔
اقبال بھائی کے طویل جواب کا لب لباب یہ تھا کہ کراچی کے اس وسیع شہر کی گلیوں میں اب جو ہزاروں کہانیاں ہر روز پنپتی ہیں وہ شاید کبھی جنم نہ لے پاتیں اگر 1729ء میں کھاڑک بندر بلوچستان میں ریت نہ بھرتی۔
1729ء میں جب ’حب‘ کا کھاڑک بندر ریت سے بھر گیا اور بیوپار کرنے کے راستے تنگ ہونے لگے تو سیہون کے رہنے والے بھوجومل نے بیوپاریوں سے صلاح مشورے کے بعد کراچی بندر کی طرف آئے، جس کو اس وقت ’دڑبو‘ کہا جاتا تھا اور لیاری ندی کے دریا میں گرنے کی جگہ پر جہاں اس زمانے میں ’کلاچی جو کُن‘ (بنیادی طور پر جہاں جس جگہ مسلسل بہاؤ کا پانی زوروں سے گرتا رہے وہاں مٹی یا ریت ٹھرتی نہیں ہے اور گڑھا بنتا جاتا ہے۔ سندھی میں اسے ’کھڈو‘ کہتے ہیں۔ تو یہاں ماہی گیروں کی بستیاں تھیں، اور کراچی کی قدیم داستان ’مورڑو مانگر مچھ‘ نے اس گہرے تالاب اور اس کے کناروں پر جنم لیا) ۔ اس طرح ایک سلسلہ نکل پڑا۔ کَچھ سے کچھی، گجرات اور کاٹھیاواڑ سے کاٹھیاواڑی میمن اور گجراتی، پارسی، لس بیلو سے لاسی، ایرانی بلوچستان اور مکران سے بلوچ آئے۔ ان سب کا رُخ اس طرف تھا۔ سندھ کے دوسرے علاقوں سے بھی لوگ روزگار کے لیے یہاں آئے اور بس گئے۔
’کلمتی‘ صاحب لکھتے ہیں، ’بھوجومل نے جو کوٹ تعمیر کروایا، اس کے اندر اور باہر آبادیاں تھیں۔ کلاچی جو کُن (کھڈو) اور لیاری والے علاقوں سے ’دڑبو بندر‘ 2 میل جنوب میں تھا اور اسی طرح جب 1813ء میں سندھ کے حاکم میروں نے کراچی کی رہائش کی گنتی کروائی تب کوٹ کے اندر 3250 گھر تھے جبکہ کوٹ سے باہر موجود گھروں کی گنتی نہیں کی گئی تھی‘۔ پھر جب جنوری 1851ء میں انگریز بہادر نے سندھ کے 3 اہم اضلاع کی مردم شماری کروائی تو وہ کچھ اس طرح سے تھی:
کراچی: گاؤں-1144-آبادی- ایک لاکھ 85 ہزار 550
حیدرآباد: گاؤں-4977-آبادی- 5 لاکھ 51 ہزار 811
شکارپور: گاؤں-1410-آبادی- 2 لاکھ 50 ہزار 401
یہ اعداد و شمار میں نے اس لیے دیے ہیں تاکہ ہم آسانی سے تجزیہ کرسکیں کہ وقت کی اس دوڑ میں کراچی نے کس طرح آبادی کے تناسب میں دن دُگنی اور رات چوگنی ترقی کی۔ تاریخ کے صفحات کراچی کی ابتدائی آبادی سے متعلق اس بات پر متفق ہیں کہ 1729ء کے بعد جب کوٹ کی فصیل تعمیر کی گئی تو آبادی کا سلسلہ ’کھارا در‘ (مغرب) سے براستہ ’ایمبینکمنٹ روڈ‘ (ککری گراؤنڈ) اور گنجان آباد ’میٹھا در‘ (مشرق) سے لی مارکیٹ کی طرف تیزی سے بڑھنے لگا تھا کہ یہاں سمندر کنارے وہ سارے اسباب موجود تھے جو ایک بندرگاہ رکھنے والے شہر کے پاس موجود ہونے چاہئیں۔
عبدالغفور کھتری لکھتے ہیں، ’1820ء یعنی تالپوروں کے عہدِ حکومت میں قدیم مارکیٹوں کی طرز پر ’کھجور بازار‘ سے ’جوڑیا بازار‘ تک، کپڑے، اناج، مصالحے اور برتن وغیرہ کی ایک طویل مارکیٹ موجود تھی۔ سبزی ترکاری، پھل اور گوشت و مچھلی مارکیٹ کے ایک بڑے میدان میں فروخت ہوتی تھیں۔ 1840ء سے 1880ء کے درمیاں پتھر، چکنی مٹی اور لکڑی سے عمارات تعمیر ہونے لگیں اور تعمیرات کا ایک سلسلہ نکل پڑا‘۔
گل حسن کلمتی صاحب لکھتے ہیں، ’لیاری نئے (نئے اس بہاؤ کو کہا جاتا ہے جس میں پہاڑوں یا بالائی علاقوں سے بارش کا پانی بہتا ہوا آئے) کا ایک قدیم بہاؤ، گارڈن اور حسن لشکری ولیج سے ہوتا ہوا، لی مارکیٹ اور ککری گراؤنڈ سے گزر کر کھڈا کے قریب سمندر میں گرتا تھا اور بارشوں کے موسم میں اکثر پانی شہر میں آجاتا تھا جس کی وجہ سے لیاری سب سے زیادہ متاثر ہوتا تھا۔ 1911ء سے 1921ء تک، کراچی میونسپلٹی کا صدر ہرچند رائے وشنداس رہا۔ اس صاحب نے گارڈن، حسن لشکری ولیج اور دھوبی گھاٹ کے قریب ایک دیوار بنوائی اور لیاری نئے کے اس بہاؤ کا رُخ موجودہ بہاؤ سے ملا دیا۔
یہ دیوار آج بھی موجود ہے۔ لیاری نئے کے کنارے عارضی سبزی اور دودھ مارکیٹ موجود تھی اور یہ علاقہ ’مٹھو آواڑو‘ کے نام سے مشہور بھی تھا۔ اسی جگہ پر میونسپلٹی کی طرف سے 1920ء میں ایک مارکیٹ بنانے کا فیصلہ ہوا۔ اس مارکیٹ کا نقشہ مشام لی (Mr. Measham Lea) نے بنایا تھا جو کراچی میونسپلٹی کا چیف انجینئر تھا۔ میونسپلٹی نے اس مارکیٹ کا نام ’ہرچند رائے مارکیٹ‘ رکھنے کا فیصلہ کیا مگر خود ہرچند رائے نے اس مارکیٹ کا نام، اس انجنیئر کے نام سے منسوب کرتے ہوئے ’لی مارکیٹ‘ رکھا۔ یہ مارکیٹ 1925ء میں مکمل ہوئی۔ یہ اپنی طرز کی خوبصورت مارکیٹ ہے اور اس کے مرکزی بڑے دروازے پر 150 فٹ کا کلاک ٹاور بھی بنایا گیا تھا جس کے چاروں طرف گھڑیال بھی لگائے گئے تھے۔ اس مارکیٹ میں سبزی اور پھل کی بڑی بڑی دکانیں تھیں اور ساتھ میں مچھلی، گوشت اور دودھ کی الگ مارکیٹیں بھی بنائی گئی تھیں‘۔
یہ وہ زمانہ تھا جب لیاری نئے کے زیرِ زمین میٹھے پانی کی بدولت یہاں کے کھیت اپنی فصلوں اور ہریالی کے لیے مشہور تھے۔ بقول کھتری صاحب کہ، ’حالیہ عثمان آباد، دھوبی گھاٹ، بکرا پڑی، مرزا آدم خان روڈ، لالوکھیت اور شو مارکیٹ سے جیل چورنگی تک دونوں اطراف کھیت اور باغات تھے اور روز ان باغات اور کھیتوں سے پھل، سبزی ترکاری اس بازار تک پہنچتی تھی‘۔
اس قدیم مارکیٹ کو آپ ’مٹھو آواڑو‘ کے نام سے پکاریں، ’لیاری مارکیٹ‘ کے نام سے یا پھر ’لی مارکیٹ‘ کے نام سے، مگر ایک بات ضرور ذہن میں رہنی چاہیے کہ یہ کراچی کی پہلی مارکیٹ تھی جس میں فقط لیاری ندی کے پانی پر اُگائے گئے پھل اور سبزی نہیں آتی تھی بلکہ ملیر، لانڈھی اور قرب و جوار کی ان بستیوں سے بھی آتی تھی جہاں میٹھا پانی تھا، ان بستیوں سے سبزیوں اور پھلوں کے ساتھ، گھاس، دودھ، جلاؤ لکڑی، حلال کرنے کے لیے جانور، مچھلی اور دوسرا سامان گدھا گاڑیوں، بیل گاڑیوں، اونٹ گاڑیوں، گدھوں اور گھوڑوں پر لاد کر مارکیٹ تک پہنچایا جاتا تھا۔ اگر اتنی وافر مقدار میں یہ چیزیں یہاں نہ پہنچتیں تو یقیناً یہاں اتنی لاگت سے مارکیٹ نہ بنائی جاتی۔
کھتری صاحب 1965ء کا ایک منظرنامہ اس مارکیٹ سے متعلق پیش کرتے ہیں، وہ لکھتے ہیں، ’1965ء تک یہاں کی آبادی میں بہت زیادہ پھیلاؤ آگیا، ان دنوں کراچی میں سبزی، پھل وغیرہ ملیر، لانڈھی، سندھ اور بلوچستان کے دیگر نزدیکی شہروں اور بستیوں سے اس مارکیٹ تک لائے جاتے ہیں۔ ان اشیا کو لی مارکیٹ تک پہنچانے والی اونٹ گاڑیاں، گدھا گاڑیاں اور کوئٹہ و کاغان وغیرہ سے آنے والے پھلوں سے لدے ’کیکڑا‘ نامی ٹرک شام یا رات کے کسی حصے میں پہنچ کر، صبح کے انتظار میں منڈی کے آس پاس کھڑے ہوجاتے ہیں۔‘
کلمتی صاحب ہمیں ایک اور منظر سے متعارف کرواتے ہیں، وہ لکھتے ہیں، ’تین ہٹی کا علاقہ جہاں خواجوں کی 3 دکانیں تھیں، ایک مٹھائی کی، دوسری حلال جانوروں کی خوراک کی اور تیسری پرچون کی دُکان، چونکہ سندھی میں دکان کو ’ہٹ‘ کہتے ہیں اس لیے یہ جگہ ’تین ہٹی‘ کے نام سے مشہور ہوگئی۔ لانڈھی، ملیر اور اس طرف سے آنے والی اونٹ، بیل اور گدھا گاڑیاں جو لی مارکیٹ کے لیے سبزیاں، دودھ اور گھاس وغیرہ لادے ہوتی تھیں، وہ طویل سفر کی وجہ سے یہاں کچھ دیر آرام کرنے کے لیے رُک جاتیں‘۔
مجھے نہیں پتا کہ یہاں چائے کی شروعات کیسے اور کب ہوئی مگر ان 3 دکانوں کے بعد یہاں اور بھی کچھ دکانیں کُھلیں اور ان میں ایک چائے کا چھپرا بھی تھا تو آتے جاتے مسافروں کے لیے یہ تین ہٹی ایک چھوٹا سا جنکشن بن گیا۔ لی مارکیٹ آنے جانے والے لوگ یہاں ضرور رُکتے تھے۔
میں نے جن قدیم شہروں کا رُخ کیا ہے وہاں اکثر مجھے ایک بازار ضرور ملا ہے جس کا نام ہے ’جھونا بازار‘ (’جھونا‘ کا مطلب ہے بڑی عمر والا تو اس لحاظ سے جھونا بازار کا مطلب ہوا بوڑھوں کا بازار، جو اب تبدیل ہوکر ’جونا‘ ہوگیا ہے۔) ایسے بازاروں میں مجھے کبھی بوڑھے نہیں ملے البتہ ان بازاروں کا نام ’جھونا مارکیٹ‘ ضرور ہے تو یہاں بھی لی مارکیٹ بازار سے جنوب میں ’جونا مارکیٹ‘ ہے۔ یہاں ضروریاتِ زندگی کی اشیا سے دکانیں بھری ہوئی نظر آئیں۔
یہ بازار سندھ کے دوسرے شہروں اور کراچی کے قرب و جوار کی چھوٹی چھوٹی بستیوں، لسبیلہ اور مکران کے لیے ہول سیل بازار کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس مارکیٹ کے ایک طرف ’نیپئر‘ کے نام سے منسوب روڈ ہے اور دوسری طرف امبینکمینٹ روڈ ہے، جس کے بعد تو جیسے بازاروں کا ایک سلسلہ نکل پڑتا ہے۔ جیسے: سُنار بازار، جوڑیا بازار، کاغذی بازار اور کجھور بازار۔
ان بازاروں کی 56 برس پہلے کی کیفیت بیان کرتے ہوئے صاحبِ قلم لکھتے ہیں، ’لی مارکیٹ کے نیپئر روڈ کے برابر میں ایک گلی نما روڈ کا نام ریور روڈ ہے، اس روڈ پر ایک قدیم ترک مسجد بنی ہوئی ہے جس پر 1280ھ کندہ ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ 1863ء سے پہلے یہاں اکا دُکا گھروں پر مشتمل بستی کی بنیاد پڑ چکی تھی۔ لی مارکیٹ کے مشرق میں موجود میدان کو بس اسٹاپ کے لیے منتخب کیا گیا جہاں کراچی کے مختلف علاقوں، اطراف کے گوٹھوں، سندھ کے دیگر قریبی شہروں کے لیے دن میں ایک بس چلتی ہے اور ساتھ میں اونٹوں، گھوڑوں اور بیل گاڑیوں کے قافلے یہاں رُکتے ہیں۔ آج کل (1965ء) سونے کی فی تولہ قیمت 62 روپے اور چاندی کی فی تولہ قیمت 2.50 پیسے ہے‘۔
'کھجور بازار' تالپوروں کے زمانے میں قائم ہوا تھا اور اس مارکیٹ میں، خیرپور، ایران اور مکران سے کھجور آتی تھی۔ اس زمانے میں ضرور یہ مارکیٹ لکڑی اور گارے سے بنی دکانوں پر مشتمل تھی۔
برطانوی دور میں اس بازار کو ترقی دی گئی اور پتھروں سے دکانیں بنائی گئیں۔ اس زمانے میں یہاں سے ہندوستان اس کھجور کی بڑی مارکیٹ تھی۔ اس کے بعد ’سُنار مارکیٹ‘ ہے۔
کلمتی صاحب کے مطابق ’یہ بازار کلہوڑا دور میں یہاں موجود تھی۔ اس بازار کے ایک حصے کو کامل گلی بھی کہا جاتا ہے۔ اس مارکیٹ میں پہلے قیمتی پتھروں کا کاروبار ہوتا تھا۔ پھر بھوجوانی سیٹھوں نے سونے کا کاروبار شروع کیا۔ بٹوارے سے پہلے اس مارکیٹ میں مسلمانوں کی ایک دکان تھی جس کے مالک سیٹھ جمعہ ابراہیم تھے۔ یہ خاندان اب بھی اس مارکیٹ میں اس بیوپار کے سلسلہ کو جاری رکھے ہوئے ہے‘۔
پھول چوک کے ساتھ ایک طویل مارکیٹ واقع ہے۔ کھتری صاحب کے مطابق ’یہ مختلف النوع اشیا سے بھری ایک وسیع بازار ہے۔ پہلی جنگِ عظیم کے بعد کاٹھیاواڑ گجرات کے علاقے جام نگر کی قریبی بستی جوڑیا سے آئے ہوئے لوگوں نے اس بازار کی بنیاد ڈالی۔ سل بٹوں کی مارکیٹ سے آگے گرم مصالحوں کا بازار ہے۔ پھر اناج بازار ہے‘۔
آج سے 55 برس پہلے شاید چینی کا رنگ ابھی سفید نہیں ہوا تھا اس لیے مصنف لکھتا ہے، ’اس طویل بازار کے آخری سرے پر غذائی اجناس کی ہول سیل مارکیٹ سے آگے ’گُڑ مارکیٹ‘ ہے، یہ گُڑ یہاں 100 سال سے فروخت ہو رہا ہے۔ ان دنوں گُڑ کی قیمت 8 آنے (50 پیسے) سیر ہے۔ مگر اب پاکستان میں بھی گنے کے رس سے چینی بنانے کا ابتدائی عمل شروع ہوا ہے، چونکہ ابتدا ہے اس لیے چینی ابھی مکمل سفید نہیں، کچھ حد تک بھورا رنگ لیے ہوئے ہے اور یہ چینی یہاں پاکستانی چینی کے نام سے فروخت ہو رہی ہے، اس کی قیمت 12 آنے (75 پیسے) سے ایک روپیہ فی سیر تک ہے‘۔
جونا مارکیٹ، کھجور بازار، کاغذی بازار دراصل یہ مارکیٹوں کا ایک سلسلہ ہے جو ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے۔ یہاں مصر کی اوسیرس بازار کی طرح آپ کو زندگی کی ضروریات کا سارا سامان مل جاتا ہے۔ یہاں تک کہ آپ کو بازار میں ماشکی بھی نظر آ جاتا ہے۔ میں جیسے کجھور بازار سے آگے بڑھا تو مجھے ماشکی نظر آیا اور وہ بازار میں پانی کو چھڑک رہا تھا کہ بازار کا ٹیمپریچر نہ بڑھے اور مٹی نہ اُڑے۔ یہ میرے لیے بہت ہی حیرت انگیز منظر تھا۔ مشک سے بہنے والے پانی کی پھوار کا ان گلیوں کے ساتھ رشتہ صدیوں پرانا ہے۔ کب تک رہے گا پتا نہیں مگر اب تک تو ضرور قائم ہے۔
اس دن میں نے ان سارے بازاروں کی خاک چھانی۔ میں جس بھی دکان پر گیا، وہاں مجھے صدی پہلے کا کراچی ملا۔ ان کی آؤ بھگت اور محبت فقط ان کے الفاظ سے نہیں ٹپکتی تھی، بلکہ پیار ان کی آنکھوں میں بھی سرسبز دھان کے کھیتوں کی طرح بستا تھا۔ وہ دیکھتے تو جیسے دھان کی فصل سے خوشبو کے ساتھ ہوا کا ٹھنڈا جھونکا سا محسوس ہوتا۔ وہ دکاندار جن کے پاس گاہکوں کا رش تھا، مگر ہم جب تصویر کے لیے انہیں گزارش کرتے تو وہ سارے کام چھوڑ کر ہماری کلک کے لیے کھڑے ہوجاتے۔ اس جڑی بوٹیوں کے دکان کی خوشبو ابھی تک میرے ذہن میں بستی ہے۔ جہاں دکاندار بڑی مہارت سے آئی ہوئی بڑی عمر کی اماؤں کو مختلف بیماریوں کے نسخے بنا کر دے رہا تھا۔ اتنے رش کے بعد بھی اس نے ہمیں ہمارے سوالوں کے بڑے تفصیل سے جواب دیے۔
دوپہر ڈھل رہی تھی اور ہم لی مارکیٹ کے اس ٹاور کے پاس آئے جس کا افتتاح 1925ء میں ہوا تھا۔ اس کے چاروں اطراف آج بھی گھڑیال لگے ہوئے ہیں مگر اب وقت بتانے والی سوئیاں رُکی ہوئی ہیں۔ کسی کی سوئیاں ایک پر رُک گئی ہیں اور کسی کی 3 بج کر 30 منٹ پر۔ مجھے نہیں پتا کہ یہ کب رُکی تھیں۔ جب رُکی تھیں تو دن تھا یا رات تھی؟ تپتی دوپہریں تھیں یا جاڑوں کی راتیں تھیں؟ ہم وقت کے اتنے دشمن کیوں ہیں؟ ہمیں اس کی اہمیت کیوں نہیں سمجھ آتی؟
اگر انتظامیہ کو ٹاور کی ٹھہری سوئیاں نظر نہیں آتیں تو اتنی بڑی مارکیٹ تو موجود ہے۔ بازار والے اگر مل کر، کمیٹی بنا کر، کچھ پیسے جمع کرکے اس ٹاور کو پھر سے زندہ کردیں تو کتنا شاندار کام ہوجائے گا۔ یہ رُکی سوئیاں پھر سے چل پڑیں گی۔ وقت پھر سے چل پڑے گا۔ ہمارے بچے جب اسکول سے لوٹیں گے تو وقت دیکھنے کے لیے اس ٹاور کو دیکھیں گے۔ ہم شام گھر جاتے ہوئے اس ٹاور کی سوئیوں کو دیکھیں گے۔ وقت پھر سے چل پڑے گا۔ شہر کی یہ سڑکیں یہ گلیاں جو ہمیں اتنا کچھ دے رہی ہیں کیا ہم ان کے لیے، ان کی بقا کے لیے مل کر ایسی چھوٹی چھوٹی نیکیوں کے کام نہیں کرسکتے؟
حوالہ جات:
’کراچی کی کہانی، کراچی کی زبانی‘ -کھتری عبدالغفور کانڈاکریا-2014ء-کھتری پبلیکیشنز، کراچی
’کراچی سندھ جی مارئی‘-گل حسن کلمتی-2014ء-نئوں نیاپو اکیڈمی، کراچی
’کراچی انگریز دور جوں مشہور عمارتوں‘-گل حسن کلمتی-2020ء-نئوں نیاپو اکیڈمی، کراچی
’ملکہ مشرق: کراچی‘-محمودہ رضویہ-2020ء-آر آر پبلیکیشنز، کراچی
-Sindh and the Races that Inhabit the Valley of the Indus'-Richard Francis Burton' 1851-London-
Scinde, Or, The Unhappy Valley'-Richard Francis Burton-1851-London'
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔
ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔