پاکستان

سینئر بیوروکریٹس کی 'جبری' ریٹائرمنٹ کے کیسز کی جانچ پڑتال کا آغاز

حکومت نے جنوری میں نااہل افسران سے جان چھڑانے کے لیے سول سرونٹ (سروس سے ڈائریکٹری ریٹائرمنٹ) رولز 2020 کا اعلان کیا تھا۔

اسلام آباد: فیڈرل پبلک سروس کمیشن (ایف پی ایس سی) کی چیئرپرسن کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی نے 20 گریڈ کے سینئر بیوروکریٹس کی ’جبری‘ ریٹائرمنٹ کے کیسز کی جانچ پڑتال کی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ریٹائرمنٹ کے لیے جن افسران پر غور کیا جارہا ہے ان میں پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس (پی اے ایس) کے 22 گریڈ کے 6، 21 گریڈ کے 7، 21 گریڈ کے 2 اور پولیس سروس آف پاکستان کے 8 افسران شامل ہیں، جن میں سابق سی سی پی او لاہور عمر شیخ بھی شامل ہیں۔

'ڈائریکٹری ریٹائرمنٹ بورڈ' کے لیے 22 گریڈ کے سیکریٹریٹ گروپ کے پینل میں عامر حسن، ڈاکٹر عمران زیب خان، محمد ہاشم پوپلزئی، محمد نعیم، پرویز احمد جونیجو اور نور احمد شامل ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ ایف پی ایس سی کی چیئرپرسن، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے سیکریٹریز، کابینہ ڈویژن، فنانس، لا اینڈ جسٹس اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے ایک ایڈیشنل سیکریٹری پر مشتمل کمیٹی نے 22 گریڈ کے دفاتر کے ناموں پر دانستہ طور پر غور نہیں کیا اور کہا کہ ان کا مینڈیٹ 21 گریڈ کے افسران کے جبری ریٹائرمنٹ کے کیسز پر غور کرنا ہے۔

مزید پڑھیں: سرکاری افسران کا احتجاج وکلا تحریک کی یاد کیوں دلا رہا ہے؟

حکومت نے جنوری میں نااہل افسران سے جان چھڑانے کے لیے سول سرونٹ (سروس سے ڈائریکٹری ریٹائرمنٹ) رولز، 2020 کا اعلان کیا تھا۔

قوانین جو ڈائریکٹری (جبری) ریٹائرمنٹ کے لیے بنیاد فراہم کرتے ہیں، ان میں تین ذاتی تشخیصی رپورٹس (پی ای آرز) یا منفی ریمارکس والی تین اوسطاً پی ای آرز، دو بار 21 گریڈ یا اس سے نیچے ترقی کے لیے مسترد کیے گئے یا 22 گریڈ کے لیے سفارش نہیں کیا گیا ہو اور رضاکارانہ واپسی یا پلی بارگین کیا ہو، شامل ہے۔

ماضی میں سروس آرڈیننس کو ہٹانے کا معقول طریقہ فراہم نہیں کیا گیا تھا اور برطرف عہدیدار اپنی برطرفی کے خلاف یہ کہتے ہوئے عدالتوں سے رجوع کرتے تھے کہ انہیں اپنی بات کہنے کا موقع نہیں دیا گیا۔

ایک سینئر بیوروکریٹ کے مطابق سول سرونٹ (سروس سے ڈائریکٹری ریٹائرمنٹ) رولز 2020 نے نااہل افسران کو ہٹانے کے لیے مناسب طریقہ کار وضع کیا تھا۔

ریٹائرمنٹ بورڈ کی جانچ پڑتال کے تحت 21 گریڈ کے پی اے ایس افسران میں قیصر مجید ملک، احمد حنیف، غلام الدین بھلو، شمس الدین، عابد حسین، توقیر حسین شاہ اور سعید احمد نواز شامل تھے۔

یہ بھی پڑھیں: نیب نے سندھ پولیس کے افسران کے بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات طلب کرلیں

پی ایس پی کے دو افسران کیپٹن (ر) ظفر اقبال اور سید امتیاز الطاف کے علاوہ اسی کیڈر کے 8 افسران ڈاکٹر محمد اعظم خان، اظہر رشید خان، احمد اشفاق جہانگیر، محمد عمر شیخ، کیپٹن (ر) فیروز شاہ، ڈاکٹر مظہر الحق کاکاخیل، اول خان اور مجاہد اکبر خان ریٹائرمنٹ بورڈ کے پینل میں شامل ہیں۔

آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس گروپ کے 21 گریڈ کے افسر شاہد گل قریشی کی بھی ڈائریکٹری ریٹائرمنٹ کے لیے غور کیا جارہا ہے۔

سیکریٹریٹ گروپ کے 20 گریڈ افسران میں وقار کھیتراں، ڈاکٹر وسیم احمد، اعجاز میمن اور عذرا جمالی شامل ہیں۔

ڈائریکٹری ریٹائرمنٹ کے لیے دیگر بنیادوں میں سینٹرل سلیکشن بورڈ (سی ایس بی)، ڈیپارٹمنٹل سلیکشن بورڈ (ڈی ایس بی) یا ڈیپارٹمنٹل پروموشن کمیٹی (ڈی پی سی) کی جانب سے دو مرتبہ مسترد کیا جانا شامل ہے، جیسا کیس ہو، اس کے علاوہ دو بار ہائی پاور سلیکشن بورڈ (ایچ پی ایس بی) کی جانب سے پروموشن کے لیے سفارش نہیں کیا جانا بھی شامل ہے۔

مزید پڑھیں: صوبوں میں پی اے ایس افسران کی تعیناتیوں کو قانونی مشکلات کا سامنا

کسی افسر کو بدعنوانی میں قصوروار پایا گیا ہے یا قومی احتساب بیورو (نیب) یا کسی اور تحقیقاتی ایجنسی یا پروموشن بورڈ کی جانب سے 'سی' کیٹیگری میں رکھا گیا ہے، ان کو ریٹائرمنٹ رولز کے ذریعے گھر بھیج دیا جائے گا۔

ریٹائرمنٹ بورڈ آج بھی جبری ریٹائرمنٹ کے کیسز کا فیصلہ کرنے کے لیے اپنا اجلاس جاری رکھے گا۔

دریں اثنا اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے کابینہ ڈویژن کے تحت انجینئر مقصود انور خان کو نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کا رکن مقرر کردیا۔

نوٹی فکیشن میں کہا گیا ہے کہ وہ چار سال کی مدت کے لیے خیبر پختونخوا کی نمائندگی کریں گے۔

نواز شریف کی جائیداد کی نیلامی کیلئے نیب کا عدالت سے رجوع

کن افراد کو میڈیکل اور کن کو کپڑے کے فیس ماسک پہننے چاہیئں؟

متحدہ عرب امارات سے پاکستانیوں کیلئے ویزا پابندیوں میں نرمی کا مطالبہ