بچپن سے پچپن: موت کا کنواں اور موت کا گولا (ساتویں قسط)
اس سلسلے کی گزشتہ اقساط: پہلی قسط، دوسری قسط، تیسری قسط، چوتھی قسط، پانچویں قسط، چھٹی قسط
1974ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے لاہور میں عالمی اسلامی سربراہی کانفرنس بلائی اور ہم شاہ فیصل، معمر قذافی، یاسر عرفات اور عیدی امین وغیرہ کے ناموں سے ہمیشہ کے لیے واقف ہوگئے۔ ان دنوں کانفرنس کے لیے مہدی ظہیر کا تیار کردہ یہ خصوصی نغمہ گلی گلی گونج رہا تھا:
اللہ اکبر اللہ اکبر
ہم تابہ ابد سعی و تغیر کے ولی ہیں
ہم مصطفوی مصطفوی مصطفوی ہیں
دین ہمارا دین مکمل، استعمار ہے باطل ارذل
خیر ہے جدوجہدِ مسلسل، عنداللہ عنداللہ عنداللہ
اللہ اکبر اللہ اکبر
امن کی دعوت کل عالم میں، مسلک عام ہمارا
دادِ شجاعت دورِ ستم میں، یہ بھی کام ہمارا
حق آئے باطل مٹ جائے، یہ پیغام ہمارا
اللہ اکبر اللہ اکبر
بہت بڑے کورس کے ساتھ اس ترانے نے پورے ملک میں ایسا جوش و جذبہ پیدا کیا تھا کہ آج بھی اس نغمے کے بول ذہن میں آتے ہی جسم کا رواں رواں لہرانے لگتا ہے۔
شاہ فیصل اس دور کی عظیم شخصیت تھے۔ ہم تو ان سے اس وقت سے واقف تھے جب اکتوبر 1973ء میں مصر اسرائیل جنگ کے دوران عرب ممالک نے ان کی قیادت میں امریکا اور مغربی ممالک کو تیل دینا بند کردیا تھا۔ ان دنوں ہمارے گھر روزنامہ جنگ آیا کرتا تھا۔ اس زمانے تک رنگین اخبار تو شائع ہونا شروع نہیں ہوئے تھے البتہ جنگ کے اتوار ایڈیشن میں ایک صفحہ کالے کے بجائے نیلے رنگ کا چھپتا تھا، جس پر دنیا بھر کی خبروں سے متعلق نیلی نیلی تصویریں شائع ہوا کرتی تھی۔
مجھے یاد ہے کہ ان دنوں امریکی اور یورپی شہروں کی ایسی تصاویر بھی شائع ہوئی تھیں جن میں لوگ گدھوں اور گھوڑوں پر بیٹھ کر اپنے کاموں پر جا رہے ہیں کیونکہ تیل نہ ملنے کے باعث وہ لوگ گاڑیاں ہونے کے باوجود ’بے کار‘ تھے۔
اپریل 1966ء میں جب شاہ فیصل نے پہلی مرتبہ پاکستان کا دورہ کیا تھا تو اس موقعے پر اسلام آباد کی مرکزی جامع مسجد کے مکمل اخراجات خود اٹھانے کا اعلان کیا تھا۔ یہ مسجد آج ’شاہ فیصل مسجد‘ کے نام سے دنیا بھر میں جانی جاتی ہے۔
1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر شاہ فیصل کو اس قدر دکھ ہوا کہ انہوں نے پاکستان کی جانب سے تسلیم کرنے کے بعد بھی بنگلا دیش کو تسلیم نہ کیا۔ پاکستان کے عوام ان کو آج بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ پاکستان کے ایک بڑے شہر لائل پور کا نام انہی کے نام پر فیصل آباد رکھا گیا۔ کراچی کی مرکزی سڑک شارع فیصل کے علاوہ ملک بھر میں کئی مقامات، علاقے اور ادارے آج بھی انہی سے منسوب ہیں۔ 25 مارچ 1975ء کے دن جب شاہ فیصل کے بھتیجے نے انہیں گولی مار کر شہید کیا تو پاکستان کا بچہ بچہ غم و اندوہ کا شکار ہوا۔ اس دکھ میں ہم بھی شامل تھے۔
1970ء کی دہائی میں ٹی وی اتنا عام نہیں ہوا تھا۔ محلے کے چند گھروں میں ہی ٹی وی ہوتا تھا اور وہ بھی بلیک اینڈ وائٹ۔ لکڑی کے بڑے سے خوبصورت کیبنٹ میں بند یہ 21 انچ کا ٹی وی جس گھر میں بھی ہوتا تھا وہ محلے کا ایک وی آئی پی گھر سمجھا جاتا تھا۔
ہمارے دوست اعجاز کے گھر میں بھی توشیبا ٹی وی ہوا کرتا تھا اور ہم کئی بچے اکثر شام کو اس کے گھر پہنچ کر ٹی وی کے سامنے جم کر بیٹھ جاتے تھے۔ اتوار کے دن تو رش کچھ زیادہ ہی بڑھ جاتا تھا کیونکہ اس دن اردو فیچر فلم آیا کرتی تھی۔ ٹی وی والے گھروں کے دروازے بھی محلے والوں کے لیے فیاضی سے کھلے رہتے تھے۔ نہ کوئی اعتراض نہ کوئی ناراضگی، بلکہ خوشی ہوتی تھی۔ نہ کوئی پرائیویسی کی خواہش اور نہ فیشنی رکھ رکھاؤ، سیدھے سادے اور خوش اخلاق لوگ۔
ایک ہی ٹی وی چینل ہوتا تھا اور وہ بھی شام کو شروع ہوکر رات 11 بجے تک نشریات بند کر دیتا تھا۔ ٹی وی پر روز ہی کوئی نہ کوئی اہم ڈرامہ، پروگرام یا انگریزی سیریز نشر ہوتی تھی جسے دیکھنا زندگی کی بنیادی ضروریات میں سے ہوتا تھا۔ ان میں جھوک سیال، خدا کی بستی، انکل عرفی، انتظار فرمائیے، زینت، الف نون، ٹال مٹول، ڈم ڈم ڈی ڈی، کلیاں، پتلی گھر، نئی پرانی ایک کہانی، سارے دوست ہمارے، نیلام گھر، ففٹی ففٹی، کسوٹی، دی سینٹ، ہیئر اِز لوسی، سکس ملین ڈالر مین، بائیونک وومین، لٹل ہاؤس آن دا پریئری اور آرک ٹو وغیرہ شامل تھے۔
ان کے علاوہ ایک انگلش پروگرام اور بھی ہوتا تھا جس کا آج مجھے نام یاد نہیں۔ اس میں ایک جوکر ہوتا تھا جس کا گھر ریل گاڑی کے ایک ڈبے میں ہوتا تھا۔ اسی میں وہ شہر شہر گھومتا تھا، عجیب عجیب واقعات سے گزرتا تھا اور بچوں کے کام آتا تھا۔ اس کا وہ چلتا پھرتا گھر ہمارے لیے تو بڑا ہی پُرکشش اور دلفریب ہوتا تھا۔ میرے دل میں جو سیاحت کا شوق پیدا ہوا اس کی ابتدا غالباً اسی پروگرام کو دیکھ کر ہوئی ہوگی۔
اس وقت بچوں کے کھیل بھی بڑے سادہ، دلچسپ اور ہیجان خیز ہوتے تھے۔ چند پتھروں اور چند لکڑیوں کی مدد سے ہی یہ سارے کھیل کھیل لیے جاتے تھے۔ آج ان میں سے کئی کھیل یاد آتے ہیں جیسے پتھر کی ٹھیکریوں اور کرمچ کی گیند کے ساتھ کھیلا جانے والا ’پٹھو گرم‘، درخت کی شاخوں پر اچھل کود کا کھیل ’جھاڑ بندر‘ گلی ڈنڈا کھیلنا، کنچے کھیلنا، لٹو چلانا اور لٹو کا سانس کا مقابلہ کرنا، پتنگ اڑانا اور پیچ لڑانا، ایک ٹانگ پر اچھل اچھل کر کھیلا جانے والا ’لنگڑی پالا‘، فرش پر چاک یا کوئلے سے خانے بنا کر، پھر چینی کے برتن کی ٹھیکری اچھال کر اور اچھل اچھل کر کھیلا جانے والا ’پہل دوج‘ یا ’ایمی ناٹ‘، میدان میں ایک دوسرے کا تعاقب کرنے کا کھیل ’ٹیپ ٹیپ‘، چھپن چھپائی کے کھیل ’ایمپریس‘ اور ’آنکھ مچولی‘، گھروں کے چبوتروں پر اچھل کود کا کھیل ’اونچ نیچ‘۔
اسی طرح دوپٹے یا مفلر کو مروڑ کر ایک کوڑا بنانا اور ’کوڑا جمال شاہی‘ کھیلنا، جس میں بچوں کوایک بڑے دائرے میں بٹھا کر ان کے پیچھے گھومنا اور کہنا ’پیچھے دیکھا مار کھائی، کوڑا جمال شاہی‘۔ چلتے دوست کو دیکھ کر اس کی بے خبری میں اسے ’اسٹاپ‘ کہنا اور اس کا پتھر کی طرح ساکت ہوجانا۔ ایک دوسرے کے پیچھے دوڑ دوڑ کر ہاتھ سے چھونا اور انہیں پانی سے برف یا برف سے پانی بنانے کا کھیل ’برف پانی‘۔ گول گول پتھروں کو اچھال اچھال کر ’گٹے‘ کھیلنا۔ ایک گروپ کا قطار میں کھڑے ہوکر دوسرے گروپ کو دوڑانے کا کھیل ’کھو کھو‘ دوست کے پیچھے سے آکر اس کی گردن پہ زناٹے دار تھپڑ رسید کرنا اور کہنا ’گدی پکڑ چانٹا‘۔ بچوں کا ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑ کر گول گول گھومنا اور کہنا:
آرم پارم چھما چھم۔۔۔ گیٹ سے نکلے جیسے ہم۔۔۔ ریل آئی پھاٹک بند
تم کس کو لینے آتے ہو۔۔۔ آتے ہو۔۔۔ آتے ہو
ہم تم کو لینے آتے ہیں۔۔۔ آتے ہیں
تم کتنا پانی پیتے ہو۔۔۔ پیتے ہو: 6 گلاس
تم کتنا کھانا کھاتے ہو۔۔۔ کھاتے ہو: اتنا سارا
اسی طرح ’لال پری‘ کا کھیل: لال پری آنا۔۔۔ چھپ چھپ کے آنا۔۔۔ شور نہ مچانا، ایک سہیلی رو رہی تھی، باغ میں بیٹھی رو رہی تھی، اس کا ساتھی کوئی نہیں، اٹھو سہیلی منہ دھو لو، اپنا ساتھی ڈھونڈ لو۔ ’بادشاہ وزیر‘ کا کھیل، میرا وزیر کون؟۔۔۔ جی حضور۔۔۔ چور سپاہی کا پتا لگاؤ۔ ایک بچے کا گلی میں چھپ چھپ کے دیواروں پر لکیریں لگانا اور دوسرے بچے کا انہیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر پوری لکیریں گننا۔ انگلیوں پر گننا کہ اکڑ بکڑ بمبے بو، اسی نوے پورے پورے سو، سو میں لگا دھاگا، چور نکل کے بھاگا۔۔۔ اور جو بچہ آخر میں بچ جاتا وہ چور۔ اسی طرح کے دوسرے کھیل میں انگلیوں پر گننا یسو پنجو ہار کبوتر ڈولی۔
سردیوں کی راتوں میں گھر کے اندر کیرم، لڈو، کروڑ پتی اور ڈرافٹ کھیلنا۔ کاپی پر نام، چیز، جگہ، جانور کھیلنا۔ کسوٹی، بیت بازی، نیلام گھر کھیلنا اور بچیوں کا گھر داری کا کھیل ’آپا بونا‘۔ بارش کے بعد بیر بہوٹی پکڑنے کے لیے میدانوں میں جانا اور آواز لگانا: بلبوٹی بلبوٹی پنجے کھول تیرا ماموں آیا۔ گرگٹ کو نسوار کھلا کر بیہوش کرنا اور پھندا ڈال کر پکڑنا اور احتیاط کرنا کہ پکڑنے سے پہلے گرگٹ سات رنگ نہ بدل سکے اور جنگل میں جاکر غلیل سے پرندے مارنا۔
اس کے علاوہ بہار کے دنوں میں گھر کے صحن میں ٹوکرے کو ایک لکڑی پر ٹکا کر اس کے نیچے اناج بکھیرنا اور لکڑی سے بندھی ڈوری پکڑ کر دُور چھپ کے بیٹھنا اور پھر بے خبری میں دانہ چنتی معصوم چڑیوں کو ٹوکری میں پھنسانا۔ ابّا کی سائیکل چپکے سے لے جانا اور اسے ’قینچی اسٹائل‘ میں چلانا۔ دوست کو چیز کھاتے دیکھنا تو سر پہ پہنچ کر بولنا آدھی گٹ لینے کا۔۔۔ اور پھر اس کی آدھی ٹافی لے کر کھا لینا۔ یہ سارے کھیل زیادہ تر شام کو یا چھٹیوں میں کھیلے جاتے۔ ویڈیو گیم کی لعنت اور کرکٹ کا جنون البتہ ابھی سوار نہیں ہوا تھا۔
1978ء میں ہم نے پرائمری پاس کرلی۔ میرے کلاس ٹیچر عظیم صاحب جو ہمیں سندھی پڑھایا کرتے تھے وہ ایک دن مجھے اپنے ساتھ ملیر کالا بورڈ پر مشہور سرکاری تعلیمی ادارے آصف بوائز سیکنڈری اسکول لے گئے اور اسی دن چھٹی جماعت میں داخلہ ہوگیا۔ نہ ابّا کو جانا پڑا نہ امّاں کو کوئی زحمت ہوئی۔ اس دور کے استاد واقعی والدین کی طرح ہوا کرتے تھے۔ سیکنڈری اسکول کے اساتذہ بھی بچوں سے بہت محبت کرنے والے اور سنجیدگی سے پڑھانے والے ہوتے تھے۔ ٹیوشن، اکیڈمی اور کوچنگ سینٹرز کا تو کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ جو کچھ بھی علم حاصل ہوتا تھا انہیں اسکول کے اساتذہ سے حاصل ہوتا تھا۔
مجھے اپنے سیکنڈری اسکول کے اساتذہ میں سے عبدالاحد صاحب بہت یاد آتے ہیں۔ احد صاحب ہمیں اردو پڑھایا کرتے تھے۔ لمبی تڑنگی بارعب شخصیت، کرتا، پاجامہ، سر پر دو پلی ٹوپی اور چہرے پر خوبصورت کالی داڑھی۔ اردو پڑھاتے تھے اور بہت سختی سے پڑھاتے تھے۔ غلطی کرنے والے بچوں کو سزا دینے کا ان کا اپنا ایک مخصوص اور دلچسپ انداز ہوتا تھا۔ نالائق یا شرارتی بچے کا وہ کوئی نسوانی نام رکھ دیتے۔ مثلاً یامین کا نام انہوں نے ’ثریا‘ رکھ دیا تھا، وسیم کا ’شگفتہ‘ اور ریاض کا ’نرگس‘۔ اگر کسی پر زیادہ ہی غصہ آتا تو اس کا کوئی نام نہ رکھتے، بس بلند آواز سے اسے ’کتی‘ کہہ کر بلاتے اور پوری کلاس لوٹ پوٹ ہوجاتی۔ بس یہی ان کی سزا ہوتی اور کچھ ہی دیر بعد سب ہنسی خوشی زندگی گزارنے لگتے۔
ہمیں احد سر سے بہت محبت تھی اور وہ بھی ہمیں بچوں کی طرح چاہتے تھے۔ ملیر کھوکھراپار ڈاک خانہ کے سامنے ندیم ہوٹل والی گلی میں رہا کرتے تھے۔ چھٹیوں کے دوران ہم دوست مل کر اکثر ان کے گھر بھی ملاقات کے لیے جاتے تھے۔ میں یونیورسٹی میں تھا تو عبدالاحد صاحب کا انتقال ہوگیا۔
یونس بندھانی صاحب ہمارے ریاضی کے استاد تھے۔ بہت اعلیٰ استاد مگر بڑے سخت مزاج۔ سنہری سے بالوں والے، کلین شیو، گورے چٹے اور فلمی اداکاروں جیسے خدو خال والے یونس صاحب دیکھنے میں جتنے نرم مزاج لگتے تھے اتنے تھے نہیں۔ غلطی پر بہت مارتے تھے۔ مجھے بھی ان سے ہتھیلیوں پر ڈنڈے پڑے، لیکن وہ ریاضی میں غلطی پر نہیں بلکہ کلاس میں باتیں کرنے پر پڑے تھے۔ یونس صاحب کی اس سختی کا فائدہ یہ ہوا کہ میٹرک بورڈ میں ریاضی میں میرے 100 میں سے 99 نمبر آئے، جو اس زمانے میں بڑا حیرت انگیز تھا، کیونکہ ان دنوں 80 فیصد نمبروں پر ہی کراچی بھر میں پہلی پوزیشن آجایا کرتی تھی۔ یونس صاحب بعد میں درس و تدریس کے بجائے فلاحی کاموں میں مصروف ہوگئے۔ کئی سال پہلے وہ مجھے اسلام آباد ایئرپورٹ کے لاؤنج میں بیٹھے نظر آئے۔ ویسے ہی اسمارٹ تھے۔ میں نے فوراً پہچان لیا۔ جاکر تعارف کروایا تو کھلکھلا اٹھے۔ اس وقت وہ جاوید جبار کی این جی او بانہہ بیلی میں اہم عہدے پر تھے۔ اب خدا جانے کہاں ہیں۔
پھر فزکس کے استاد شمشاد صاحب تھے۔ سنجیدگی لیے مسکراتا چہرہ۔ ان کا ایک جملہ ہمیشہ یاد رہتا ہے۔ کہتے تھے کہ ’امتحانی پرچہ اگر بہت مشکل ہو تو سمجھ جاؤ کہ پرچہ بنانے والے نے طالب علم کا نہیں خود اپنا ہی امتحان لیا ہے، اچھے استاد کا پرچہ آسان ہوتا ہے‘۔
بعد میں جب میں نے بھی کچھ عرصہ کراچی کے وائی ایم سی اے ٹیکنیکل کالج میں میکینکل ڈپلوما کلاس کو پڑھایا تو پرچہ بناتے ہوئے ہمیشہ شمشاد صاحب کی وہ بات یاد رکھی۔ شمشاد صاحب کا غالباً 2012ء میں انتقال ہوگیا تھا۔
سیکنڈری اسکول چونکہ گھر سے دُور تھا اس لیے ہمیں بسوں اور لوکل ٹرین میں سفر کرنے کی اجازت تھی اور پھر اس کی عادت بھی ہوگئی۔ جھجک اور گھبراہٹ کچھ دُور ہوئی تو ہمیں خود بھی سیر سپاٹوں کی سوجھنے لگی۔ 1970ء کی دہائی میں قائد آباد اسٹاپ کے میدان میں (جہاں اب ڈی سی آفس ہے) سرکس اور موت کا کنواں لگتا تھا۔ سرکس کے اندر جانے اور موت کے کنویں میں موٹر سائیکل کے کرتب دیکھنے کے لیے تو ٹکٹ لینا پڑتا تھا البتہ موت کے کنویں کے باہر مچان پر بنے اسٹیج پر جو مسخرے الٹی سیدھی حرکتیں کرکے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے تھے وہ ہمیں بھی کھینچ کر ادھر لے جاتی تھیں۔
سلیم رضا، مہدی حسن، احمد رشدی، مسعود رانا، نسیم بیگم، نورجہاں، مالا اور رونا لیلیٰ کے گانے بھونپو والے لاؤڈ اسپیکر پر چنگھاڑتی آواز میں بجتے اور اسٹیج پر کھڑے مفلوک الحال فنکار ان پر ’لِپ سِنک‘ کرتے ہوئے گاتے۔ ہم اکثر شام کو یہ تماشا دیکھنے کے لیے اس طرف دوڑتے۔ پھر جب سیکنڈری اسکول آنا جانا شروع کیا تو پتا چلا کہ ملیر مندر کے پاس ریلوے لائن کے برابر میں جو بابا ولایت علی شاہ کا مزار ہے، وہاں عرس کے موقعے پر تقریباً مہینے بھر کا میلہ لگتا ہے۔ یہاں قائدآباد سے بھی زیادہ رونق ہوتی تھی۔ میں وہ میلہ دیکھنے اکثر پہنچ جاتا۔ مگر پھر کچھ ہی دنوں میں ان تماشوں سے طبیعت اوب گئی۔
موت کے کنویں سے ’موت کا گولا‘ بھی یاد آتا ہے۔ موت کا کنواں تو لکڑی کے تختوں سے تیار کردہ ایک سلنڈر نما گول اور بلند و بالا ہال ہوتا ہے جس کی اندرونی گول دیواروں پر موٹر سائیکل سوار اس طرح مہارت سے معلق موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں دوڑاتے ہیں کہ دیکھنے والوں کا ڈر کے مارے سانس ہی رکنے لگتا ہے۔ جبکہ موت کا گولا اس سے بھی کئی گنا زیادہ خطرناک تماشا ہوتا ہے۔
موت کا گولا بھی موت کے کنویں کی طرح لکڑی کے تختوں سے ہی سے تیار کیا جاتا ہے، مگر یہ کنویں کی بجائے دنیا کے گلوب کی طرح گول اور پنجرے نما ہوتا تھا۔ اس کی گولائی میں ایک چھوٹا سا دروازہ ہوتا تھا جس میں سے موٹر سائیکل سوار اندر داخل ہوجاتا تو اس دروازے کو بند کر دیا جاتا ہے۔ دروازہ بند ہوتے ہی وہ اس کنویں کی اندرونی گول دیواروں پر اوپر نیچے الٹا سیدھا اندھا دھند موٹر سائیکل دوڑانا شروع کردیتا ہے اور پنجرے کے سوراخوں سے یہ ساری بازی گری باہر کھڑے تماشائی سانس روکے ہوئے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے رہتے ہیں۔ جس وقت موٹر سائیکل کے پہیے آسمان کی طرف ہوتے ہیں اور موٹر سائیکل سوار کا سر اور دھڑ نیچے زمین کی طرف لٹک رہا ہوتا ہے اس وقت یوں لگتا ہے کہ یہ بس اب گرا کہ تب گرا۔ لیکن ماہر موٹر سائیکل سوار اپنی رفتار کو اتنا متوازن رکھتا ہے کہ اپنے وزن اور اپنی رفتار کی وجہ سے وہ کشش ثقل کو شکست دے دیتا ہے اور موت کے اس گولے کی گولائیوں میں گرے بغیر دیر تک چکراتا اور تماشائیوں کو حیران کرتا رہتا ہے۔
بالآخر تالیوں کی گونج میں وہ اپنی موٹر سائیکل کے ساتھ بخیر و عافیت گولے کے نچلے حصے میں آکر فاتحانہ کھڑا ہوجاتا ہے اور مجمع کی طرف مسکرا کر دیکھتا ہوا ہاتھ ہلانے لگتا ہے۔ اس سے اگلا تماشا وہ ہوتا ہے کہ جس میں وہ موٹر سائیکل پر اکیلا نہیں ہوتا تھا بلکہ اس کی پچھلی سیٹ پر ایک بچہ یا کوئی حسینہ بھی سوار ہوجاتی ہے اور وہ اس ڈبل سواری کے ساتھ بھی وہی خطرناک کرتب دکھاتا ہے۔ میں نے اس زمانے میں خود تو یہ کرتب کبھی نہیں دیکھا مگر بعد میں ٹی وی پر اور فلموں میں یہ بازی گری دیکھ کر دنگ رہ گیا۔
موت کے اس گولے کے حوالے سے کراچی کی ایک شخصیت ’مقصود ملک‘ بڑی مشہور ہوئی۔ مقصود ملک غالباً لکی ایرانی سرکس میں موت کے گولے میں موٹر سائیکل چلایا کرتے تھے۔ 1970ء میں ایک مشہور پاکستانی فلم ’روڈ ٹو سوات‘ ریلیز ہوئی۔ اس فلم کا ہیرو کمال اور ہیروئن نسیمہ خان تھی۔
جہاں اس فلم کا مالا اور احمد رشدی کا گایا ہوا نغمہ:
یہ اَدا ، یہ ناز ، یہ انداز آپ کا
دھیرے دھیرے پیار کا بہانہ بن گیا
مقبول ہوا وہاں اس کا دریائے سوات کے اوپر بندھے آہنی رسے پر موٹر سائیکل چلانے کا خطرناک سین بھی بڑا مشہور ہوا۔ لیکن دریا پر معلق رسے پر موٹر سائیکل چلانے کا یہ منظر ہیرو کمال پر نہیں بلکہ موت کے گولے والے بازی گر مقصود ملک پر فلمایا گیا تھا۔
روڈ ٹو سوات فلم ہٹ ہوئی اور کئی سال پاکستانی سنیماؤں میں زیر نمائش رہی۔ جہاں یہ فلم مشہور ہوئی وہیں مقصود ملک کو بھی بڑی شہرت ملی۔ مقصود ملک چاہتے تو اب فلمی دنیا ہی کو اپنے کیریئر کے طور پر اختیار کرسکتے تھے لیکن انہوں نے اندازہ لگایا کہ یہ فلمی شہرت عارضی ہے اور اس کو اپنے روزگار کا ذریعہ بنانا مناسب نہیں چنانچہ انہوں نے فلمی دنیا کو خیرباد کہا اور اپنی شہرت کو استعمال کرتے ہوئے کراچی میں ایک مکینکل ورکشاپ ’گولا والا‘ کے نام سے کھولی۔ یہ گاڑیوں کے ایکسل مرمت کرنے کی ورکشاپ تھی جو کراچی میں بہت مشہور ہوئی اور بعد میں شہر میں اس کی کئی شاخیں بھی کھلیں۔
1999ء میں جب میں پہلی بار گولا والا کی خداداد کالونی ورکشاپ پر اپنی کار کے ایکسل بنوانے گیا تو خوش قسمتی سے مقصود ملک صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ وہ اس وقت خاصے عمر رسیدہ ہوچکے تھے۔ انہوں نے بڑے دلچسپ انداز میں اپنی زندگی کی کہانیاں سنائیں اور مجھے اپنا گرویدہ بنا لیا۔
ان کا خیال تھا کہ فلمی شہرت عارضی اور فلمی کمائی بے برکت ہوتی ہے۔ وہ کہتے تھے کہ ماضی کے کئی نامور فلمی اداکار اب گمنامی و کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ ان کے پاس امداد کے لیے بھی آتے ہیں اور ملک صاحب ان کا اپنے بھائیوں کی طرح خیال رکھتے ہیں۔ مقصود ملک کا بیٹا سَنی بھی اسی ورکشاپ میں متحرک نظر آتا تھا۔ اس نے بھی ایک فلم میں بطور ہیرو کام کیا لیکن فلم فلاپ ہوئی تو اس نے بھی توبہ تلا کرکے ابّا کی ورکشاپ سنبھال لی۔ مقصود ملک کا تو انتقال ہوئے اب کئی برس ہوچکے ہیں لیکن ان کی گولا والا ورکشاپ آج بھی قائم ہے۔
عبیداللہ کیہر پیشے کے لحاظ سے میکینیکل انجینیئر، مگر ساتھ ہی سیاح، سفرنامہ نگار، پروفیشنل فوٹوگرافر اور ڈاکومنٹری فلم میکر ہیں۔ آپ کی اب تک 15 کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آبائی تعلق سندھ کے شہر جیکب آباد سے ہیں۔ عمر کا غالب حصہ کراچی میں گزارا اور اب اسلام آباد میں رہتے ہیں ۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔