اسرائیلی جنگی طیاروں کی غزہ کی پٹی پر بمباری
اسرائیل نے حماس کی جانب سے مبینہ طور پر راکٹ حملے کے بعد فلسطین میں غزہ کی پٹی پر جنگی طیاروں سے بمباری کی ہے۔
غیر ملکی خبررساں ادارے 'اے پی' کے مطابق اسرائیلی فضائی حملے میں کوئی جانی نقصان ہوا۔
مزیدپڑھیں: راکٹ حملے کے ایک ہفتے بعد اسرائیل نے غزہ کا سرحدی راستہ کھول دیا
فضائی حملے سے قبل اسرائیل نے دعویٰ کیا تھا کہ غزہ سے حماس نے راکٹ فائر کیے۔
انہوں نے کہا کہ حماس کے راکٹ حملوں کے جواب میں جنگی طیاروں نے غزہ میں پانچ مقامات پر بمباری کی۔
اسرائیل کے مطابق فلسطین کے جنوبی حصے سے حماس نے گزشتہ 24 گھنٹے کے دوران دو مرتبہ حملے کیے۔
دوسری جانب اسرائیل کے ان فضائی حملوں میں ابھی تک کسی کے جاں بحق ہونے کی اطلاعات نموصول نہیں ہوئیں۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل نے جوہری تنصیب پر حملہ کرکے 'بہت بڑی غلطی' کی، جواد ظریف
اسرائیلی جنگی طیاروں نے حماس کے زیر اہتمام ٹریننگ کیمپس سمیت دیگر فیکٹریوں کو نشانہ بنایا ہے۔
حماس کے ترجمان ہازم قاسم نے بمباری کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی فضائی حملے غزہ کو 'توڑ نہیں سکتے'۔
اس ضمن میں اسرائیلی فوج نے بتایا کہ جمعرات کی شام غزہ کی پٹی سے فائر کیا گیا ایک پروجیکٹائل جنوب میں گرا تھا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ دونوں ملکوں کے درمیان فائرنگ اور راکٹ حملوں کے تبادلوں کا اس ہفتے میں دوسرا واقعہ ہے۔
اس سے قبل جمعرات کو بھی غزہ کے جنوبی علاقے سے راکٹ فائر کیے گئے تھے جس کے جواب میں اسرائیلی فوج نے بمباری کی تھی لیکن اس کارروائی میں بھی کسی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔
خیال رہے کہ جنوری 2015 میں انٹرنیشنل کرمنل کورٹ (آئی سی سی) نے فلسطین کی رکنیت منظور کی جس کے تحت اب فلسطین، اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت میں جنگی جرائم کے مقدمات دائر کرسکتا ہے۔
اقوام متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل بان کی مون کے اس فیصلے کی امریکا اور اسرائیل نے شدید مخالفت کی تھی، دونوں ممالک کا موقف تھا کہ فلسطین ایک آزاد ریاست نہیں لہٰذا وہ عالمی عدالت کے دائرکار میں نہیں آتا۔
مزیدپڑھیں: اسرائیل نے مقبوضہ علاقوں کو ضم کیا تو آزاد ریاست کا اعلان کردیں گے،فلسطینی وزیراعظم
واضح رہے کہ عالمی عدالت کی چیف پراسیکیوٹر فاتو بینسوڈا نے اعلان کیا تھا کہ وہ ابتدائی مرحلے میں تحقیقات کے ذریعے ایسے شواہد جمع کررہی ہیں جس سے ثابت ہو کہ اسرائیل جون 2014 سے فلسطین میں جنگی جرائم کا مرتکب ہوا ہے تاکہ وسیع پیمانے پر تحقیقات کا آغاز کیا جاسکتا ہے۔