نقطہ نظر

وزیرِ خزانہ کے عہدے پر رسہ کشی کا ماجرہ کیا ہے؟

ایک نامعلوم کھلاڑی جس کا حکومتی معاملات میں سکہ خوب چلتا ہے وہ آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے وعدوں پر قائم رہنے کیلئے زور دیے رہا ہے

گزشتہ ہفتے میں نے اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ ملکی اقتصادی پالیسی کے آئندہ لائحہ عمل کو لے کر حکومت میں اعلیٰ سطح پر رسہ کشی دیکھنے کو مل رہی ہے۔

وزیرِاعظم عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے پروگرام کے تحت مسلط شدہ کٹوتیوں سے بیزار اور اپنی ہی جماعت کے قانون سازوں کے ہاتھوں دباؤ کا شکار نظر آتے ہیں، چنانچہ اب لگتا ہے کہ وہ پروگرام کی سختیوں کو کم اور آئی ایم ایف کی مقرر کردہ حد سے تھوڑے زیادہ اخراجات کرنے کے خواہاں ہیں۔

تاہم ایک اور کھلاڑی، جس کی شناخت نامعلوم ہے لیکن غالباً حکومت کے معاملات میں جس کا سکہ خوب چلتا ہے، وہ آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے وعدوں پر قائم رہنے کے لیے زور دیتا نظر آتا ہے۔

میں نے گزشتہ مضمون میں کہا تھا کہ اگر ان 3 سوالوں کے جواب مل جائیں تو پتا چل سکتا ہے کہ موجودہ رسہ کشی میں جاری معاملات کس کروٹ بیٹھیں گے۔

پہلا سوال یہ ہے کہ پاکستان کا اگلا وزیرِ خزانہ کون ہوگا؟ اس حوالے سے گردش کرتی افواہوں میں شوکت ترین کا نام مسلسل سنائی دے رہا ہے اور گزشتہ ہفتے افواہوں کو مزید وزن ملا ہے۔ وہ رینٹل پاور کیس میں اپنی بریت کے خلاف نیب کی اپیل کے منتظر تھے، تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیب کی جانب سے کی گئی مقدمے کی سماعت میں تیزی لانے کی درخواست رد کرتے ہوئے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ مگر منگل کے روز انہوں نے ایف بی آر کے دفتر کا دورہ کیا اور اطلاعات کے مطابق انہوں نے وہاں ادارے کے اعلیٰ عہدیداران سے گھنٹوں طویل بریفنگ لی۔ اب وہ اس عہدے پر براجمان ہوں گے یا نہیں؟ یہ دیکھنا باقی ہے البتہ پریس تبصروں سے تو یہی لگتا ہے کہ اس کرسی پر وہی بیٹھیں گے۔

پڑھیے: پاکستانی برآمدات کے لیے مشکل وقت

اب آتے ہیں دوسرے سوال پر۔ ہمیں اس پروگرام سے متعلق آئی ایم ایف کے عملے کی سطح کی رپورٹ کا جائزہ لینا ہوگا جس پر حفیظ شیخ نے اپنی اچانک سبکدوشی سے محض کچھ دن پہلے ہی آئی ایم ایف کو راضی کیا تھا۔ وہ رپورٹ عوامی سطح پر جاری کی جاچکی ہے، اور اس کے علاوہ حکومت نے اپنے اسٹریٹجی پیپر کو بھی پیش کردیا ہے۔ آئی ایم ایف کے عملے کی سطح کی رپورٹ میں مالیاتی ادارے کے ساتھ کیے گئے حکومتی وعدوں کی فہرست شامل ہے جبکہ اسٹریٹجی پیپر میں آئندہ بجٹ میں حکومتی لائحہ عمل کا خلاصہ بھی موجود ہے۔ اگر دونوں دستاویزات کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو ان میں غیر معمولی تضادات پائے جاتے ہیں جو ایک معمولی کہانی بیان کرتے ہیں۔

تیسرا سوال یہ ہے کہ حفیظ شیخ کی جگہ لینے والے نئے وزیرِ خزانہ کے ارادے و مقاصد کیا ہوں گے؟ حماد اظہر پیر کے روز آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کے ساتھ کی گئی اپنی گفتگو میں اپنے ارادوں اور مقاصد کا اظہار کرچکے ہیں۔ مالیاتی ادارے کی منیجنگ ڈائریکٹر کا ایک ٹوئیٹ میں کہنا تھا کہ گفتگو میں اہم اقتصادی اصلاحات کے لائحہ عمل کے ساتھ آئندہ مہینوں میں درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ملک کو مطلوبہ بیرونی فنانسنگ پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف اہداف میں نرمی بلکہ اضافی سپورٹ بھی طلب کر رہے ہیں۔

اگر بجٹ اسٹریٹجی پیپر میں شامل اہداف کا چند ہفتے پہلے آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ اہداف سے موازنہ کیا جائے تو ہمیں چند ایک ایسے اشارے مل سکتے ہیں جن سے پتا چل سکتا ہے کہ حکومت کس نوعیت کی نرمی چاہتی ہے۔

آئیے اوپر سے شروع کرتے ہوئے ان اعداد کا موازنہ کرتے ہیں۔ مالیاتی ادارے نے اگلے سال کی پیداواری شرح کا تخمینہ 4 فیصد لگایا تھا جبکہ اسٹریٹجی پیپر میں یہ تخمینہ 4.2 فیصد لگایا گیا ہے۔ اب چونکہ مرکزی عدد میں فرق نظر آ رہا ہے اس لیے دیگر تمام اعداد و شمار میں تضادات کا ہونا تو یقینی ہے۔ یاد رہے کہ اگر مجموعی قومی پیداوار یا جی ڈی پی کا تخمینہ تقریباً 52 کھرب روپے لگایا گیا ہے تو 0.2 فیصد کے لحاظ سے 100 ارب روپے سے زائد کی رقم کا فرق پیدا ہوتا ہے۔

پڑھیے: اسد عمر سے حماد اظہر تک: غلطی در غلطی

اس کے علاوہ مالیاتی ادارے نے اگلے برس کے مالی خسارے کا تخمینہ 5.5 جبکہ حکومت نے اپنے اسٹریٹجی پیپر میں 6 فیصد لگایا ہے، مطلب یہ کہ دونوں تخمینوں میں 260 ارب روپے سے زائد کی رقم کا تضاد موجود ہے۔ حتیٰ کہ اس 6 فیصد کے ہدف کو پانے کے لیے صوبوں کو اگلے سال اپنا سرپلس (اضافی آمدنی) دوگنا سے بھی زیادہ بڑھانا پڑجائے گا، حالانکہ ماضی میں صوبے محض بجٹ میں شامل سرپلس حاصل کرنے میں ہی دشواری کا سامنا کرچکے ہیں۔

یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ یہ اضافی 6 فیصد مشکلات پیدا کرے گا۔ مالیاتی ادارہ اگلے سال پرائمری بیلنس میں سرپلس رقم کا تخمینہ 143 روپے جبکہ اسٹریٹجی پیپر میں حکومت نے اس میں خسارے کا تخمینہ 49 ارب روپے لگایا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں 192 ارب روپے کا فرق پایا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ حکومت اسٹریٹجی پیپر کے مطابق اگلے سال تقریباً 8 کھرب روپے کا مجموعی ریوینیو حاصل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے وہیں مالیاتی ادارے کے ساتھ حکومت نے 8.8 کھرب روپے کا وعدہ کیا ہوا ہے، یعنی دونوں اعداد کے مابین 800 ارب روپے کا فرق بنتا ہے۔ حکومت وفاقی ترقیاتی بجٹ کی مد میں 800 ارب روپے خرچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جبکہ مالیاتی ادارے سے ترقیاتی بجٹ کی رقم 627 ارب روپے مختص کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے، یوں دونوں اعداد کے مابین 173 ارب روپے کا تضاد موجود ہے۔

مذکورہ بالا نکات سے حکومت کی 'نئی سمت' آشکار ہوتی نظر آتی ہے کہ، بھاری اخراجات ہوں اور تھوڑے محصولات ہوں۔ اس کے نتیجے میں خسارے بڑھیں گے، قرضوں کی لاگت میں 45 ارب روپے تک اضافہ ہوگا اور مالیاتی ادارے سے جتنی سرکاری قرضے کی رقم طے کی گئی ہے اس کے مقابلے میں جی ڈی پی کے ایک فیصد کے برابر اضافے کا ارادہ کیا گیا ہے۔

پڑھیے: بہتر ہوتی ہوئی معیشت کا سراب

کسی حد تک ان اضافی اخراجات اور محدود ٹیکسوں کے مالی بوجھ کے لیے قرضہ لینا پڑے گا۔ تاہم ایک اور اہم تضاد وزارتِ خزانہ کے عہدے پر جاری رسہ کشی کے حوالے سے معنی خیز ثابت ہوسکتا ہے۔

حفیظ شیخ نے مالیاتی ادارے کو بتایا تھا کہ اگلے سال دفاعی اخراجات کی رقم 1.444 کھرب مختص کی گئی ہے جو موجودہ سال کے کُل تخمینے سے 12.5 فیصد زیادہ ہے۔ مگر اسٹریٹجی پیپر میں دفاعی اخراجات کی رقم 1.33 کھرب روپے یعنی مالیاتی ادارے سے طے شدہ رقم سے 114 ارب روپے کم بتائی گئی ہے جو رواں برس کے مقابلے میں محض 3.6 فیصد زیادہ بنتی ہے۔

حفیظ شیخ کے آئی ایم ایف سے کیے گئے وعدوں اور اسٹریٹجی پیپر میں نمایاں تضادات نظر آتے ہیں جبکہ دوسری طرف حکومت اپنے بجٹ خسارے اور قرض میں کمی لانے کے اہداف میں نرمی لانے کے ساتھ ساتھ دفاعی اخراجات میں کٹوتی کرتے ہوئے ترقیاتی اخراجات میں اضافے کے ذریعے اپنے لیے گنجائش پیدا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان کو (گزشتہ اپریل سے اب تک کے مختصر وقفے کے بعد) اس ایڈجسٹمنٹ کی تکلیف محسوس ہو رہی ہے جو انہیں مجبوراً کرنی پڑی ہے اور اب وہ اپنے پارٹی کے قانون سازوں کے انتخابی مقاصد کی ڈوبتی نیّا کو پار لگانے کے لیے پیسے خرچ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

بے پناہ بے روزگاری، مہنگائی اور جمود زدہ (یا گھٹتی) اجرت کی وجہ سے عوام کو درپیش تکالیف کم کرنے کی غرض سے حکمراں جماعت کے اندرونی عناصر وزیرِاعظم کو زیادہ اقدامات کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ تاہم وسائل محدود ہیں اور وزیرِاعظم کو اخراجات سے روکنے والی رکاوٹیں بہت مضبوط ہیں۔ دراصل وزارتِ خزانہ پر جاری رسہ کشی کی وجہ یہی ہے۔ مذکورہ بالا اعداد سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کون کس معاملے پر رسہ کشی میں مصروف ہے۔


یہ مضمون 15 اپریل 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

خرم حسین

صحافی ماہر معیشت اور کاروبار ہیں

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : khurramhusain@

ان کا ای میل ایڈریس ہے: khurram.husain@gmail.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔