نقطہ نظر

پرویز بشیر: وہ آواز جو نصف صدی کا قصہ تھی

ہم نے پرویز بشیر کو کبھی میچلز جام، جیلی اینڈ مارملیڈز کےاشتہار میں دیکھا تو کبھی انگلش بسکٹس کو ’بسکٹ آف این ادر کائنڈ‘ کہتے سنا

اس کہانی کا آغاز 1980ء کی دہائی کے اواخر میں پی ٹی وی پر چلنے والے ایک کمرشل سے ہوا۔ اس کمرشل میں دکھایا گیا کہ ایک مچھر اس شخص کو کاٹنے میں ناکام رہا جس نے اپنے جسم پر موسپیل (جو مچھروں سے محفوظ رہنے کے لیے لگایا جاتا ہے) لگا رکھا تھا۔ اس کمرشل کی ٹیگ لائن ’مچھر آپ سے دُور، رہنے پر مجبور‘ بہت خوب تھی، لیکن اس سے زیادہ خوب اس جملے کو ادا کرنے والی آواز تھی۔

مجھ جیسے کئی لوگوں کو اس وقت پرویز بشیر کی آواز سے عشق ہوگیا تھا، جب انہوں نے اپنے مخصوص لہجے میں کہا تھا ’ایبٹ کا موسپیل جسم پر مل لینے سے مچھر آپ کو کاٹ نہیں سکتا‘۔

اپنے دوستوں، ساتھیوں اور انڈسٹری میں پی بی کہلانے والے پرویز بشیر 18 مارچ کو دماغ کی شریانوں میں ہونے والی پیچیدگیوں کے باعث انتقال کرگئے۔

نوجوان ان کے انداز کی نقل کیا کرتے تھے، بڑی عمر کے لوگ الفاظ کا وہی تلفظ ادا کرنے کی کوشش کرتے تھے جیسا پی بی کیا کرتے تھے اور بزرگوں کو تو ان پر یقین تھا۔ آڈیو کیسیٹ کے ابتدائی دنوں میں عوام کی بڑی تعداد صرف اس لیے مغربی موسیقی کو سنا کرتی تھی کیونکہ پی بی انگریزی گانوں کے پروگرام کی میزبانی کرتے تھے۔

پرویز بشیر 1949ء میں کراچی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے میری کلاکو اسکول، سینٹ پیٹرک اسکول اور ڈی جے سائنس کالج سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد داؤد یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں داخلہ لیا۔ وہ 3 بھائیوں اور 2 بہنوں میں سب سے بڑے تھے۔ میٹالرجیکل انجینیئر بننے کے بعد وہ 1967ء میں ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوگئے۔ وہ اپنی یونیورسٹی میں 10 سال سے زیادہ عرصے تک بحیثیت لیکچرار منسلک رہے لیکن آواز کی لہریں اور براڈکاسٹ ٹیلی ویژن ان کی پہلی محبت ہی رہا۔

آپ لوگوں کو سنیما میں پیش کیا جانے والا انگریزی زبان کا تصویری خبرنامہ یاد ہوگا۔ پی بی نے مختصر عرصہ انگریزی نیوز کاسٹر کے طور پر بھی کام کیا اور پھر وہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے اشتہارات کے لیے ترجیحی آواز بن گئے تھے۔ انہوں نے اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں عمدہ ادائیگی کے ساتھ اپنے ہم عصروں کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔

ہم نے پرویز بشیر کو کبھی کمر درد کے لیے مولٹی آرتھو کو تجویز کرتے ہوئے سنا تو کبھی میچلز جام، جیلی اینڈ مارملیڈز کے اشتہار میں، کبھی ہم نے انہیں انگلش بسکٹس کو ’بسکٹ آف این ادر کائنڈ‘ کہتے سنا تو کبھی پیک فرینز کے اشتہار میں ان کی آواز سنی۔

اپنی گہری اور صاف آواز کے ساتھ ساتھ انہیں الفاظ کی ادائیگی پر بھی عبور حاصل تھا۔ ان کی گونجتی ہوئی آواز نے ناظرین کو اس حد تک متاثر کیا تھا کہ لفظ ’فلپس‘ کے ساتھ بے ساختہ ’ٹیکنالوجی ود اسٹائل‘ کا جملہ بھی ادا ہوجاتا تھا۔

گوگو پان مصالحے، تلسی، کے اینڈ اینز چکن اور ہرا ہرا پاکولا جیسے مشہور اشتہارات بارہا پرویز بشیر کی آواز میں پیش کیے گئے۔ اس کے علاوہ ڈاکومینٹری فلم ساز بھی اپنے پراجیکٹس کے لیے پی بی کی آواز کو ترجیح دیتے تھے۔

اشتہارات کی دنیا میں سعید شیراز ایک جانی مانی شخصیت ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ پرویز بشیر کو اسکول کے زمانے سے جانتے ہیں۔ ’ہم نے اپنے کیریئر کا آغاز ایک ساتھ ہی کیا تھا، جب بھی مجھے کوئی پراجیکٹ ملتا تو پی بی میرے ساتھ ہوتے۔ ہم نے سب سے بہترین کام یوگانڈا میں کیا تھا جہاں ہم ایک ڈاکومنٹری کے سلسلے میں گئے تھے۔ پاکستان سے صرف ہمارا کریو ہی گیا تھا اور اس میں پی بی کی کافی مدد حاصل رہی۔ جب فلم ’جناح‘ کو ڈب کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو یہ کام مجھے سونپا گیا۔ ظاہر ہے میں نے اس کام میں پرویز بشیر کو بھی شامل کیا اور انہوں نے بہترین کام کیا۔ انہوں نے نہرو کے کردار کو آواز دی تھی‘۔

بدلتے ہوئے زمانے کے ساتھ ساتھ پرویز بشیر نے بھی خود کو بدلا۔ آڈیو کیسیٹ کے دور میں انہوں نے سرتاج گیت مالا کیا جو امین سیانی کے بِناکا گیت مالا سے مشابہت رکھتا تھا۔ پلس گلوبل رینٹل ویڈیوز کے ساتھ مل کر انہوں نے بیٹ مین اور ڈیمولیشن مین جیسی مقبول فلموں سمیت دیگر کئی فلموں کی ڈبنگ میں حصہ لیا۔ انہوں نے بہت ہی کامیاب پری اینڈ پوسٹ پروڈکشن اسٹوڈیو بھی شروع کیے۔ 1980ء کی دہائی میں فوکَس انٹرنیشنل اور 1990ء کی دہائی میں بی ٹی وی کے نام سے پروڈکشن اسٹوڈیو شروع کیے۔

یہ ڈیجیٹل میڈیا کے آنے سے پہلے کی بات ہے جب تمام پروڈکشن بہت ہی پیچیدہ اور اعلیٰ درجے کے آلات کی مدد سے کی جاتی تھی۔ نجی ٹی وی چینلوں کی مقبولیت کے بعد انہوں نے انڈس ٹی وی کے پروگرام ’ویک اینڈ برنچ‘ میں شریک میزبان کے فرائض بھی انجام دیے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ایف ایم ریڈیو کے ساتھ مستقل جڑے رہے۔ جب مختلف ٹی وی چینلوں کے لیے انگریزی فلموں کو اردو میں ڈب کرنے کا کام شروع ہوا تو بریو ہارٹ، ڈاکٹر زیواگو اور دی میسیج جیسی فلموں کے لیے پی بی کی خدمات حاصل کی گئیں۔

فلم ساز باسط مرزا اور پرویز بشیر کا 40 سال سے زیادہ کا ساتھ تھا۔ وہ انہیں ایک ذہین، شریف اور زبان پر عبور رکھنے والی شخصیت قرار دیتے ہیں۔ باسط مرزا اور پرویز بشیر نے 1997ء میں این ٹی ایم کے لیے 17 قسطوں پر مشتمل ڈرامہ الزام بھی پیش کیا تھا۔ اس ڈرامے میں نعمان اعجاز اور لیلیٰ واسطی جلوہ گر ہوئے تھے۔

فوزیہ کھوڑو گزشتہ 20 سال سے پرویز بشیر کے ساتھ درجنوں اشتہارات اور ڈاکومینٹریوں میں اپنی آواز کا جادو جگا چکی ہیں۔ وہ ان کے پیشہ وارانہ رویے اور آواز پر قابو کو بے حد سراہتی ہیں۔

جن دنوں پرویز بشیر برقی لہروں پر راج کرتے تھے، ان دنوں کے اکثر ٹی وی اشتہاروں کے پیچھے سعید رضوی ہوتے تھے۔ راقم نے فون پر ان سے پی بی کے ساتھ گزارے گئے دنوں کے بارے میں دریافت کیا تو وہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے۔

پرویز بشیر نے بی ٹی وی نامی اپنی پروڈکشن کمپنی سے انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کے لیے بھی مواد تیار کیا۔ ان کی بہن لِلی خان نے پی بی کے ساتھ ریڈیو پر میڈورا آف لندن میوزک شو کیا تھا۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ ’وہ پہلے سویلین تھے جنہوں نے کینپ (KANUPP) کے ایٹمی پاور پلانٹ میں قدم رکھا اور جب پی ٹی وی شاہین میزائل کی لانچ ریکارڈ کرنے میں ناکام ہوا تو پرویز بشیر کی خدمات حاصل کی گئیں‘۔ پی بی ایک آل راؤنڈر تھے۔ لکھنا، ڈبینگ کرنا اور ہدایت کاری کرنے کی صلاحیت ان میں قدرتی تھی۔

اکثر لوگ ایسے ہوں گے جو پی بی سے کبھی ملے تو نہیں لیکن اس کے باوجود ان کی آواز ان کے لیے اجنبی نہیں ہے، کیونکہ وہ اس آواز کو تقریباً نصف صدی سے ریڈیو اور ٹی وی پر سنتے آئے ہیں۔ انہیں وائس اوور کی دنیا میں ایک قد آور شخصیت کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

وہ اپنی آواز میں ہی کہے ہوئے ایک جملے کی مجسم صورت تھے۔ وہ جملہ تھا ’نصف صدی سے اعلیٰ معیار کی ضمانت‘۔


یہ مضمون 11 اپریل 2021ء کو ICON میں شائع ہوا۔

محمد صہیب
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔