پاکستان

ٹی ایل پی رہنماؤں کا نام فورتھ شیڈول میں شامل کیے جانے کا امکان

اسلام آباد کی انتظامیہ نے ٹی ایل پی کے مقامی رہنماؤں اور کارکنوں کے بارے میں تفصیلات اکٹھا کرنا شروع کردیں، رپورٹ

اسلام آباد: کیپیٹل پولیس نے انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) کے فورتھ شیڈول میں نام ڈالنے کے لیے حال ہی میں پابندی کا سامنا کرنے والی جماعت تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے مقامی رہنماؤں اور کارکنوں کے بارے میں تفصیلات اکٹھا کرنا شروع کردی ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ذرائع کا کہنا تھا کہ دارالحکومت انتظامیہ نے کالعدم تنظیم کی جائیداد کے بارے میں بھی تفصیلات اکٹھا کرنا شروع کردیں۔

سینئر پولیس افسران نے ڈان کو بتایا کہ سیاسی و مذہبی جماعت کو کالعدم قرار دیے جانے کے بعد سے پولیس نے اس کے مقامی رہنماؤں اور کارکنوں کی شناخت اور ان کا پتا لگانا شروع کردیا ہے۔

مزید پڑھیں: ٹی ایل پی دھرنا: وزارت داخلہ کا قانون توڑنے والوں سے سختی سے نمٹنے کا فیصلہ

امکان ہے کہ رہنماؤں اور فعال کارکنان کو اے ٹی اے کے فورتھ شیڈول کی فہرست میں شامل کیا جائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں پولیس کے مختلف ونگز، بشمول سی آئی اے، سی ٹی ڈی اور اسپیشل برانچ اس پر کام کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارم کی مدد سے ان کی نشاندہی کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ گزشتہ 3 روز کے دوران ٹی ایل پی کے 110 سے زائد رہنماؤں اور کارکنان کو حراست میں لے کر ان سے پوچھ گچھ کی جارہی ہے، تفتیش کار ان کے ساتھیوں اور ان کے ساتھ رابطے میں رہنے والے افراد کے بارے میں تفصیلات تلاش کر رہے ہیں۔

پولیس ان لوگوں کے نام، پتے اور دیگر تفصیلات کے حوالے سے ایک فہرست تیار کررہی ہے جس کی تصدیق کے لیے اس فہرست کو سی ٹی ڈی، اسپیشل برانچ اور سی آئی اے کے ساتھ شیئر کیا جارہا ہے۔

تکمیل کے بعد فورتھ شیڈول میں نام شامل کرنے کے لیے چیف کمشنر آفس کو بھیجا جائے گا۔

دارالحکومت انتظامیہ اسلام آباد میں ٹی ایل پی کی جائیدادوں کی شناخت اور ان کا پتا لگانے کے لیے پولیس کی مدد حاصل کرنے کے علاوہ ریونیو، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے ریکارڈ کو بھی جانچ رہی ہے۔

اس فہرست کو حتمی شکل دینے کے بعد دارالحکومت میں ٹی ایل پی کی تمام جائیدادیں ضبط کرلی جائیں گی۔

دوسری جانب مختلف تھانوں میں ٹی ایل پی رہنماؤں اور کارکنان کے خلاف مزید 4 مقدمات درج کرلیے گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ‘حکومت کے ٹی ایل پی پر پابندی کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں’

انسپکٹر جنرل پولیس قاضی جمیل الرحمٰن نے رابطے پر بتایا کہ ٹی ایل پی نے دارالحکومت میں 4 سے 5 مقامات پر احتجاج کیا جس کے دوران انہوں نے چند پولیس اہلکاروں کو اغوا کیا تاہم کارروائیوں کے بعد پولیس اہلکاروں کو ان سے چھڑوا لیا گیا۔

آئی جی پی نے بتایا کہ مظاہروں کے دوران انہوں نے 6 پولیس اہلکاروں کو زدوکوب اور زخمی بھی کیا جس پر پولیس نے مظاہرین کو گرفتار کیا اور باقی افراد کی گرفتاری کے لیے کوششیں جاری ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر ٹی ایل پی کے کارکنان اور رہنما فورتھ شیڈول کی شرائط کو پورا کرتے ہیں تو ان کے نام فہرست میں شامل کیے جائیں گے۔

واضح رہے کہ فورتھ شیڈول ان ممنوع افراد کی فہرست ہے جن پر انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) 1997 کے تحت دہشت گردی اور / یا فرقہ واریت کا شبہ ہو۔

165 ورکرز جیل منتقل

راولپنڈی میں ایک کارروائی کے دوران گرفتار ٹی ایل پی کے 165 رہنماؤں اور کارکنوں کو اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا۔

راولپنڈی پولیس نے قتل، دہشت گردی اور دیگر الزامات کے تحت 1350 سے زائد رہنماؤں اور کارکنان کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔

مزید پڑھیں: تحریک لبیک پاکستان کالعدم قرار، نوٹیفکیشن جاری

ٹی ایل پی کے 165 ورکرز اور رہنماؤں میں سے 83 کو 3 ایم پی او کے تحت جیل میں نظربند کیا گیا، اسی طرح 82 کو دیگر مختلف الزامات کے تحت حراست میں لیا گیا۔

راولپنڈی کے 3 تھانوں میں دھرنے کے شرکا کے خلاف تین مقدمات درج کیے گئے جن میں 100 سے زائد رہنماؤں اور کارکنوں کو نامزد کیا گیا ہے۔

سب انسپکٹر محمد سلیم نے وارث خان تھانے میں درج ایف آئی آر میں دعوٰی کیا تھا کہ مقامی رہنماؤں کی زیرقیادت ٹی ایل پی ورکرز اور رہنماؤں نے پولیس سے جھڑپ کی اور فائرنگ کی جس سے ان کے اپنے اہلکار ظہیر عباس کی موت واقع ہوگئی۔

پولیس نے تین ایف آئی آرز میں ٹی ایل پی کے 1394 سے زائد ورکرز اور رہنماؤں کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے تاہم ایف آئی آر میں 290 سے زائد افراد نامزد ہیں۔

سابق جنرل حمید گل کے بیٹے کیخلاف دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ

پاکستان میں مقیم 14 لاکھ رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی تصدیق کی مہم کا آغاز

طیارے میں کووڈ کے پھیلاؤ کا خطرہ کیسے کم کیا جاسکتا ہے؟