سیاسی جماعتوں کی سینیٹ کی اہم کمیٹیوں کی سربراہی پر نظر
سینیٹ انتخابات کے ایک ماہ بعد پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں نمائندگی رکھنے والی سیاسی جماعتوں کی نظریں اب اہم کمیٹیوں کی سربراہی پر ہیں کیونکہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بات چیت جاری ہے کہ ہر جماعت کو افہام و تفہیم سے اس کا حصہ مل سکے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے ذرائع نے بتایا کہ قائمہ اور فنکشنل کمیٹیوں کی تعداد اور ان میں چیئرمین شپ کی ذمہ داریوں کی تقسیم کے بارے میں دونوں فریقین (حکومت اور اپوزیشن) کے درمیان پہلے ہی ایک سمجھوتہ ہوچکا ہے، تاہم کمیٹیوں کی تقسیم ابھی باقی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں فریقین کے نمائندوں کے درمیان حالیہ ملاقات میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ ایوان میں ان کی کل تعداد کے تناسب کے مطابق کُل 38 قائمہ اور فنکشنل کمیٹیوں کی سربراہی فریقین میں تقسیم کی جائے گی۔
مزید پڑھیں: سینیٹ انتخابات ریفرنس: ’الیکشن کمیشن نے پوچھے گئے سوالات کا جواب نہیں دیا‘
انہوں نے کہا کہ متفقہ فارمولے کے مطابق اپوزیشن جماعتوں کو 22 کمیٹیوں کی چیئرمین شپ ملے گی جبکہ حکمران اتحاد کی 16 کمیٹیوں کی چیئرمین شپ ہوگی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ کمیٹیوں کی سربراہی کا فیصلہ سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی، قائد ایوان ڈاکٹر شہزاد وسیم اور اپوزیشن لیڈر سید یوسف رضا گیلانی کے درمیان اجلاس میں ہوگا۔
اپوزیشن کے 27 سینیٹرز کے گروپ کی سربراہی کرنے والے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اعظم نذیر تارڑ کو بھی باضابطہ طور پر اجلاس میں مدعو کیا جاسکتا ہے تاکہ اتفاق رائے سے اس معاملے کا فیصلہ کیا جاسکے۔
اعظم نذیر تارڑ کی سربراہی میں مسلم لیگ (ن) کے ایک وفد نے حال ہی میں صادق سنجرانی سے ملاقات کی اور ان سے کمیٹیوں کے قیام کے وقت اپوزیشن بینچز پر علیحدہ گروپ کی طرح سلوک کرنے کو کہا۔
رابطہ کرنے پر حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیف وہیپ فدا محمد نے تصدیق کی کہ کمیٹیوں کی تعداد کو تقسیم کرنے کے لیے حکومت اور اپوزیشن کے مابین مفاہمت ہوگئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سنجرانی چیئرمین اور مرزا آفریدی ڈپٹی چیئرمین سینیٹ منتخب، گیلانی اور عبدالغفور کو شکست
انہوں نے کہا کہ جب سینیٹ کے چیئرمین سعودی عرب سے وطن واپس آئیں گے تو دونوں فریقین کے درمیان ایک اور ملاقات متوقع ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پارٹیز کو ہر 3 سینیٹرز پر ایک کمیٹی کی سربراہی حاصل ہوگی۔
قوانین کے تحت کمیٹیوں کی تشکیل کے بعد ایوان انہیں باضابطہ منظوری دے گا۔
اس کے بعد ہر کمیٹی کے اراکین اپنا چیئرمین منتخب کریں گے تاہم پارلیمانی روایات کے مطابق کمیٹیوں کے چیئرمینز کو پارٹیز کے درمیان افہام و تفہیم سے انتخابات کے بغیر متفقہ طور پر نامزد کیا جاتا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کو فیصلہ کرنا ہے کہ آیا اہم کمیٹیوں کی سربراہی ان پارٹیز کے پاس رہے گی جن کے پاس 2018 سے موجود ہیں یا اس میں تبدیلیاں آئیں گی کیونکہ حکومت یقینی طور پر چند اہم کمیٹیوں کی سربراہی حاصل کرنا چاہے گی جو اس سے قبل گزشتہ 6 سالوں سے اپوزیشن کے پاس تھی۔
اس سے قبل اپوزیشن کے ارکان قانون اور انصاف، داخلہ، خزانہ، انسانی حقوق، استحقاق، امور خارجہ اور کابینہ سیکرٹریٹ سمیت متعدد اہم کمیٹیوں کی سربراہی کر رہی تھی۔
ذرائع نے بتایا کہ حکومت اس بار خزانہ، داخلہ اور قانون و انصاف سے متعلق کمیٹیوں کی سربراہی حاصل کرنا چاہتی ہے۔
اس معاملے پر حکومت سے مذاکرات کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی سربراہی میں دو اپوزیشن گروپس کو بھی کمیٹیوں کی صدارت کے بارے میں ایک سمجھوتہ کرنے کی ضرورت ہوگی۔