نقطہ نظر

سندھ کے زندگی بخش درختوں کی دم توڑتی سانسیں کب بحال ہوں گی؟

تمرکے جنگل طوفان، سائیکلون اور سونامی سے محفوظ ہی نہیں رکھتے بلکہ مختلف جانداروں کی آمجگاہ بھی بنتے ہیں۔ مگر یہ غیرمحفوظ کیوں ہیں؟

'پیڑ ہمارے لیے سانس (آکسیجن) چھوڑتے ہیں تاکہ اسے اندر کھینچ کر ہم زندہ رہ سکیں۔ کیا آپ اس بات کو کبھی فراموش کرسکتے ہیں؟ آئیے تادمِ مرگ درختوں کی محبت کو اپنی ہر ایک سانس میں سماں لیں۔'—منیہ خان، شاعرہ، لکھاری، مدیر

درخت زندگی کو بحال رکھتے ہیں۔ یہ ہمیں وہ صاف ہوا فراہم کرتے ہیں جس میں ہم سانس لیتے ہیں، ٹھنڈی چھاؤں دیتے ہیں جس کے تلے ہم بیٹھتے ہیں، مگر کئی درختوں کا کردار یہاں تک ہی محدود نہیں ہے۔

انڈس ڈیلٹا میں تمر کے درختوں کو ہی لیجیے، جس کا ماحولیاتی نظام کئی جانداروں کو پالتا ہے۔ یہ گھنے درخت ہمیں طوفان، سائیکلون اور سونامیوں سے محفوظ رکھنے کے ساتھ مختلف اقسام کے آبی جانداروں مثلاً مچھلی، جھینگوں و کیکڑوں اور پیلیکان، لال سر، رام چڑیا، سارس جیسے پرندوں حتیٰ کہ بطخوں کی آماجگاہ بھی بنتے ہیں۔ یہ درخت ان منطقہ حارہ یا ٹراپیکل پرندوں کو خوراک مہیہ کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں جو تمر کے علاوہ مچھلی، کیڑے مکوڑے اور پلینکٹن کھاتے ہیں۔

مگر پاکستان کے ساحل بالخصوص سندھ کے ساحلی علاقے میں موجود تمر کے جنگلات کی حالت اتنی اچھی نہیں ہے۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (آئی یو سی این) کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ ‘Mangroves of Pakistan: Status and Management’ میں یہ بتایا گیا ہے کہ 1966ء میں ہونے والے ایک مطالعے کے مطابق انڈس ڈیلٹا میں تمر کے جنگلات 2 لاکھ 49 ہزار 486 ہیکٹر کے رقبے پر پھیلے تھے۔ اسی رپورٹ کے مطابق 1980ء کی دہائی کی ابتدا میں تمر کے جنگلات کا رقبہ 2 لاکھ 50 ہزار سے 2 لاکھ 83 ہزار ہیکٹر کے درمیان تھا۔ تاہم 1990ء کی دہائی کی ابتدا میں یہ رقبہ تقریباً ایک لاکھ 60 ہزار تک محدود ہوگیا تھا۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دریائے سندھ کے ساتھ بہہ کر آنے والے رسوب یا مٹی اور تازہ پانی میں کمی کے باعث تمر کے جنگلات بُری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔

ڈیموں اور بیراجوں کی تعمیرات کے بعد کوٹری ڈاؤن اسٹریم میں تازہ پانی کا بہاؤ کم ہونا شروع ہوگیا تھا۔ بلاشبہ بیوروکریسی کی تمر کے جنگلات کی اہمیت سے بے خبری نے جنگلات کے زوال میں اہم کردار ادا کیا۔ متعدد بیوروکریٹ آج بھی یہ سمجھتے ہیں کہ سمندر میں تازہ پانی چھوڑنے سے وہ ضائع ہوجاتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ تمر کے جنگلات کی بقا کے لیے یہ عمل نہایت ضروری ہے۔

لکڑی کے حصول کی خاطر جس پیمانے پر درخت اور تمر کے جنگلات کاٹے جارہے ہیں، اس طرف توجہ دلوانے کے لیے متعدد لکھاری، محققین، کارکنان اور صحافی اس طرف توجہ دلوانے کے لیے کاغذ کے کاغذ (جو پیڑوں سے ہی تیار کیے جاتے ہیں، یہ بھی کیا خوب ستم ظریفی ہے!) کالے کرچکے ہیں مگر حصولِ زمین کی خواہش نے مذکورہ زمین کے باسیوں کے تحفظ کی اہمیت کو ماند کردیا ہے۔ اس کی ایک مثال متنازع کے پی ٹی ہاؤسنگ سوسائٹی ہے جس کے لیے 250 ایکڑ پر محیط اس زمین پر قبضہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے جہاں کبھی تمر کا جنگل تھا۔

بتانے والے یہ بھی بتاتے ہیں کہ تمر تنازع کی تاریخ خونخوار رہی ہے۔ 2011ء میں کاکا پیر نامی گاؤں میں 'قبضہ خوروں' نے پاکستان فشر فوک فورم (پی ایف ایف) سے وابستہ 2 ماحولیاتی کارکنان حاجی ابوبکر اور عبدالغنی کو مبینہ طور پر 'ڈوبا' کر مار ڈالا تھا۔ ایک دہائی بعد پی ایف ایف سے وابستہ ابوبکر اور عبدالغنی کے دیگر ساتھیوں نے بتایا کہ قبضہ خوروں کی جانب سے تمر کے درختوں کی غیر قانونی کٹائی کے خلاف ان دونوں نے آگاہی مہم شروع کی تھی جس کے بعد ان کی موت واقع ہوئی۔

مرحومین کے ساتھی بتاتے ہیں کہ دونوں کو اغوا کرنے کے بعد مچھلی پکڑنے والے جال سے باندھا گیا اور سمندر میں پھینک دیا گیا۔ اگرچہ دونوں ماہر تیراک تھے لیکن چونکہ ان دونوں کے ہاتھ پیر بندھے ہوئے تھے اس لیے ان کے پاس زندہ بچنے کا کوئی موقع ہی نہیں تھا۔ تاہم پولیس اور ماہی گیروں کا مؤقف الگ الگ ہے۔ پولیس کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ان دونوں کی موت ڈوبنے کی وجہ سے واقع ہوئی تھی۔ مگر پی ایف ایف کے چیئرمین محمد علی شاہ کا کہنا ہے کہ ماہی گیر اتنی آسانی سے نہیں ڈوب جاتے، بلکہ ہمارے تو بچے بھی آپ کو تیراکی سکھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں'۔

ماہی گیر کہتے ہیں کہ ابوبکر اور غنی کی لاشیں دراصل ان تمام لوگوں کے لیے ایک وارننگ تھی جو تمر کے جنگلات کی برسا برس تک جاری رہنے والی تباہی پر آواز اٹھانا چاہتے تھے۔ یوں لگتا ہے کہ کسی حد تک وہ اپنے مقصد میں کامیاب رہے ہیں۔ ماہی گیر برادری سے تعلق رکھنے والے کئی لوگ 'تمر مافیا'، 'ٹمبر مافیا' اور 'قبضہ مافیا' کے خوف و ڈر کا آج بھی ذکر کرتے ہیں۔

دوسری طرف ان ماہی گیروں کے مطابق اس مافیا نے اپنا کام جاری رکھا ہوا ہے البتہ اب پہلے کے مقابلے میں زیادہ محتاط ہوگئے ہیں۔ ان کے مطابق گزشتہ برسوں میں وہ اتنے ہوشیار ہوگئے ہیں کہ پکڑ میں نہیں آتے۔ ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ مختلف 'مافیا' بڑی ہوشیاری سے سامنے سے نظر آنے والے آگے کی طرف کھڑے درختوں کو چھوڑ دیتے ہیں جبکہ ان کے پیچھے موجود نظر نہ آنے والے درختوں کو کاٹ دیتے ہیں۔ یوں بظاہر ایسا لگتا ہے کہ تمر کا گھنا جنگل سامنے کھڑا ہے لیکن حقیقت میں وہ ایک کھوکھلا جنگل ہوتا ہے۔ ماہی گیروں کے مطابق آگے کی طرف کھڑے درخت طوفان سے بچاؤ میں زیادہ مددگار ثابت نہیں ہوتے تاہم یہ ظاہری نظارہ چوروں کے کرتوتوں کو چھپانے میں مدد دیتا ہے۔

سبز نظارے

تمر کے جنگلات سے متعلق بڑھتے خدشات سے حکومت بھی واقف ہے۔ حکومتِ سندھ متعدد بار تمر کے تحفظ اور شجرکاری مہمات پر توجہ دے چکی ہے، یہاں تک کہ شجرکاری کے عالمی ریکارڈ بھی توڑ ڈالے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے بڑا اعلان کرتے ہوئے صوبے کے عوام سے ایک ارب تمر کے پودے لگانے کا وعدہ کیا ہے۔

انڈس ڈیلٹا میں تمر کے جنگلات کی بحالی سے متعلق صوبائی حکومت کے پلان کے مطابق ڈیلٹا میں کاربن پول (کاربن ذخائر) کو وسعت دینے کے لیے اگلے 5 برسوں کے دوران 2 لاکھ ہیکٹرز کے رقبے پر تمر کی شجرکاری کی جائے گی۔ اس کے ساتھ حکومت شجرکاری کے عمل میں پودوں کی تعداد 2 ارب تک لے جانے کا ارادہ بھی رکھتی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق اس منصوبے پر عمل کے لیے 80 لاکھ دن درکار ہوں گے. اس طرح ساحلی علاقوں میں رہنے والے مقامی افراد کے لیے قریب 400 ملازمتیں پیدا ہوں گی اور ساتھ ہی تعلیم، صحت اور متبادل توانائی کی سہولیات کی صورت میں مختلف فوائد کے علاوہ علاقائی مراعات بھی فراہم کی جائیں گی۔

گزشتہ برس گرمیوں کے دوران سندھ کے صوبائی وزیرِ جنگلات، اطلاعات اور مقامی حکومت سید ناصر حسین شاہ نے بتایا تھا کہ سندھ کے مختلف ساحلی علاقوں میں لگائے جانے والے پودوں کو ملکی تاریخ میں پہلی بار کمپیوٹرائزڈ کیا گیا ہے جس کی مدد سے درختوں کی ٹریکنگ اور ان کی نشونما کی مانیٹرنگ پہلے سے زیادہ آسان ہوجائے گی۔

قریب ایک برس بعد ان کا محکمہ اور وہ سندھ کو پہلے سے زیادہ سبز بنانے کے لیے پُرعزم دکھائی دیتے ہیں۔

وہ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ تمر کے جنگلات کی کٹائی میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹھہرے تک نہیں لایا جا رہا ہے۔ صوبائی وزیر ناصر شاہ نے ای او ایس کو بتایا کہ 'یہ کہنا ٹھیک نہیں ہوگا کہ انہیں پکڑا نہیں جا رہا اور سزا نہیں دی جا رہی'۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مجرموں کو نہ صرف گرفتار کیا جاتا ہے بلکہ سزا بھی دی جاتی ہے اور جرمانہ بھی عائد کیا جاتا ہے۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ 'مگر وہ قاتل تو نہیں ہیں اور ان کے ساتھ 302 کی دفع کے تحت گرفتار مجرموں جیسا سلوک نہیں کیا جاسکتا۔ ظاہر ہے کہ ان سے جرمانہ لینے کے بعد وارننگ دے کر چھوڑ دیا جائے گا۔ یہی طریقہ کار ہے۔ اسی طرح ہی ایسے مجرموں کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے'۔

صوبائی محکمہ جنگلات ایک بہتر مستقبل کا سہانا خواب دیکھ رہا ہے۔ چند ماہ قبل تمر کے ایک ارب سے زائد پودے لگانے سے متعلق ایک اشتہار میں لکھا گیا تھا کہ 'سندھ کی خوشحالی، ہر طرف ہریالی'۔

تاہم ایک طرف جہاں ماہی گیر ان اقدامات کو خوش آئند قرار دیتے ہیں وہیں وہ شکوک و شبہات کے گرداب میں بھی دکھائی دیتے ہیں۔ وہ اور ان سے پہلے والے ماضی میں بہت سے بڑے بڑے پروگرامات کے اعلانات سُن چکے ہیں اور ان کی ناکامی بھی دیکھ چکے ہیں۔

ماہی گیر اور تمر کے جنگلات

آئی یو سی این کی رپورٹ کے مطابق اگرچہ پاکستان اور بھارت میں تمر کے استعمال کے حوالے سے کوئی مستند ریکارڈ نہیں ملتا لیکن یہاں روایتی طریقوں کا استعمال اب بھی جاری ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اوائلی دنوں میں تمر کے جنگلات کے ماحولیاتی نظام کو وسیع پیمانے پر استعمال کیا گیا تھا۔

تمر کے جنگلات مختلف مہنگی مچھلیوں اور دیگر جانداروں کے لیے جزوی ذریعہ خوراک اور نرسری کے طور پر ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ماہی گیر برادری اوائلی دنوں میں بھی تمر کے جنگلات کی افادیت سے آگاہ تھی۔ چنانچہ ماہی گیروں کا تمر کے جنگلات سے تعلق قیامِ پاکستان سے بھی پرانا ہے۔

یونس خاصخیلی جو ایک کارکن اور ماہی گیر ہیں، اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ انہوں نے ای او ایس کو بتایا کہ 'ان تمر کے جنگلات کی وجہ سے متعدد ماہی گیر برسرَ روزگار تھے۔ تقسیمِ ہند سے پہلے مقامی ماہی گیر بہت ہی بہتر زندگی گزار رہے تھے۔ اب صنعتی کشتیوں کے ذریعے ہونے والی گہرے سمندر میں ٹرالنگ، جس کے باعث مچھلیوں کی تعداد کم ہوئی ہے، کے علاوہ تمر کے جنگلات کی تباہی نے جھینگوں کے شکار کو متاثر کیا ہے کیونکہ جھینگے اور کیکڑے وغیرہ کی افزائشِ نسل جنگلات میں ہوتی ہے۔

یونس خاصخیلی کہتے ہیں کہ ماہی گیر فطرت سے محبت اور اس کی عزت کرنے والے لوگ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 'ہم نہ صرف اپنے لیے بلکہ سمندری حیات کے لیے بھی کام کرتے ہیں۔ ہم اس کی بھی ترقی اور خوشحالی چاہتے ہیں کیونکہ اسی میں ہمارے ماحولیاتی نظام کی خوشحالی پنہاں ہے'۔

جب بھی علاقے کا قدرتی ماحولیاتی نظام خطرے کی زد میں آیا ہے تو اس پر آواز اٹھانے والوں میں ماہی گیر پیش پیش رہے ہیں۔ حال ہی میں جب سرمایہ کاروں کی نظر کراچی کے ساحل سے متصل بنڈال اور بڈو نامی 2 جڑواں جزائر پر پڑی تو اس کے خلاف احتجاج میں وہ آگے آگے رہے۔ احتجاج کے بعد جزائر سے متعلق منصوبہ بندی کو کڑی جانچ پڑتال سے گزرنا پڑا۔ اس کے پیچھے کسی حد تک ان آوازوں کا بھی اہم کردار ہے جنہوں نے اس معاملے پر توجہ دلائی۔

ماحولیاتی کارکن یاسر حسین کہتے ہیں کہ 'ماہی گیروں نے جب جڑواں جزائر پر جدید شہروں کی تعمیر سے متعلق منصوبوں پر آواز اٹھائی تو ہم میں سے چند ماحولیاتی کارکنوں نے عدالت سے بھی رجوع کیا'۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ 'یہ جزائر دراصل 300 چھوٹے جزائر پر مشتمل انڈس ڈیلٹا کا حصہ ہیں۔ مگر ان کو انڈس ڈیلٹا کا حصہ تصور نہیں کیا جا رہا ہے حالانکہ اگر آپ ان کی جغرافیائی پوزیشن دیکھیں گے تو ڈیلٹا کا حصہ پائیں گے۔ ڈیلٹا کا حصہ ہونے کے لحاظ سے یہ تمر کے محفوظ قرار دیے گئے جنگلات کا حصہ بھی ہیں'۔

ان کا کہنا ہے کہ انڈس ڈیلٹا کے تمر کو 1923ء میں برٹش حکام نے محفوظ جنگلات کی حیثیت دی تھی۔ سندھ کے محکمہ جنگلات اور پورٹ قاسم اتھارٹی کے زیرِ انتظام جنگلاتی علاقہ بھی محفوظ جنگلات میں شامل تھا۔ یاسر حسین مزید بتاتے ہیں کہ صنعتی علاقہ، اقتصادی زون اور کوئلے سے چلنے والی توانائی کے پلانٹ بھی ڈیلٹا اور کبھی محفوظ قرار دیے گئے جنگلاتی رقبے میں قائم ہیں۔

اگرچہ سندھ کا محکمہ جنگلات انڈس ڈیلٹا کے تحفظ اور بحالی کے لیے کوشاں نظر آتا ہے لیکن ماحولیاتی کارکنوں کو ڈر ہے کہ کہیں محکمہ ان بااثر قوتوں کے سامنے جُھک نہ جائے جو اس علاقے پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور جو کسی بھی دن یہاں لوٹ سکتی ہیں۔

اہم سوالات

پی ایف ایف کے چیئرمین محمد علی شاہ کراچی کے ساحلی علاقے پر آباد مچھیروں کے گاؤں ابراہیم حیدری میں گزرے اپنے بچپن کے دنوں کو دل سے یاد کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان دنوں پانی اس قدر صاف تھا کہ اگر کوئی اس میں سکہ گر جاتا تو باآسانی صاف پانیوں میں سے نکال لیا جاتا مگر اب ان پانیوں میں اگر کوئی چیز گر جائے تو وہ ہمیشہ کے لیے کھو جاتی ہے۔ اب یہاں صرف گندا پانی ہی نظر آتا ہے۔

ماحولیاتی ماہر کے طور پر وہ تمر کی شجرکاری کا خیر مقدم کرتے ہیں لیکن اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ ایسا کسی حد تک عالمی 'کاربن ٹریڈنگ' کے میکنزم کی وجہ سے ممکن ہوسکا ہے۔

بی بی سی کے مضمون ‘?Carbon trading: How does it work’ کے مطابق کاربن ٹریڈنگ دراصل مارکیٹ کی بنیاد پر چلنے والا ایک سسٹم ہے جس کا مقصد ان گرین ہاؤس گیسوں کے اجراج میں کمی لانا ہے جو موسمیاتی تبدیلی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

مضمون کے مطابق، اس سسٹم کے تحت امیر ممالک کو یہ اجازت دی جاتی ہے کہ وہ مقررہ حد سے زیادہ کاربن اخراج میں کٹوتی کروانے کے لیے غریب ممالک میں کاربن اخراج میں کمی لانے سے متعلق اسکیموں پر کام کرسکتے ہیں۔ تاہم ان اسکیموں کی افادیت پر سوال اٹھائے گئے ہیں کیونکہ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ کئی ممالک نے کاربن اخراج میں جتنی کٹوتی کے لیے کام کیا اس کے مقابلے میں زیادہ کاربن فضا میں چھوڑا ہے۔

محمد علی شاہ کو بھی اس طرح کے طریقہ کار پر اعتراض ہے۔ وہ ہنستے ہوئے کہتے ہیں کہ، 'یہ تو ایسا ہی ہے جیسے قتل کہیں اور ہوا ہو، خون بہا معاف کہیں اور ادا کیا جائے'۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ، 'تمر کے جنگلات کے لیے یہ جو اقدامات ہو رہے ہیں وہ دراصل مذکورہ طریقہ کار کا حصہ ہیں۔ آسٹریلیا اور برطانیہ کی چند ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ساتھ 5 سالہ معاہدہ کیا گیا ہے جس کے تحت دنیا کے ایک کونے پر ان کمپنیوں کے خارج کردہ کاربن کے بدلے یہاں یعنی دنیا کے دوسرے کونے پر تمر کے جنگلات اگائے جائیں گے تاکہ وہ ٹنوں کی مقدار میں کاربن جذب کرسکیں۔

محمد علی شاہ کو اپنے متعدد سوالوں کے جواب مطلوب ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں کہ

ان میں کئی سوالوں کے جواب دیے جاسکتے ہیں۔ یقیناً ان میں سے چند سوالوں کے جواب حکومتی نمائندگان ماضی میں دے چکے ہیں مگر سوالوں کا یہ انبار اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ماہی گیر برادری کو اس طرح کے منصوبوں پر بھروسہ نہیں ہے۔

دوسرا رُخ

صوبائی وزیر سید ناصر حسین شاہ کے مطابق کاربن ٹریڈنگ نے تمر کے جنگلات کی بحالی پر کام کرنے میں حکومت کی مدد کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ 'اگلے 5 برسوں کے دوران کاربن کریڈٹ فنڈنگ کو نہ صرف تمر کے پودے لگانے بلکہ موجودہ جنگلات کے تحفظ کے لیے بھی استعمال کیا جائے گا'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ہم 500 ملین ٹن کی مقدار میں CO2e (کاربن ڈائی آکسائیڈ کے برابر تصور کی جانے والی گرین ہاؤس گیس) جذب کرنے والے کاربن پول بنانا اور اسے بحال رکھنا چاہتے ہیں تاکہ گلوبل وارمنگ میں کمی لائی جاسکے۔

صوبائی وزیر ناصر حسین شاہ کاربن ٹریڈنگ کے حوالے سے مثبت مؤقف رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 'اس طریقہ کار کے تحت جو ممالک یا کمپنیاں اپنی مقررہ حد سے زیادہ گرین ہاؤس گیس خارج کرتی ہیں وہ اس عمل کی قیمت کاربن ٹریڈنگ کی صورت میں ہماری فطرت کی مدد کرکے ادا کرتی ہیں۔ آج یا کل یہ کمپنیاں پرمٹوں کی صورتوں میں یہ جرمانے ادا کر کرکے بالآخر تھک جائیں گی اور خود اپنے کاربن اخراج کو کنٹرول کرنے پر مجبور ہوجائیں گی'۔

جب ان سے ماہی گیروں کے اس خدشے سے متعلق پوچھا گیا کہ شجرکاری مہم کے بعد حکومت پودوں کی مانیٹرنگ کو سنجیدہ نہیں لے گی، تو اس پر وہ مسکرائے۔

انہوں نے مجھے یاد دلایا کہ ان کی سیاسی جماعت پیپلزپارٹی نے 2008ء سے انڈس ڈیلٹا میں تمر کے جنگلات کی بحالی پر خصوصی زور دیا ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ان 12 برسوں کے دوران 2 لاکھ 10 ہزار ہیکٹر سے زائد رقبے پر پودے لگائے جاچکے ہیں جبکہ جولائی 2018ء میں شروع ہونے والے قریب 40 ہزار ہیکٹر کے رقبے پر پودے لگانے کے ہمارے سب سے بڑے ٹاسک پر عمل کی وجہ سے ہم دنیا میں جنگلات کی بحالی پر کام کرنے والوں کی صف اول میں شامل ہوگئے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ '2008ء سے 2020ء تک حکومتِ سندھ نے ایک ارب سے زائد درختوں کو اگایا اور ان کا تحفظ کیا ہے۔ ہم 2009ء، 2013ء اور 2018ء میں 300 رضاکاروں کی مدد سے ایک دن میں سب سے زیادہ پودے لگانے کا 3 بار گنیز ورلڈ ریکارڈ بنا چکے ہیں۔ 2009ء میں پاکستان نے کیٹی بندر کے مقام پر 5 لاکھ 41 ہزار 176 پودے لگا کر بھارت کا 4 لاکھ 50 ہزار پودے لگانے کا ریکارڈ توڑ دیا تھا۔ بعدازاں بھارت نے 6 لاکھ 50 ہزار پودے لگا کر وہ ریکارڈ توڑا۔ تاہم 2013ء میں سندھ کے محکمہ جنگلات نے کھارو چھان ٹھٹہ کے مقام پر ایک دن میں 8 لاکھ 47 ہزار 250 پودے لگا کر ایک بار پھر بھارت کا ریکارڈ توڑ دیا۔ اس کے علاوہ 2018ء میں ہم نے ضلع ٹھٹہ کے قریب جوہو کے مقام پر 11 لاکھ 29 ہزار 294 پودے لگا کر اپنے ریکارڈ کو مزید بہتر کیا'۔

وہ مزید بتاتے ہیں کہ، 'اسی اثنا میں 200 سے 300 ملین ٹن Co2e کی رینج کا کاربن پول تیار کیا گیا اور اس رینج میں مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہے'۔

اس کے بعد وہ تمر کے جنگلات کی مہمات سے جڑے اس اہم نکتے پر بات کرتے ہیں کہ تمر کے جنگلات نہ صرف سمندری حیات کے لیے اہمیت رکھتے ہیں بلکہ روزگار کے مواقع بھی پیدا کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 'ان کوششوں سے ساحلی علاقوں پر رہنے والے لوگوں کو پہلے ہی 40 لاکھ دنوں کا کام فراہم کیا جاچکا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ مقامی خاندانوں کے لیے 200 روزگار کے مواقع پیدا ہوئے۔ کریک یا کھاڑی کے علاقوں میں علاقائی مراعات کی صورت میں تعلیم اور صحت کی سہولیات کو بہتر بنایا جارہا ہے۔ بین الاقوامی مارکیٹ میں کاربن کریڈٹ کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم غریب مقامی افراد کی فلاح کے لیے استعمال کی جائے گی'۔

وفاقی وزیر، وزیرِاعظم کے مشیر برائے موسمیاتی تبدیلی اور آئی یو سی این کے نائب صدر ملک امین اسلم سے جب گرین ملازمتوں کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ پودے لگانے والوں کو ماہانہ 20 ہزار روپے ادا کیے جا رہے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسا صرف سندھ میں ہی نہیں ہو رہا ہے۔ انہوں نے ای او ایس کو بتایا کہ 'بلوچستان میں بھی اسی طرح کا کام انجام دیا جارہا ہے جہاں اونٹ تمر کے پودوں کو تباہ کردیتے ہیں۔ ہم نے وہاں اونٹوں کو پودوں سے دُور رکھنے کے لیے مقامی عورتوں کی مدد حاصل کی۔ بعدازاں ان عورتوں نے سلائی مشینیں مانگیں جو ہم نے بڑی خوشی سے ان کی مقامی آبادی کو فراہم کیں۔ یہ ایک کامیاب ماڈل ثابت ہوا'۔

وفاقی وزیر نے گرین ملازمتوں کے حوالے سے یہ بھی بتایا کہ وہ پودا لگانے والے لوگوں سے ابتدا کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 'اگرچہ تمر کے پودے کسی بھی وقت لگائے جاسکتے ہیں لیکن سال میں 2 بار، مارچ اور اگست میں پودوں لگانے کا سیزن عروج پر ہوتا ہے'۔

وفاقی وزیر ملک امین اسلم ماحولیاتی تحفظ پر کام کرنے والے اداروں کے کردار کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ 'منصوبے پر عمل درآمد کروانے کا ذمہ دار صوبہ ہے۔ تمام غیر سرکاری اداروں اور محکمہ جنگلات نے گزشتہ 20 برسوں میں تمر کے جنگلات میں 300 فیصد اضافہ کرنے میں اپنا بھرپور حصہ ڈالا ہے'۔

کام میں مقامی افراد کی حصہ داری

دوسری طرف ماہی گیر برادری یہ دعوٰی کرتی ہے کہ تمر کے جنگلات کے پھیلاؤ سے متعلق اعداد و شمار درست رپورٹ نہیں کیے جارہے ہیں۔ تاہم ایک طرف جہاں وہ حکومتی کوششوں سے غیر مطمئن نطر آتے ہیں وہیں یہ آئی یو سی این اور ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر (ڈبلیو ڈبلیو ایف) جیسی غیر سرکاری تنظیموں پر زیادہ بھروسہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے سندھ اور بلوچستان میں تعنیات ڈائریکٹر ڈاکٹر طاہر رشید کہتے ہیں کہ ان کی تنظیم گزشتہ 2 دہائیوں سے تمر کے جنگلات کے تحفظ کے لیے کام کر رہی ہے۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ 'انڈس ڈیلٹا اور دیگر مقامات میں تمر کے جنگلات پر ہمارا کام تحقیق، جامع تحفظ اور ساحلی علاقوں میں ماحولیاتی اثرات کے باعث پیدا ہونے والی غربت کو کم کرنے کی کوششوں پر مشتمل ہے'۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان مقامی افراد کو کام میں حصہ دار بنانے کو اہمیت دیتا ہے اور صنف کے کردار، مقامی لوگوں کو درپیش مسائل اور ماحولیاتی اثرات کو کم کرنے سے متعلق کاموں میں ان کی حصہ داری، ماحولیاتی استحکام اور متبادل و بہتر فطرت سے جڑے روزگار سپورٹ سسٹم کی اہمیت اور افادیت کو سمجھتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ہم مقامی افراد کی شراکت کو مزید بڑھانا بنانا چاہتے ہیں۔ ہم انہیں خود سے منظم ہونے اور ان کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں مدد کرتے ہیں۔ ہم انہیں روزگار اور اس کے ساتھ ساتھ آگ جلانے کے لیے لکڑی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے متبادل وسائل فراہم کرتے ہیں تاکہ قدرتی وسائل پر ان کا انحصار کم ہوسکے'۔

ایسا کہا جاسکتا ہے کہ غیر سرکاری شعبہ مقامی آبادی کو کام میں حصہ دار بناکر ماہی گیر برادری کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان تمر کے جنگلات کے تحفظ کے لیے حکومت کے ساتھ بھی کام کر رہا ہے۔

ڈاکٹر رشید کہتے ہیں کہ تمر کے جنگلات کے تحفظ سے متعلق سندھ محکمہ جنگلات کے ساتھ شروع ہونے والے مشترکہ منصوبے کے تحت اس وقت ڈبلیو ڈبلیو ایف انڈس ڈیلٹا میں واقع 17 دیہات میں تمر کے جنگلات پر منحصر آبادیوں کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ، مقصد یہ ہے کہ تمر کے جنگلات پر منحصر آبادیوں کو روزگار کے متبادل مواقع فراہم کرتے ہوئے جامع تحفظ کو ممکن جایا جائے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ہم مشترکہ طور پر انڈس ڈیلٹا میں 14 ہزار ہیکٹر کے رقبے پر پھیلے تمر کے جنگلات پر کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان میں قریب 7 ہزار ہیکٹر کا رقبہ پہلے سے کھڑے تمر کے جنگلات پر مشتمل ہے جسے غیر مستحکم استعمال سے بچایا جائے گا جبکہ 4 ہزار ہیکٹر کا رقبہ ایسا ہے جہاں برباد ہو رہے جنگلات کو بہتر کیا جائے گا اور 3 ہزار ہیکٹر کے رقبے پر شجرکاری کی جائے گی'۔

صوبائی وزیر ناصر حسین شاہ بھی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ حکومت مقامی آبادیوں کے ساتھ کام کر رہی ہے اور اس عمل کو جاری رکھنا چاہتی ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ کاربن کریڈٹ کی فروخت سے حاصل ہونے والی کریڈٹ رقم ماہی گیر آبادی کی ترقی کے لیے استعمال کی جائے گی۔

وہ کہتے ہیں کہ 'تمام فنڈز میٹھے پانی سے محروم علاقوں میں میٹھے پانی کی لائنیں بچھانے، ہسپتالوں اور اسکولوں کی تعمیر پر خرچ کیے جائیں گے، چونکہ یہ کام مقامی لوگوں کو سونپا جائے گا لہٰذا ان کے لیے روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا ہوں گے'۔

وہ اس بات کی بھی وضاحت کرتے ہیں کہ 'تمر کی شجرکاری کے لیے نہ تو ماہی گیروں کی آبادیوں کو تنگ کیا جائے گا نہ ہی ان کے دیہات کو اکھاڑا جائے گا۔ شجرکاری کے لیے کافی زمین موجود ہے۔ اب جب ہم منصوبے کی کامیابی کے لیے خود ماہی گیر آبادی کو کام میں حصہ دار بنا رہے ہیں تو ان کو تنگ کرنے کا سوال کیسے پیدا ہوسکتا ہے؟ تمام وسائل ماہی گیروں اور ماحولیات کو فائدہ پہنچانے کے لیے بروئے کار لائے جائیں گے۔ ان دونوں کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔'

پُرامیدی کا دامن تھامتے ہوئے ہم یہ امید کرتے ہیں کہ ماہی گیر اور ماحولیاتی کارکنان، جنگلات کو بچانے اور انہیں محفوظ بنانے میں مصروفِ عمل غیر سرکاری تنظیمیں اور حکومت اس بات کو سمجھیں گے کہ ان سب کا مقصد یکساں ہے، اور وہ یہ ہے کہ ماحولیات اور لوگوں کے فائدے کے لیے تمر کے جنگلات اُگائے جائیں اور ان کا تحفظ کیا جائے۔ تھوڑے سے اعتماد اور یقین کا ہاتھ تھام کر تمر کے جنگلات کی شجرکاری اور تحفظ کا سفر کامیابی سے طے جاسکتا ہے۔

اب جب پوری دنیا موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نبردآزما ہے اس لیے وقت آگیا ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز اکھٹا ہوں۔ مل کر کام کرکے ہی ہم ایک نئے باب کا آغاز اور آگے ہماری منتظر ایک مشکل جنگ کے لیے اپنی جڑیں مضبوط کر پائیں گے۔


یہ مضمون 11 اپریل 2021ء کو ڈان اخبار کے ایؤس میگزین میں شائع ہوا۔

شازیہ حسن

لکھاری ڈان اسٹاف ممبر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔