پاکستان

ملک چھوڑ کر چلے جائیں اگر ایسی باتیں کرنی ہیں، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ

جسٹس قاسم خان نے لیگی رہنما جاوید لطیف پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ کس کی جرات ہے جو پاکستان کے خلاف بات کرے۔
|

مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی جاوید لطیف نے ریاست مخالف بیان پر مقدمے کے اخراج کی درخواست لاہور ہائی کورٹ سے واپس لے لی۔

لیگی رہنما جاوید لطیف چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی عدالت میں پیش ہوئے۔

چیف جسٹس قاسم خان نے استفسار کیا کہ ہماری حب الوطنی، حب الوطنی ہے یا حب الشخصیت ہے، شخصیات تو آتی جاتی رہتی ہیں ادارے قائم رہتے ہیں، گریبان میں جھانکنا ضروری ہے۔

انہوں نے لیگی رہنما جاوید لطیف پر برستے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹیرینز کے بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتا لیکن کس کی جرات ہے جو پاکستان کے خلاف بات کرے، ملک چھوڑ کر باہر چلے جائیں اگر یہاں ایسی باتیں کرنی ہیں، خدا کا خوف کریں ایسی باتیں کیوں کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر یہاں رہنا ہے تو پولیس کے پاس جاکر صفائی پیش کریں، ملک کے خلاف بات کرنے والوں کو عوام مسل کر رکھ دیں گے۔

جاوید لطیف کے وکیل نے کہا کہ ان کے موکل کے خلاف مقدمے میں قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گیے۔

یہ بھی پڑھیں: جاوید لطیف نے ریاست مخالف تقریر کا مقدمہ چیلنج کردیا

چیف جسٹس نے کہا کہ اس کے لیے آپ کے پاس فورم موجود ہیں وہاں جائیں۔

انہوں نے کہا کہ جو آدمی ملک کے خلاف بات کرے گا اس کے لیے کوئی ریلیف نہیں ہے، ملک اور آئین کے خلاف باتیں کرتے ہیں پھر عدالتوں میں ریلیف کے لیے آجاتے ہیں۔

جس پر جاوید لطیف نے لاہور ہائی کورٹ سے اپنی درخواست واپس لے لی۔

ایسے حالات میں پھانسی بھی چڑھ جاؤں تو افسوس نہیں، جاوید لطیف

بعد ازاں عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جاوید لطیف نے کہا کہ 73 سالوں سے غداری کے ٹائٹل لوگوں پر لگائے جاتے ہیں، ایٹمی صلاحیت کے باوجود کہا جارہا ہے کہ اندرونی حالات درست نہیں، جو غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹتے ہیں ان کو سوچنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ عوامی نمائندہ ہونے کا حق اس وقت تک ادا نہیں ہوتا جب تک حقائق بیان نہ کیے جائیں، ان کا کہنا تھا کہ بینظیر بھٹو نے کہا تھا ان کی زندگی کو خطرہ ہے لیکن ریاست نے کچھ نہیں کیا، صرف پاکستان زندہ باد کہنے سے کچھ نہیں ہوگا غلطیوں کی نشاندہی کرنی چاہیے، آپ غداری کے ٹائٹل دیتے ہیں اور عوام زندہ باد کہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ایسے حالات میں پھانسی بھی چڑھ جاؤں تو افسوس نہیں، ایسی پالیسیاں نہ بناؤ کہ غدار پیدا ہوں۔

لیگی رہنما نے کہا کہ میں اپنے مؤقف پر قائم ہوں، اگر غلط ہوتا تو بیان واپس لیتا جبکہ آئینی اور قانونی اداروں پر اعتماد ہے اس لیے درخواست واپس لی۔

مزید پڑھیں: ریاست مخالف تقریر کا معاملہ: جاوید لطیف کی عبوری ضمانت منظور

واضح رہے کہ جاوید لطیف نے گزشتہ روز اپنے خلاف مقدمے کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

درخواست گزار کی جانب سے کہا گیا تھا کہ لیگی رہنما جاوید لطیف کے خلاف غداری کا جھوٹا اور بے بنیاد مقدمہ درج کیا گیا۔

اس کے ساتھ ہی درخواست میں لاہور ہائی کورٹ سے استدعا کی گئی تھی کہ عدالت جاوید لطیف کے خلاف مقدمہ خارج کرنے کا حکم جاری کرے۔

خیال رہے کہ رہنما مسلم لیگ (ن) جاوید لطیف نے گزشتہ ماہ مارچ میں ایک ٹی وی پروگرام میں مریم نواز کو مبینہ دھمکی دینے سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ 'اگر خدانخواستہ مریم نواز شریف کو کچھ ہوا تو ہم پاکستان کھپے کا نعرہ نہیں لگائیں گے'۔

اس بیان پر 20 مارچ کو جاوید لطیف کے خلاف ریاست کے خلاف بغاوت پر اکسانے اور غداری سمیت سائبر کرائم ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا تھا۔

میاں جاوید لطیف کے خلاف مقدمہ لاہور کے شہری جمیل سلیم کی مدعیت میں تھانہ ٹاؤن شپ میں درج کیا گیا تھا جس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ جاوید لطیف نے ملک کی حکومت اور سالمیت کے ساتھ ریاستی اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کی۔

یہ بھی پڑھیں: ریاست مخالف تقریر کا معاملہ: لیگی رہنما جاوید لطیف کے خلاف مقدمہ درج

ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ 'رکن قومی اسمبلی نے ٹی وی پر ملکی سلامتی اور ریاستی اداروں کے خلاف بیان دے کر فوجداری، ملکی اور آئینی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے'۔

مسلم لیگ (ن) ہی کے رہنما اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے جاوید لطیف کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ جاوید لطیف کے بیان سے متفق نہیں اور ان کو اپنے بیان پر معافی مانگنی چاہیے۔

بعدازاں 22 مارچ کو سیشن کورٹ نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما جاوید لطیف کی ریاست مخالف تقریر کے مقدمے میں عبوری درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے پولیس کو ان کی گرفتاری سے روک دیا تھا۔

بولی وڈ فلم ساز کی اہلیہ و بیٹی نے خودکشی کرلی

نظام میں برائیاں آجائیں تو تبدیلی میں وقت لگتا ہے، وزیراعظم

سال 2020 میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے کیسز میں 4 فیصد اضافہ ہوا، رپورٹ