نقطہ نظر

پردیس سے دیس: آنسوؤں میں بھیگا سفر (پہلی قسط)

پرواز سے پہلے میاں سےکئی بار جھگڑی کہ ایسا مشکل فیصلہ انہوں نےکیوں کیا؟ اگرچہ اس کی تاویلیں دینےمیں، مَیں ہی ہمیشہ پیش پیش رہی تھی

اس وقت کو گزرے ڈیڑھ سال سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے، لیکن پھر بھی ایسا لگتا ہے جیسے ابھی کل کی بات ہو، ابھی زخم ہرے ہیں، اب مندمل ہوتے زمانے لگ جائیں گے۔

جب انسان خوابوں کی جنت میں رہتا ہو اور وہ جنت ایک دن اسے حقیقت کے اذیت ناک ڈھیر پر لا پھینکے تو یہ چوٹ اتنی چھوٹی نہیں ہوتی کہ انساں دنوں اور ہفتوں میں بھول جائے، بڑی بڑی چوٹیں بھولنے میں زمانے لگ جاتے ہیں۔

یہ 2018ء کے جولائی کی بات ہے، جب یہ سفر شروع ہوا ہے۔ یہ سفر بضد تھا کہ مجھے لکھو، مگر دل و دماغ میں طوفان اتنا تھا کہ نہ قلم تھاما جاتا اور نہ حوصلہ بحال ہوپاتا۔ سال بھر کورونا کے لاک ڈاؤن کا سہارا لے کر خود کو تھامے دھیرے دھیرے آگے دھکیلا ہے تو انگلیوں میں اتنی استطاعت پیدا ہوئی ہے کہ کچھ لکھ سکیں۔ شاید کہ یہ اوراق ہی اس بوجھ کو اٹھا سکیں جو انسانی وجود کی سکت سے زیادہ بھاری تھے۔ یقیناً کچھ بوجھ صرف انسان کا سینہ ہی اٹھا پاتا ہے۔

8 جولائی 2018ء

وہ ایک عجیب سفر تھا۔ میری 11 سالہ ہوائی سفر کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ میری سیٹ کہیں اور تھی، دونوں بچے ایک اور رو میں بیٹھے تھے اور میاں صاحب ان سے پچھلی رو میں اکیلے بیٹھے تھے۔ اس میں ہمارا کوئی دوش نہ تھا۔ ہمیں نشستیں ہی ایسے ملی تھیں۔ ہمیشہ کی طرح بچوں کے قریب بیٹھنے کے بجائے میں نے سب سے الگ سیٹ پر بیٹھنے کو ترجیح دی کیونکہ مجھے اندازہ تھا کہ یہ ایک مشکل سفر تھا۔

اگرچہ اس سے پہلے بھی ایک ایسا ہی سفر میں 2008ء میں کرچکی تھی، مگر وہ اس قدر تکلیف دہ اور اذیت ناک نہیں تھا۔ اس سفر سے بہت سے خوف اور خدشات پیوستہ تھے، آنے والے وقت کا خوف، آنے والی زمین کا خوف، وہاں کے لوگوں اور حالات کا خوف۔ سچ کہتے ہیں کہ بلندی کی طرف جانے کے مقابلے میں بلندی سے اترنے کا سفر مشکل ہوتا ہے۔ میں بلندی سے اتر رہی تھی۔ اس سفر سے پہلے کئی دنوں سے میں نوافل پڑھ کر خدا کے سامنے بلک رہی تھی۔ ڈر اور وسوسے ایسے تھے کہ اگلے 2 قدم اٹھانے محال تھے۔

مگر یہ 2 قدم قسمت میں ایسے لکھے گئے تھے کہ چاہتے بھی تو موڑے نہیں جاتے تھے۔ اس پرواز سے پہلے میاں سے کئی بار جھگڑی کہ ایسا مشکل فیصلہ انہوں نے کیوں کیا؟ اگرچہ اس کی تاویلیں دینے میں، مَیں ہی ہمیشہ پیش پیش رہی تھی۔ مگر سچ تو یہی تھا کہ اس قدر مشکل فیصلہ کرنا اور اس کا بوجھ اٹھانا خود میری ہمت سے باہر تھا۔ یہ پورا سفر میں نے باہر جھانکتے اپنی فیملی سے اور آس پاس کے مسافروں سے نظر بچا کر آنسو بہاتے گزارا۔

مگر میں اس قدر رو کیوں رہی تھی؟

شاید اس لیے کہ میں نے11 سال کی مشکل اور کٹھن زندگی جس اجنبی اور انجان شہر میں گھر اور زندگی بنانے میں گزاری تھی، اسے آج شاید میں ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر واپس لوٹ رہی تھی۔ اپنے کمفرٹ زون، جس میں ہم ایک روٹین اور سکون کے عادی رہے تھے، جس میں پل بڑھ کر میرے بچے ایک اور ہی سانچے میں ڈھل چکے تھے، میں انہیں خود سمیت وہاں سے نکال کر ایک ایسی دنیا میں لے جا رہی تھی جہاں کے بارے میں لکھا اور پڑھا جاتا کہ وہاں درختوں پر اُمید مگر چہروں پر ظلمت اگتی ہے۔

جہاں قدرت تو سکون بخشتی ہو مگر انسان زندگی مشکل بنادیا کرتے ہیں، جہاں خدا کے قانون صحیح اور انسانوں کے قانون اُلٹ چلتے ہیں۔ جہاں ظلم، ناانصافی، جھوٹ اور دغا، نفرت و حسد کے اژدھوں کا دور دورہ ہے، اور سچائی، ایمانداری، محبت، سلامتی نام کے تمام خوبصورت پرندے دیس بدر ہوچکے ہیں۔ جہاں اصلی بارشیں اور نقلی خلوص بکتے ہیں اور زندگیوں کا نصب العین صرف اور صرف انسانیت اور اخلاق کے تمام اصولوں سے جی بھر کر بغاوت کرنا ہے۔ کیا واقعی ایسا تھا؟

میں اپنی تمام تر زندگی سمیٹے اپنے ملک کی طرف لوٹ رہی تھی۔ اگرچہ میری آنکھوں میں کچھ ایسے خواب بھی تھے جنہیں میں برسوں سے جی نہ سکی تھی، مگر خدشات ان سے کئی گنا بڑھ کر تھے۔ جو سکون نہ لینے دیتے تھے۔

خواب؟ وہ خواب کیا تھے جن کی طلب مجھے اس سفر پر لے آئی تھی۔ مجھے وہ خوشیاں سانپ بن کر ڈستی تھیں جو میں اپنے معاشرے، اپنے شہر اور خاندان میں ادھوری چھوڑ کر پردیس چل پڑی تھی۔

میں ہمیشہ ان محبتوں اور اپنوں کو ترستی رہی تھی جو میری زندگی سے کہیں چِھن گئے تھے۔ مجھے وہ فراغتیں پانی تھیں جو پاکستان کی سرحد میں ہر کسی کو میسر ہیں۔ میں اجنبی معاشرے میں تنہا رہ رہ کر تھک چکی تھی۔ میرے بچے ایک اجنبی معاشرے کا حصہ ہوکر بھی تنہا تھے۔ ہم کوے ہوکر کبوتروں کے دیس میں بس کر بھی ان میں اپنی جگہ نہ بناسکے تھے۔ ہمیں تنہائی ہمیشہ پیچھے کھینچتی تھی اور دُور کے سہانے ڈھول یاد آتے تھے۔

کسی دوسرے معاشرے میں آپ ہمیشہ تنہا ہوتے ہیں، آپ اپنے جیسے چند لوگ کبھی کبھار ڈھونڈ لیتے ہیں مگر آس پاس ہزاروں لاکھوں افراد آپ کے اپنے نہیں ہوتے، وہ آپ کو احساس دلاتے ہیں کہ آپ کچھ اور ہیں اور وہ کچھ اور ہیں، شاید تبھی تو انساں دیکھتا ہے پلٹ پلٹ کر۔

غیر ملک میں انسان چاہے کتنا ہی معتبر ہوجائے اور چاہے اسے کیسا ہی عزت مآب اسٹیٹس مل جائے، مگر وہ ہمیشہ مُڑ مُڑ کر اپنے دیس، اپنے معاشرے کی طرف دیکھتا رہتا ہے جہاں ہر گلی ہر موڑ پر اسے اپنے جیسے ہزاروں لاکھوں ملتے ہیں۔

ہم اپنے عجیب و غریب مسائل میں الجھے اس سکون کی طرف لوٹنا چاہتے تھے جو ہمیں اپنے دیس اور لوگوں میں گھلتا دکھائی دیتا تھا۔ میں جی بھر کر اردو بولنا اور ڈھیروں ڈھیر دھنک رنگ شلوار قمیض پہننا چاہتی تھی، کھل کر گھنٹوں ہنسنا اور گپیں مارنا چاہتی تھی۔ میں اپنے اصل کی طرف لوٹنا چاہتی تھی۔ میرے گھر سے بھی جب ایک ملازم جائے تو دوسرا آجائے، ایک ملنے والا نکلے تو دوسرا آن ٹکرائے، کبھی سبزی والا اونچی آواز لگائے، کبھی دودھ والا دروازہ بجائے۔ بچے گلی میں آس پڑوس کے بچوں کے ساتھ دیسی بدیسی کھیل کھیلیں، شہر میں گلیوں میں ہر طرف اپنی زبان اپنے جیسے لوگ چاہتی تھی۔

بلاشبہ میں خود بھی بھول چکی تھی کہ اب میں خود بھی ایسی نہیں رہی۔ میں جن کی طرف لوٹنا چاہتی تھی ان جیسی نہیں رہی تھی۔ مجھے لگتا تھا بچوں کو دادا دادی اور نانا نانی چاہئیں۔ انہیں خالاؤں اور پھوپھیوں کی ضرورت ہے۔ ان کے گرد ہر طرف کزنز کا جمگھٹا ہو۔ پاکستان کی زمیں پر کیسے موسم اترتے ہیں؟ کیسے لوگ بستے ہیں؟ ان پر بھی یہ گتھی کھلے۔ اے سی کے بغیر سردی کیسے ہوتی ہے؟ سردیوں کے کپڑے کیسے ہوتے ہیں؟ بادل گرجیں تو دل کیسے سہم جاتا ہے؟ وہ بھی جانیں۔

کارپٹڈ سڑکوں کے علاوہ بھی کچھ رستے ہوتے ہیں جو ہمارے دیس میں منزلوں کی طرف لے جاتے ہیں۔ شیشے کی اونچی عمارتوں کے علاوہ بھی کچھ شہر اور قصبے ایسے ہوتے ہیں جہاں تازہ اسٹرابیری اور مزے کا میٹھا آم پیدا ہوتا ہے۔ جہاں تربوز سونے سے بہت سستا ملتا ہے۔ جہاں صفائی کا زیادہ خیال نہیں رکھا جاتا مگر پھر بھی گنے کا میٹھا اور ٹھنڈا جوس ہر سڑک پر مل جاتا ہے۔

جہاں کینو اور مالٹے جیسے مزیدار پھل ہوتے ہیں اور جہاں مٹی بھرے رستوں پر ہریالی اور ہزاروں رنگوں کی بہار اترتی ہے۔ جہاں موسم ہر وقت تغیر میں رہتے ہیں اور لوگ 4 موسموں کے کپڑے پیٹیوں یا الماریوں میں رکھتے یا ان سے نکالتے پورا سال گزار دیتے ہیں۔ جہاں بادل گرجتے ہیں اور ژالہ باری سے گھر گونج اٹھتے ہیں۔ جہاں جاڑے اور بہار کے رنگوں اور فضا میں ان کی خوشبوؤں میں فرق ملتا ہے جہاں سردی اور گرمی 2 مختلف براعظموں کے موسم لگتے ہیں۔

مجھے لگتا تھا ہم میاں بیوی، سالوں سے محض ایک دوسرے کی صورت دیکھ دیکھ تھک چکے ہیں۔ ہمارے بچے محدود سے سرکل میں رہ کر زندگی کو سیکھ نہیں پائے، معاشیات کے مسائل سب سے الگ اور انوکھے تھے۔ سو کئی طرح کی چیزوں اور باتوں کی ضرب تقسیم کرکے میں نے اور میاں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ میں بچوں کو لے کر ابوظہبی سے اسلام آباد شفٹ ہوجاؤں۔ زندگی کے اس موڑ کی کہانی میں صرف یہ فیصلہ کرنا ہی سب سے آسان اور سہل کام رہا تھا۔

اس کے بعد کی کوئی بھی منزل آسان نہ رہی تھی۔ فیصلہ کرتے ہی میرے ہاتھ پاؤں پھولنے لگے تھے۔

جس غیر یقینی کی آگ میں چھلانگ مارنے جا رہی ہوں نہ جانے کیسی غضبناک ہو۔ جس منزل کے لیے انجانے سفر پر نکل رہی ہوں وہاں کہیں بھوتوں کا بسیرا نہ ہو۔ میں ایک ایسے شہر میں بسنے جارہی تھی جہاں چند دوستوں کے سوا کوئی رشتہ دار کوئی اپنا نہیں تھا (کبھی کبھی ہماری فہرست میں جو اپنے ہوتے ہیں، اکثر جب نبھانا پڑے تو وہ کس طرح غیر نکلتے ہیں، یہ بعد میں جانا)۔

بہرحال ہم بوریا بستر اٹھائے کرہ ارض پر موجود مملکت خداد کے سرسبز و شاداب اور پہاڑوں کے شہر میں اُتر رہے تھے جسے اسلام آباد پکارا جاتا ہے۔

صوفیہ کاشف

صوفیہ کاشف ادبی مضامین اور افسانے لکھنے کا شوق رکھتی ہیں۔ آپ ان کے مزید مضامین ان کی ویب سائٹ SofiaLog پر پڑھ سکتے ہیں اور ان کے ولاگ ان کے یوٹیوب چینل SofiaLog. Vlog

پر دیکھ سکتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔