ای سی سی کا ایک مرتبہ پھر آئی پی پیز کو ادائیگی کی منظوری سے گریز
اسلام آباد: کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے واجب الادا 4 کھرب 3 ارب روپے کی پہلی قسط کی ادائیگی کا فیصلہ ملتوی کردیا۔
تاہم کمیٹی نے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کے 4 کھرب 57 ارب روپے کے تشکیل نو کے منصوبے کے ساتھ 13 ارب روپے کی لاگت سے 25 فیصد افرادی قوت (تقریباً ساڑھے 3 ہزار ملازمین) کم کرنے کی منظوری دے دی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وفاقی وزیرخزانہ، محصولات وصنعت وپیدارحماداظہرکی سربراہی میں ای سی سی کے اجلاس میں بجلی کی پیداواری کمپنیوں (جینکوز) ملازمین کو کھپانے کی بھی منظوری دی جو 1900 میگاواٹ کے بجلی گھر بند ہونے کے بعد سرپلس ہوگئے تھے لیکن ان کی پینشن اور فوائد پر کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت حتمی تاریخ گزرنے کے باوجود 19 آئی پی پیز کو پہلی قسط ادا نہ کرسکی
توانائی ڈویژن میں عہدیداران کا کہنا تھا کہ انہوں نے ٹیرف مذاکراتی عمل کے تحت آئی پی پیز کے واجب الادا 4 کھرب 3 ارب روپے میں سے 85 ارب روپے کی پہلی ادائیگی کے لیے تمام رسمی کارروائیاں مکمل کرلی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ای سی سی نے پاور ڈویژن کی سمری پر غور نہیں کیا جس میں قومی احتساب بیورو (نیب) نے واضح کیا ہے کہ اس کی تحقیقات بلز کی ادائیگی میں رکاوٹ نہیں جو وزارت توانائی کی ایک معمول کی کارروائی ہے۔
عہدیداران نے کہا کہ وزارت خزانہ کے حکام الزام اپنے سر لینے کو تیار نہیں جبکہ پاور ڈویژن کا اصرار ہے کہ ٹیرف مذاکرات کا انعقاد حکومتی ٹیم نے کیا تھا اور یہ متعدد وزرا پر مشتمل ایک عملدرآمد کمیٹی کے ذریعے ہوئے تھے، چنانچہ متعلقہ فورم کو ایک مشترکہ فیصلہ لینا چاہیے۔
دوسری جانب کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی بھی نیب کے ملوث ہونے کی وجہ سے کوئی فیصلہ لینے کے لیے تیار نظر نہیں آئی اور چاہتی تھی کہ بیورو کی جانب سے کلین چٹ دی جائے۔
مزید پڑھیں: وزارت خزانہ آئی پی پیز کو 2 اقساط میں واجبات ادا کرنے پر رضامند
ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ حیرت انگیز طورپر طویل معاہدوں والے آئی پی پیز جن کا سرکاری کمپنیوں کے خلاف وصولیوں کا حجم 10 کھرب روپے سے زیادہ ہے وہ اب بھی بجلی فراہم کررہے ہیں کیوں کہ اگر 85 ارب روپے کی ادائیگی میں کچھ غلط بھی ہوا تو اسے مستقبل کی کسی ادائیگی میں ایڈجسٹ کیا جاسکتا ہے۔
خیال رہے کہ حکومت کی جانب سے 28 فروری کو طے پانے والے معاہدے کے تحت 19 آئی پی پیز کو تقریباً 85 ارب روپے کی ادائیگی حتمی تاریخ گزر جانے کے باوجود نہیں کی جاسکی۔
ہر آئی پی پی کے لیے رقم تصدیق شدہ اور آڈیٹڈ تھی اور اس میں کوئی عملی رکاوٹ حائل نہیں تھی، توانائی ڈویژن کے ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ عدم ادائیگی سود میں اضافہ کررہی ہے اور اسے اب کلیئر ہوجانا چاہیے۔
پاور ڈویژن اپنے طور پر اتنی بڑی رقم جاری کرنے سے گریزاں ہے اور مشترکہ ذمہ داری کے لیے ای سی سی سے منظوری لینے کی خواہاں ہے کیوں کہ نیب نے نظرِ ثانی شدہ معاہدے کا جائزہ لینے کا اعلان کر کے پاور ڈویژن اور متعلقہ اداروں سے سارا ریکارڈ منگوالیا تھا۔