پاکستان

لیگی سینیٹرز کا صادق سنجرانی سے انہیں 'آزاد گروپ' کی حیثیت میں تسلیم کرنے کا مطالبہ

اعظم نذیر تارڑ کی سربراہی میں مسلم لیگ (ن) کے وفد نے سینیٹ کے چیئرمین کو آگاہ کیا کہ ان کے گروپ میں 27 سینیٹرز شامل ہیں۔

اسلام آباد: اپوزیشن بینچوں پر الگ گروپ تشکیل دینے والے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹرز نے سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی سے ملاقات کی اور ان سے 'آزاد حزب اختلاف' کی حیثیت سے برتاؤ کرنے کو کہا ہے۔

ڈان کی رپورٹ کے مطابق سینیٹ سیکریٹریٹ کے جاری کردہ سرکاری ہینڈ آؤٹ کے مطابق اعظم نذیر تارڑ کی سربراہی میں مسلم لیگ (ن) کے وفد نے سینیٹ کے چیئرمین کو آگاہ کیا کہ ان کے گروپ میں 27 سینیٹرز شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: پی ٹی آئی نے سینیٹ کی نشست کے لیے یوسف رضا گیلانی کی نامزدگی کو چیلنج کردیا

انہوں نے مزید کہا کہ ایوان کی فنگشنل کمیٹیوں کے معاملے میں ان سے علیحدہ مشاورت کی جائے۔

نذیر تارڑ کے ہمراہ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹرز مصدق ملک، رانا مقبول احمد اور افنان اللہ خان موجود تھے۔

پیر کو سینیٹ کے پہلے اجلاس کے دوران خطاب کرتے ہوئے نذیر تارڑ نے اعلان کیا تھا کہ 5 جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن ارکان نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سید یوسف رضا گیلانی کی حزب اختلاف کے رہنما کی حیثیت سے حمایت نہیں کی تھی اور انہوں نے اپوزیشن بینچوں پر آزاد گروپ کی حیثیت سے بیٹھنے کا فیصلہ کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: یوسف رضا گیلانی کی کامیابی پر اپوزیشن میں خوشی، حکمران جماعت کا نتیجے پر اعتراض

آزاد اپوزیشن گروپ میں مسلم لیگ (ن)، جمعیت علمائے اسلام (ف)، بلوچستان نیشنل پارٹی-مینگل، نیشنل پارٹی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی شامل ہیں۔

نذیر تارڑ کو مسلم لیگ (ن) نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے فیصلے کے مطابق سینیٹ میں حزب اختلاف کا قائد نامزد کیا تھا۔

تاہم پیپلز پارٹی نے نذیر تارڑ کی بے نظیر بھٹو قتل کیس میں ملزم پولیس عہدیداروں کے وکیل ہونے کے لیے نامزد ہونے پر اعتراض کیا تھا۔

مزید پڑھیں: مولانا فضل الرحمٰن کا پی ڈی ایم لانگ مارچ ملتوی کرنے کا اعلان

علاوہ ازیں اپوزیشن بینچوں پر 21 سینیٹرز کے ساتھ سب سے بڑی جماعت ہونے کے بعد اپوزیشن لیڈر کے عہدے پر اپنا حق جتایا تھا۔

یوسف رضا گیلانی کو بعد میں سینیٹ کے چیئرمین نے اپوزیشن لیڈر کے طور پر اعلان کیا تھا۔

انہوں نے 30 سینیٹرز کی ایک فہرست پیش کی تھی جس میں وہ 5 سینیٹرز بھی شامل تھے جو گزشتہ تین برس سے بطور اتحادی حکومتی نشستوں پر بیٹھے تھے۔

اس فیصلے سے نہ صرف پی ڈی ایم کے مابین پھوٹ پڑی بلکہ ماضی کے دو اہم حریفوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو بھی ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کردیا۔

یوسف رضا گیلانی نے اپنے خطاب میں اپوزیشن اور حکومت کو ساتھ لے کر چلنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ پی ڈی ایم کی تشکیل کے وقت بنیادی مقصد لوگوں خصوصاً خواتین، اقلیتوں کے آئینی، جمہوری اور معاشی حقوق کا تحفظ کرنا تھا۔

’اثر و رسوخ‘ استعمال کرکے کورونا ویکسین لگوانے پر عفت عمر کی معذرت

جہانگیر ترین کی پیشی کے موقع پر مشتبہ شخص سے اسلحہ برآمد

کیا پاک بھارت دوستی کے لیے پاکستان کا 'ہتھیار ڈالنا' ناگزیر ہے؟