’تم نے 2 انجان لڑکوں کے ساتھ تن تنہا کیمپنگ کی؟‘
جیسے ہی برف پوش پہاڑوں کے پار سورج ڈھلنے لگا اور آسمان پر ستارے نمودار ہونے لگے ویسے ہی ہم آگ کے الاؤ کے گرد رات کا کھانا کھانے بیٹھ گئے۔
ہم نے وہ دن پاسو سے خرم آباد تک ہائیکنگ کرتے ہوئے گزارا تھا اور ہم ایسے مقام پر پہنچ چکے تھے جہاں سے دریا کے پار ہمیں 3 گلیشیئرز نظر آرہے تھے۔ ہم تھکن کے باوجود بھی پُرجوش تھے۔ شاید اسی وجہ سے ہم گرما گرم چکن کڑاہی اور چاولوں پر ٹوٹ پڑے۔
میں کچھ عرصے سے شمالی علاقہ جات میں کچھ دن گزارنا چاہتی تھی۔ بلآخر گزشتہ سال اکتوبر میں یہ سفر ممکن ہوسکا۔ میں نے اس کیمپنگ کا اہتمام 2 گائیڈز کے ساتھ کیا تھا، پاکستان میں ایک عورت اس سے زیادہ اکیلے سفر نہیں کرسکتی۔
میرے دونوں گائیڈ کا تعلق پاسو سے تھا اور دونوں یونیورسٹی کے طالب علم تھے۔ ان میں سے ایک کا نام ذیشان تھا جسے شانو بلاتے تھے جبکہ دوسرے کا نام حسین تھا۔ کھانے کے لیے بیٹھتے ہی ہم نے باتیں شروع کردیں۔ ان میں سے ایک اپنی تعلیم کے حوالے سے فکر مند تھا اور دوسرا روزگار کے حوالے سے۔
ہماری گفتگو آہستہ آہستہ سیاست کی جانب چلی گئی۔ ان دونوں نے ہمارے حکمرانوں کا احتساب نہ ہونے پر مایوسی کا اظہار کیا۔ رات کو جب میں اپنے سلیپنگ بیگ میں لیٹی تو میں نے سوچا کہ آخر پاکستان میں کتنے مقامات ایسے ہوں گے جہاں میں 2 مکمل اجنبی مردوں کے ساتھ گفتگو کرسکتی ہوں۔ شاید اس کے لیے پہاڑوں میں گھری کوئی الگ تھلگ جگہ درکار ہے جہاں دُور دُور تک کوئی نہ ہو۔
جب میں نے یہ واقعہ اپنی ’آنٹی‘ کو بتایا تو انہوں نے حیرت زدہ لہجے میں کہا کہ ’تم نے 2 انجان لڑکوں کے ساتھ تن تنہا کیمپنگ کی؟‘ انہوں نے فوراً ہی لاہور سیالکوٹ موٹروے پر ہونے والے واقعے کا ذکر کردیا۔
کیا جس وقت میں ان انجان مردوں کے ساتھ اکیلے تھی تو مجھے وہ ناقابلِ بیان واقعہ یاد نہیں آیا؟ اس کا جواب ہاں میں ہے۔ لیکن کیا میں اپنے سفر کے دوران پاکستانی مردوں کے حوالے سے بُرا تصور ہی رکھنا چاہتی تھی؟
اس سے قبل میں نے 4 ہفتے گلگت بلتستان، ہنزہ، نتھیا گلی اور چترال کی سیر کرتے ہوئے گزارے تھے۔ اس سفر میں میرے ہمراہ اکثر لڑکیاں تھیں۔ اس سفر کے دوران بھی انجان لڑکوں کے ساتھ کئی بار آمنا سامنا ہوا۔
میں اور میری دوست کیلاش کے ایک قبرستان میں گھوم رہے تھے کہ سوات سے تعلق رکھنے والے کچھ لڑکوں نے ہم سے سلام دعا کی۔ انہوں نے پہلا تاثر یہ دیا کہ وہ تعلیم یافتہ ہیں۔ ان میں سے ایک نے غیر ضروری طور پر بلند آواز میں کہا کہ ‘میری بات سنیں‘۔ اس نے پوچھا کہ میری دوست کا موڈ خراب کیوں ہے۔
اس حرکت سے میری دوست کو مزید غصہ آگیا۔ بعد میں اس نے کہا کہ مردوں کو ہر وقت خواتین کو مسکرانے کے لیے نہیں کہنا چاہیے۔ وہ اس طرح کے مردوں کے گروپ کو دیکھ کر غصے میں آجاتی، وہ کہتی ان کی بیویاں کہاں ہیں؟ وہ انہیں گھروں پر چھوڑ کر کیوں آئے ہیں؟
میں نے سوچا کہ اگر یورپ میں مردوں کا کوئی گروپ اس طرح ہم سے بات کرنے کی کوشش کرتا تو کیا ہم اس وقت بھی اسی طرح کا ردِعمل دیتے؟ کیا وہ ہم سے صرف دوستانہ انداز میں بات نہیں کرنا چاہتے تھے؟ یورپی بھی تو پدرشاہی نظریات کے ہوسکتے ہیں، لیکن ہم پاکستانی مردوں کے لیے کوئی خاص ہی غصہ رکھتے ہیں۔
اس طرح کا آمنا سامنا آگے بھی کئی جگہوں پر ہوا۔ پنجاب سے آئے سیاحوں نے چترال میں ہمیں اپنے ساتھ کھانے کی دعوت دی۔ ان کا خیال تھا کہ مشکپوری پر ہائیکنگ کے لیے ہمیں مدد کی ضرورت تھی، اور کریم آباد کے وہ بزرگ جو آگ کے گرد بیٹھے ہم سے باتیں کرنا چاہ رہے تھے۔
ان ملاقاتوں میں یہ معاشرتی تصور غالب تھا کہ اجنبی مرد، خاص طور پر وہ مرد جو کم آمدن والے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، خطرناک ہوتے ہیں اور خواتین کو ان سے بچ کر رہنا چاہیے۔
ظاہر ہے کہ خواتین کے باہر نہ جانے کی ایک وجہ عدم تحفظ کا احساس ہے۔ میں چاہتی تھی کہ میں بھی بازاروں، پارکوں، ڈھابوں اور ایسی ہی دوسری جگہوں کا تجربہ کروں جو عموماً مردوں کے زیرِ اثر ہوتی ہیں۔ ایک خاتون ہونے کے ناطے میں ان مقامات کی بنیادی حرکیات کو تبدیل کیے بغیر وہاں نہیں جاسکتی۔ جیسے ہی عورت یہاں داخل ہوتی ہے ویسے ہی مردوں کا رویہ یکسر تبدیل ہوجاتا ہے۔ وہ گھورنے لگتے ہیں یا شرارتاً اپنے دوستوں کو کہنی مارتے ہیں۔ کچھ لوگ ایک دوسری انتہا پر چلے جاتے ہیں اور انتہائی رسمی انداز اختیار کرلیتے ہیں۔
میں اور میری دوست چترال کے بازار میں جارہے تھے، وہ شاید پاکستان کے سب سے زیادہ قدامت پسند علاقوں میں سے ایک تھا اور ہم وہاں واحد خواتین تھیں۔ ہم کئی مردوں کے سامنے سے گزرے، کچھ نے گھورا اور کچھ نے نہیں۔ ہم ایک مرد کے سامنے سے گزرے تو اس نے کہا ’اوہ خدایا‘۔ میری دوست نے تیزی سے سانس لی اور اپنی مٹھی بھینچ لی، ہم تیزی کے ساتھ وہاں سے گزر گئے۔
ایک لمحے کو مجھے بھی غصہ آیا۔ بطور نو عمر لڑکی میں شاید ڈرجاتی لیکن چونکہ میں حال ہی میں پاکستان واپس آئی ہوں شاید اس وجہ سے مجھے خود کو ثابت کرنا تھا۔ اسی وجہ سے میں نے ڈر کو اپنے قریب نہیں آنے دیا۔
اس کے بعد ہم اپنے سر ڈھانپ کر چترال کی مسجد میں داخل ہوئے۔ ہم نے وہاں خواتین کے لیے نماز کی مخصوص جگہ ڈھونڈی لیکن وہاں ایسا کوئی انتظام نہیں تھا۔ وہاں موجود افراد نے ہمیں گھورا ضرور لیکن کسی نے کچھ کہا نہیں۔ ان کی نظروں نے یہ بات واضح کردی تھی کہ ہمیں اپنے گھر پر رہنا چاہیے تھا یا مزید روایتی کپڑے پہننے چاہیے تھے۔ لیکن مجھے تو یہ مشہور مقامات دیکھنے تھے پھر چاہے اس کے لیے مجھے خود کو اور دوسروں کو بے آرام ہی کیوں نہ کرنا پڑتا۔
چترال اور کیلاش میں حنیف ہمارا گائیڈ تھا۔ شروع میں وہ بہت کم گو رہا۔ وہ اپنی نظریں نیچی رکھتا تھا اور فاصلے سے رہتا تھا۔ وہ ہاتھ کے اشاروں اور مسکراہٹ کے ساتھ ہمیں مختلف مقامات کے بارے میں بتاتا۔ ہم جب ایک سیاسی جماعت کے پوسٹر کے سامنے سے گزرے تو حنیف نے آہستہ آواز میں اس جماعت کو بددعا دی۔ میں نے اسے ہنستے ہوئے کہا کہ میں بھی اس بات سے متفق ہوں، اس کے فوراً بعد وہ مسکرایا، کچھ پُرسکون ہوا اور پھر ہم سے کھل کر باتیں کرنے لگا۔
ہم نے اپنے خیالات بانٹنا شروع کیے تو وہ بھی پُرجوش طریقے سے اپنے سیاسی نظریات کا اظہار کرنے لگا۔ اب وہ بغیر کسی جھجک کے سگریٹ پی رہا تھا۔ اس نے چرس کا ایک ٹکڑا لہرا کر کہا کہ ’یہ ہماری ثقافت کا حصہ ہے‘۔ اس نے ایک قصہ بھی سنایا کہ جب ایک مرتبہ اسلام آباد پولیس نے چرس ضبط کی تھی۔ وہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں رہ چکا تھا۔ ہم اس کے ساتھ ساتھ چلنے میں اپنی پوری طاقت صرف کر رہے تھے۔
ہم اس وقت لکڑی کے بنے ایک کیلاشی گھر میں بیٹھے پلاؤ اور اخروٹ کی روٹی کھا رہے تھے، ہمیں کیلاش کی شراب بھی پیش کی گئی تھی۔ اسی دوران حنیف نے ہمیں بتایا کہ بائیڈن انتخابات جیت گئے ہیں۔ پھر وہ ٹرمپ کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے لگا۔
یہاں بھی ہم دو خواتین ایک انجان مرد کے ساتھ موجود تھیں۔
کیا ایک پاکستانی خاتون ہونے کے ناطے مجھے ہر پاکستانی مرد کو شک کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے؟ یہ بات درست ہے کہ یہاں مردوں کے حوالے سے ایک خوف پایا جاتا ہے لیکن کسی انجان لڑکے سے خوف کھانے میں اس کی جنس کا زیادہ عمل دخل ہے یا اس کی مالی حالت کا؟ یہ خوف اس وجہ سے بڑھ گیا ہے کہ پاکستان میں ایسے مقامات کم ہی ہیں جہاں کوئی انجان لڑکوں کے ساتھ گپ شپ کرسکتا ہے۔
مجھے امید ہے کہ ہم ایسی مزید جگہیں بنائیں گے جہاں اس طرح کا عمل ممکن ہو جس کا تجربہ بہت کم وقت کے لیے میں نے ان شمالی علاقوں میں کیا تھا۔
یہ مضمون 4 اپریل 2021ء کو ڈان اخبار کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔