لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب میں درختوں کی کٹائی پر پابندی عائد کردی
لاہور ہائیکورٹ نے پورے پنجاب میں درختوں کی کٹائی پر پابندی عائد کرتے ہوئے ماحولیاتی تحفظ ایجنسی (ای پی اے) سے ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی جانب سے ملتان میں آم کے باغات کاٹنے پر رپورٹ طلب کرلی۔
ڈان کی رپورٹ کے مطابق جسٹس شاہد کریم نے عدالتی واٹر کمیشن کی جانب سے ماحولیاتی امور سے متعلق زیر التوا پٹیشنوں میں درخواست کی سماعت پر مذکورہ حکم جاری کیا۔
مزیدپڑھیں: ہاؤسنگ اسکیمز کے باعث 'آم کے باغات کا شہر' تباہی کے دہانے پر
کمیشن کی جانب سے ایڈووکیٹ سید کمال حیدر نے مؤقف اختیار کیا کہ ہاؤسنگ سوسائٹیوں نے ماحولیاتی ادارے کی منظوری کے بغیر 6 ہزار ایکڑ پر محیط آم کے باغوں کو کاٹ دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر متعلقہ حکام نے کوئی کارروائی نہ کی تو ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی طرف سے تمام زرخیز اور زرعی اراضی کو ضائع کردیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ای پی اے اس سنگین خلاف ورزی پر خاموش بیٹھا ہوا ہے جبکہ اس کو زرخیز زمین کو بین الاقوامی سطح پر آم کے پودوں کے لیے اہم اور موجودہ ضوابط کے تحت ماحولیاتی لحاظ سے حساس قرار دینا چاہیے تھا۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ ملتان ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے کچھ علاقوں کو صنعتی استعمال کے لیے منفی قرار دیا تھا لیکن جب زمین کے زرعی استعمال کی بات کی گئی تو وہ خاموش رہی۔
مزیدپڑھیں: پیپلز پارٹی کا ملتان میں آم کے درختوں کی کٹائی کی تحقیقات کا مطالبہ
جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ یہ انتہائی افسوسناک بات ہے کہ ای پی اے نے درختوں کی قیمت پر تعمیراتی سرگرمیاں انجام دینے کے لیے نجی اراضی ڈیویلپرز کو این او سی جاری کردیں۔
جج نے کیس کی مزید سماعت 9 اپریل تک ملتوی کردی اور ای پی اے کو ہدایت کی کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ صوبے میں تعمیراتی سرگرمیوں کے لیے مزید درخت نہ کاٹے جائیں۔
پورا ملک بالخصوص پنجاب آلودگی اور اسموگ کی لپیٹ میں ہے جہاں بڑے شہروں اور اس کے آس پاس کے سبز علاقوں کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے ایسے میں نجی رہائش کی اسکیموں کا عفریت باغات پر مشتمل زرعی اراضی کو ختم کررہا ہے۔
خیال رہے کہ ملتان میں زرعی اراضی بالخصوص آم کے باغات کی کٹائی اور ان کی زمین کو ہاؤسنگ سوسائٹی کی تعمیر کے لیے استعمال کیے جانے کی رپورٹس گزشتہ کئی روز سے زیر گردش ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: خان صاحب، بس 10 ارب درخت لگانے کا وعدہ مت بھولیے گا
اس حوالے سے شہری اپنے تحفظات کا اظہار بھی کررہے ہیں جبکہ سوشل میڈیا پر بھی اس سے متعلق ہیش ٹیگز ٹرینڈ کرتے رہے۔
اس سے قبل ماحولیاتی تحفظ کی ایجنسی (ای پی اے) کے معائنہ کاروں نے ہاؤسنگ سوسائٹی کے لیے مجوزہ سائٹ کو ناکارہ قرار دیا اور خدشہ ظاہر کیا تھا کہ آم کے باغات کو گرنے اور زرعی اراضی کی تباہی ماحولیاتی نظام کو تباہ اور ماحول کو نقصان پہنچائے گی۔
ڈپٹی ڈائریکٹر ڈیولپمنٹ ملتان نے رپورٹ 12 فروری کو ماحولیاتی تحفظ ایجنسی پنجاب کو بھیجی تھی۔
رپورٹ کے مطابق انسپکٹرز کی ایک ٹیم جس میں فیاض حسین اور ظفر رحمان شامل ہیں، نے نجی ہاؤسنگ اسکیم کے فیز II کے لیے مجوزہ سائٹ کا معائنہ کیا۔
اس میں کہا گیا تھا کہ دستاویزات کے مطابق محمد اسلم سندھو ‘منصوبے کا روح و رواں ہے’ لیکن اس کے نام پر کوئی قانونی دستاویز / زمین کی ملکیت دستیاب نہیں ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ آم کا باغ 150 ایکٹر پر محیط ہے اور کمپنی مزید زرعی اراضی کو ختم کردے گی۔
آم کے درختوں کو گرانے کے بعد نجی ہاؤسنگ اسکیم کا فیز 2 قائم کیا جارہا ہے بلکہ بوسن روڈ پر اسی ہاؤسنگ اسکیم کے فیز 1 اور ایکسٹینشن تعمیر کیا گیا اور وہ فروخت بھی ہوگئے جہاں ہزاروں آم کے درخت کاٹ دیے گئے۔
رپورٹ میں نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ ‘آم کے باغات کاٹنے اور زرعی اراضی کی تباہی سے مقامی ماحولیاتی نظام تباہ ہونے کا امکان ہے اور یہ مقامی اور قومی سطح پر معاشرتی ماحولیاتی نقصان کو پہنچائے گا’۔