پاکستان

'پانی دا بلبلہ'

اس گانے کا فلسفہ ہے کہ زندگی پانی کے بلبلے جیسی ہے جو اس فلم کی کہانی پر بالکل فٹ بیٹھتا ہے۔

پاکستانی فلموں کی نئی لہر کے منتظر شایقین کی لیے زندہ بھاگ ایک نیا تجربہ ہوگا۔ زندہ بھاگ کے میوزک میں ریلیز کیا جانے والا پہلا گانا معروف لوک گیت پانی دا بلبلہ (پانی کا بلبلہ) ہے جسے نئے دور کے تقاضوں کے مطابق ڈھال کر پیش کیا گیا ہے۔

یہ فلم فرجاد نبی، مینو گوہر اور مظہر زیدی کی مشترکہ کاوش ہے اور وہ پرامید ہیں کہ بولی وڈ اسٹار نصیرالدین شاہ کے ساتھ بنائی گئی یہ فلم مقامی باکس آفس میں نئے ریکارڈز قائم کرے گی۔

نصیر الدین شاہ کا کردار موجودہ فلم میں یقیناً منفی نوعیت کا ہے یعنی محلے کا ایک بدمعاش جو نوجوانوں کو اپنی شخصیت کے زور پر مسحور کر لیتا ہے۔ لیکن بقول نصیرالدین شاہ انہیں سیدھے سادے شریف اور بااصول لوگوں کے کردار کرنے میں وہ مزہ نہیں آتا جو کسی ٹیڑھے میڑھے کردار میں ڈھل کر حاصل ہوتا ہے۔

نصیرالدین کے لیے موجودہ کردار اس لیے بھی اہم ہے کہ وہ پہلی بار پنجابی زبان میں کوئی رول نبھا رہے ہیں۔

انہیں امید ہے کہ پاکستان عنقریب جدید فلم سازی کا ایک اہم مرکز بن کر ابھرے گا کیونکہ یہاں محنتی فن کاروں کی کوئی کمی نہیں ہے۔

مینو گوہر اس فلم کی مصنف ہیں جب ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے اس معروف گیت کا ریمیک فلم میں شامل کرنے کا فیصلہ کیوں کیا،  تو ان کا کہنا تھا؛

اس گانے کا فلسفہ ہے کہ زندگی پانی کے بلبلے جیسی ہے جو ہماری فلم کی کہانی پر بالکل فٹ بیٹھتا ہے۔

اس کی شاعری میں بتایا گیا ہے کہ اس دنیا میں لوگوں کی خواہشات، آرزوئیں اور دیگر چیزیں بالکل پانی کے بلبلے کی طرح ہیں۔

فرجاد نبی اس فلم کے ڈائریکٹر ہیں۔

ہم نے اس گانے کا انتخاب اس لئے کیا کیونکہ یہ گانا خالص پاکستانی ہے، اس کی شاعری مقامی ہے اور یہ منفرد ہے، اس کو سنیں تو معلوم ہوگا کہ اس میں روٹی کپڑا اور مکان کی بات کی گئی ہے، جو ستر کی دہائی میں پیپلزپارٹی کا نعرہ تھا۔

اس میں ٹی وی شو ٹاکرا کا ذکر ہے جو مرحوم دلدار پرویز بھٹی چلاتے تھے۔ یہ ایسی علامات اور حوالے ہیں جن سے صرف مقامی سننے والے ہی لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔

آپ کے خیال میں یہ منفرد کیوں ہے؟

مینو گوہر:

کیا آپ نے پہلے ایسا گیت سنا ہے؟ اکثر لوگ اسے پہلا پنجابی ریپ گانا کہتے ہیں مگر میرے خیال میں یہ بات ٹھیک نہیں، یہ ٹھیک ہے کہ اس میں ایک برجستہ تک بندی کا ہے جو مزیدار تو ہے مگر روزمرہ کی زندگی کا احطہ بھی کرتی ہے، اس گیت کی سادگی اور مٹھاس اپنی طرف کھینچتی ہے۔

فرجاد نبی: ہم بچپن سے پانی دا بلبلہ سنتے آرہے ہیں اور یہ کبھی آپ کے ذہن سے نہیں نکل سکتا۔ اس کا ہمارے پیارے دوست عارف وقار سے خصوصی تعلق ہے۔ جب عارف صاحب ستر کی دہائی میں پی ٹی وی کے پروڈیوسر تھے تو انہوں نے یعقوب عاطف کو بریک دیا اور یہ گانا پی ٹی وی پر بہت مقبول ہوا۔ یہ کلاسک ٹی وی ڈرامے وارث کا بھی حصہ تھا، عارف صاحب نے ہی اس گانے کے انگریزی بول لکھے تھے۔

آپ نے اپنی فلم میں اس گانے کیلئے ابرار الحق کا انتخاب کیوں کیا؟

مینو گوہر: ہمیں ایسے گلوکار کی ضرورت تھی جو یعقوب بلبلہ جیسے جاندار سر لگا سکے اور اس مقصد کیلئے ہمارے میوزک ڈایریکٹر ساحر علی بگہ نے ابرار کا نام تجویز کیا۔۔

فرجاد نبی: کیونکہ اس گانے میں وہی طنز و مزاح اور زندگی کے حساب سے لوک گیتوں والی سمجھ بوجھ ہے۔

پاکستانی موسیقی دیگر فلمی میوزک سے کس طرح مختلف ہیں؟

مینو گوہر: پاکستانی میوزک  بہت رنگا رنگ ہے۔ اس فلم میں ہم نے ایک لوک گیت عارف لوہار کی آواز میں لیا ہے، راحت فتح علی خان کی ایک قوالی ہے، ساحر علی بگہ کا بھنگڑا نمبر ہے، امانت اور اقراء کا دوگانہ ہے اور پھر ہم نے ایک گیت میں سلیمہ خواجہ کو بھی متعارف کرایا ہے، جب ہم نے اس کی آواز سنی تو ہمیں معلوم ہوا کہ پاکستان موسیقی کس قدر مالامال ہے۔

فرجاد نبی: میرے خیال میں ہماری انڈسٹری بہت چھوٹی ہے اور فنکاروں پر دباﺅ بھی کم ہے۔ بظاہر یہاں کافی خلاء نظر آتا ہے لیکن ہمارے پاس صلاحیت کی کمی نہیں اور  میرے خیال میں یہی عنصر پاکستانی موسیقی کو ایک انوکھا مقام عطا کرتا ہے۔