’اگر میں گھر سے نہ بھاگتی تو اپنی عزت سے ہاتھ دھو بیٹھتی‘
جب لڑکی گھر سے بھاگتی ہے تو ضروری نہیں کہ وجہ صرف عشق معشوقی ہو، اس کی مختلف وجوہات بھی تو ہو سکتی ہیں، جسے شاید ہمارا سماج سننا پسند ہی نہیں کرتا۔
ہمارے ہاں حلال حرام کی تعلیم، کپڑے پہننے کی تعلیم، ناخن لمبے نہ رکھنے کی تعلیم، سرخ لپ اسٹک نہ لگانے کی تعلیم، سر پر جوڑا نہ بنانے کی تعلیم، ہاف سلیو نہ پہننے کی تعلیم صرف لڑکیوں کو ہی دینے پر زور ہے۔ کیا انہیں محبت سے تعلیم بھی دی ہے کبھی؟
ہم اپنی سماجی زندگی میں تو سنتے ہی آئے ہیں لڑکی گھر سے بھاگ گئی۔ اب سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی یہ جملہ باآسانی پڑھنے کو دستیاب ہے بلکہ اس میں ورائٹی بھی ملے گی۔ جیسے ‘شادی والے روز لڑکی گھر سے بھاگ گئی‘، ’گرلز کالج کے ہوسٹل سے لڑکی بھاگ گئی‘، ’لڑکی اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ بھاگ گئی’، لیکن آپ کو نہ تو حقیقی زندگی میں اور نہ ورچوئل لائف میں سننے یا پڑھنے کو ملے گا کہ ’لڑکا بھی گھر سے بھاگ گیا‘۔لڑکی اکیلے تو نہیں بھاگتی، اس کے ساتھ اس سماج کا کوئی لڑکا یا مرد بھی تو ہوتا ہے، پھر اس کا ذکرِ خیر کیوں نہیں کیا جاتا؟
جوان لڑکی خودکشی کر لے یا لڑکی گھر سے بھاگ جائے دونوں صورتوں میں یہ سننے میں عجیب لگتا ہے۔ حلق کڑوا ہونے لگتا ہے اور چہرے کے تاثرات بدلنے لگتے ہیں۔
لیکن اس سماج میں رہتے ہوئے میری سوچ بھاگی ہوئی لڑکی کے بارے میں اس وقت بدلی جب مجھے 3 سال ایسی لڑکی کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہنے کا موقع ملا جہاں وہ مالک مکان تھی اور میں اس کی کرائے دار۔
بہاولنگر ایک گرم ترین علاقہ ہے جہاں ہماری پوسٹنگ ہوئی۔ لیکن شفٹنگ سے پہلے ہی ایک گرم ترین خبر ہمارے کانوں میں پہنچ چکی تھی کہ جو گھر ہم نے کرائے پر لیا ہے وہاں کی لڑکی گھر سے بھاگ گئی تھی لیکن پھر وہ واپس آگئی البتہ یہ خبر ہمارے لیے پریشان کن تھی۔
سرکاری گھر کے لیے ہمارا نمبر ابھی کافی دُور تھا اور اباجی کے آفس سے گھر نزدیک بھی تھا اور کرایہ بھی مناسب، لہٰذا اللہ کا نام لے کر ہم یہاں آگئے۔
مالک مکان ایک معمر مگر چست خاتون تھیں جو ریٹائرڈ گورنمنٹ ٹیچر تھیں۔ لیکن طلاق یافتہ تھیں اور یہ طلاق بھی انہوں نے خود لی لیکن دوبارہ شادی نہیں کی گویا یہ خبر بھی ہمارے لیے کسی دھماکے سے کم نہ تھی۔
انہوں نے دورانِ ملازمت یہ گھر بنوایا اور طلاق لینے کے بعد بذریعہ عدالت بیٹی کو لینے میں کامیاب ہوگئیں کیونکہ سسرال والے اس بچی کی ذمہ داری اٹھانا نہیں چاہتے تھے اور خاوند کو پروا نہیں تھی۔
اس تفصیل سے آگاہی مالک مکان نے خود دی جنہیں میں آنٹی کہتی تھی اور باتوں باتوں میں اپنی بیٹی کے گھر سے بھاگ جانے کا واقعہ بھی خود ہی بتایا جس پر مجھے شدید حیرت ہوئی۔
لیکن یہ انسانی نفسیات ہے کہ جس سے وہ چڑ جاتا ہے اس سے منسلک چیزوں کو بھی برداشت نہیں کرتا۔ وہ اپنے داماد کو پسند نہیں کرتی تھیں اسی وجہ سے ان کی اپنی بیٹی سے بھی نہیں بنتی تھی اور اکثر ان کے درمیان لڑائی ہوجاتی، جس کے بعد وہ ہمارے گھر آجاتیں۔
لڑائی کی وجوہات بتانے کے ساتھ ساتھ اپنے داماد کے خلاف کھل کر بولتیں کہ کیسے اس نے ان کی بھولی بھالی بیٹی کو ورغلا کر بھگایا مگر معاشی طور پر بدترین حالات دیکھ کر بیٹی اور داماد کو اپنے گھر لے آئیں حالانکہ ان کے خاندان نے اس اقدام کی شدید مذمت کی تھی۔
میں آنٹی کی دریا دلی پر حیران تھی کہ جس بیٹی کی خاطر انہوں نے اپنی ساری زندگی تیاگ دی، شادی نہیں کی، اسی بیٹی نے انہیں دھوکا دے دیا، اور اس کے باوجود آنٹی کا اتنا بڑا ظرف تھا کہ بیٹی داماد کے معاملے میں کسی مخالفت کی پروا نہ کی اور انہیں گھر میں پناہ دی۔ ان کی بیٹی سمرا اب 2 بچوں کی ماں تھی اور آنٹی کی وصیت کے مطابق اس گھر اور جائیداد کی والی وارث بھی۔
میں جب بھی بوجوہ مجبوری ان کے گھر جاتی تو اکثر یہ نوٹ کیا کہ ان کی بیٹی سمرا اکثر کمرے میں اندھیرا کرکے بیٹھی ہوتی۔ وہ ایسا کیوں کرتی سمجھ سے بالاتر تھا۔
ایک دن میں نے اس سے پوچھا تو ہلکے ملگجے اندھیرے میں اس کی کھوئی کھوئی سی آواز ابھری
‘باجی! اندھیرا اچھا لگتا ہے، یہ سب چھپا لیتا ہے۔’
‘کیا مطلب؟’
‘کچھ نہیں’، وہ دھیرے سے مسکرائی، ایسا لگا جیسے وہ نہیں اس کا درد مسکرایا ہو۔ میں نے بھی زیادہ نہیں کریدا۔
ایک رات ان کے گھر خوب لڑائی ہوئی اور آنٹی صبح کے وقت نکل کر اپنی بہنوں کے گھر چلی گئیں جو قریب ہی میں تھا۔
ہمارا پانی ختم ہوگیا تو میں موٹر لگانے کے لیے نیچے گئی تو سمرا سیڑھیوں پر بیٹھی تھی۔ گھٹنوں پر سر رکھے وہ زمین پر لکیریں کھینچتے ہوئے مجھے بھیڑ میں گم کسی بچے کی طرح لگی۔
‘سمرا، سب خیریت ہے، آنٹی کہاں ہیں، رات بہت شور تھا؟’، میں نے جھجھکتے ہوئے پوچھا۔
‘میری اور سلیم کے درمیان لڑائی ہوگئی، بس یونہی چھوٹی چھوٹی باتوں پر اور امی مجھے کہتی ہیں کہ اس سے طلاق لے لے۔ آپ بتائیں کہ میں اس سے طلاق لے کر کیا کروں گی؟’
ہمارے درمیان خاموشی کا طویل وقفہ سا آیا۔
‘آپ کو امی نے بتایا تو ہوگا میرے بارے میں، کہ میں گھر سے بھاگ گئی تھی ایک لڑکے کے ساتھ’، اس نے لاپروا نظروں سے میری طرف دیکھا تو جانے کیوں میں ہچکچا سی گئی۔
‘نن، نہیں، ہاں، بس’، کئی لڑکھڑاتے لفظ میرے منہ سے نکلے۔
‘امی نے یہ تو بتایا کہ میں گھر سے بھاگ گئی، لیکن کیا انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ کیوں بھاگ گئی؟‘
وہ خلا میں گھورتے کسی نادیدہ نقطے پر نظریں جمائے پھر بولتی چلی گئی۔
‘اسکول کی چھٹی کے وقت مجھے خالہ لے کر آتیں یا خالو۔ پھر ایسا ہونے لگا کہ خالو ہی اکثر آنے لگے اور مجھے گھر لانے کے بجائے آئس کریم پارلر لے جاتے یا کبھی سموسہ چاٹ کھلاتے اور میں بھی ان کے ساتھ خوش رہتی۔ پھر میں نے محسوس کیا کہ خالو مجھے اکثر غلط جگہ ہاتھ لگاتے ہیں۔ مجھے لگتا کہ جیسے غلطی سے لگا ہو یا جان بوجھ کر ایسا ہوا، میں سمجھ نہ پائی، جب سمجھ ہی نہ پائی تو بیان کیسے کرتی؟ اپنی اس اضطراری کیفیت میں خالہ کو کہا کہ آپ آیا کریں، لیکن وہ کہنے لگیں کہ ‘تمہیں خالو بائیک پر باآسانی لاسکتے ہیں، میں کدھر بسوں کے دھکے کھاؤں گی۔ پھر 2 بار خالو مجھے سنسان پارک لے گئے۔ پہلی بار جب اس پارک میں لے کر آئے تو گارڈ نے ہمیں اندر نہ آنے دیا۔ دوسری مرتبہ میرے روکنے کے باوجود وہ مجھے دوبارہ اسی سنسان پارک لائے تو گارڈ کے ہاتھ میں کچھ پیسے پکڑائے تو وہ چپ کرکے وہاں سے چل دیا۔ لیکن میں بے چین سی ہوگی۔ خالو مجھے درختوں کے جھنڈ کی طرف لے جانے لگے تو میں نے مزاحمت کی لیکن وہ میرے ساتھ زبردستی پر اتر آئے۔
'میں نے چیخنا چاہا تو میرا منہ بند کردیا اور دوسرے ہاتھ سے میرے جسم کو بُری طرح ٹٹولنے اور نوچنے لگے۔ میری چادر سر سے اتار کر دُور پھینک دی اور پھر ان کے جسم کی بدبودار بُو میرے نتھنوں سے ٹکرائی اور ایک ابکائی کا احساس ہوا۔ ان کی تیز سانسیں میرے چہرے پر پھیلتی جا رہی تھیں کہ ان کا پیر پھسلا اور وہ گر پڑے اور میں ان کی گرفت سے نکل گئی۔ میں نے زمین سے اپنا دوپٹہ اٹھایا اور پیچھے نہ دیکھتے ہوئے بھاگنا شروع کردیا۔میں سڑک کے بیچوں بیچ کتنی دیر گرم سڑک پر بھاگتی رہی، نہیں پتہ! لیکن گھر پہنچ کر اسٹور میں خود کو بند کرکے جب لائٹ آف کی تو لگا جیسے میں محفوظ ہوگئی، تب سے روشنی سے خوف آنے لگا۔
'میں نے یہ واقعہ امی کو بتایا تو انہوں نے الٹا مجھے منہ بند رکھنے کا کہا کہ کہیں ان کی بہن کا گھر خراب نہ ہوجائے لیکن خالو کو گھر آنے سے منع نہیں کیا۔ خالو کا جب دل چاہتا، وہ گھر آجاتا اور میں اسٹور میں اندھیرا کیے بیٹھی رہتی۔ یہ سلسلہ چلتا رہا کہ مجھے سلیم مل گیا۔ یہ ہمارے ہمسائے میں رہتا تھا۔ میں نے اسے ساری بات کی اور پھر ناجانے کیسے منہ سے نکلا کہ مجھ سے شادی کرلو۔ اس نے اپنی والدہ کو رشتے کے لیے بھیجا تو میری والدہ نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ‘یہ تو کمی ذات کے ہیں، بھلا ہمارا تمہارا کیا جوڑ؟
‘پھر میں نے ہی سلیم کو مجبور کیا کہ بھاگ جاتے ہیں، اس کے علاوہ کوئی حل نہیں۔ اس لیے مجھے بھاگ کر شادی کرنی پڑی۔ اگر میں ایسا نہ کرتی تو کچھ عرصے بعد امی میری شادی تو کر دیتیں لیکن شاید اس وقت تک میں اپنی عزت نہ بچا سکتی۔
'شادی کے سال بعد امی مجھے گھر لے آئیں تو اس کی وجہ یہ تھی کہ میرے ماموں اس گھر پر قبضہ کرنا چاہتے تھے، لہٰذا امی نے یہ گھر میرے نام کردیا۔‘
وہ اپنی بات مکمل کرچکی تھی اور میں سوچ رہی تھی کہ اتنا کچھ ہونے کے باوجود سمرا کے نام یہ گھر لکھ کر دینا، اس کی نظیر ہمارے سماج میں کہیں نہیں ملتی۔ شاید ایسا کرکے آنٹی اپنی اس غلطی کا ازالہ کرنا چاہ رہی ہوں۔
اس گھر میں مجھے ڈھائی سال ہوگئے تھے جب آنٹی فوت ہوگئیں اور سمرا اپنے 2 بچوں کے ساتھ اس گھر میں اب ہماری مالک مکان کی حیثیت سے رہنے لگی۔
وہ بی اے میں داخلہ لے چکی ہے اور زندگی میں آگے بڑھنے کا مصمم ارادہ رکھتی ہے۔ 3 سال بعد میرا ٹرانسفر ہوگیا لیکن آج بھی سمرا مجھ سے رابطے میں ہے اور اکثر کہتی ہے کہ آپ سے بات کرکے مجھے خوشی محسوس ہوتی ہے۔
لیکن میں سوچتی ہوں کہ کیا اس سماج کی ہر لڑکی سمرا کی طرح خوش نصیب ہے کہ گھر سے بھاگ کر بھی باعزت زندگی گزار سکے؟ کیا گھر سے بھاگنے کے بعد اسے گھر والے قبول کرتے ہیں؟
کتنی ہی سمرائیں کبھی نہ کبھی تو پلٹتی ہی ہوں گی تو کیا محلے والے ذو معنی اشارے بند کردیتے ہیں؟ ایسا نہیں ہے۔
ہر سمرا کے نصیب میں آنٹی جیسی ماں نہیں آتی اور نہ ہی اس طرح کی لڑکیوں سے لمبی لمبی باتیں کرنے کے لیے ان کے گھر والے کسی سائرہ کو اجازت دیتے ہوں گے۔
اس سماج میں رہتے ہوئے میری سوچ بھاگی ہوئی لڑکی کے بارے میں یکسر بدلی لیکن سماج کو سوچ بدلنے کے لیے ابھی بہت وقت درکار ہے۔ آپ بے شک بھاگی ہوئی لڑکی کے ساتھ اپنے لڑکوں کا ذکر نہ کریں، لیکن ان کے مسائل کو تو سمجھیں۔ لڑکیاں اپنی چار دیواری شوقیہ نہیں پھلانگتی، بہت مجبوری اور گھٹن سے نکلنے کے لیے یہ راستہ تب چنتی ہیں جہاں انہیں آزادی سے سانس لینے کے لیے بھی اجازت لینی پڑتی ہو۔
آپ انہیں وہی عزت اور احترام دیں جو باہر کھڑا ایک اجنبی مرد دیتا ہے تو وہ کبھی اس لکیر کو پار نہیں کریں گی، جسے آپ اپنی غیرت کہتے ہیں۔
سائرہ کا تعلق مانسہرہ سے ہے اور وہ تقریباً 5 سال سے سماجی اور نفسیاتی مسائل سے متعلق لکھ رہی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔