الیگزینڈر برنس: سندھ کے دربار سے رنجیت سنگھ کے دربار تک
الیگزینڈر برنس: سندھ کے دربار سے رنجیت سنگھ کے دربار تک
تحریر: ابوبکر شیخ
کبھی شام کی چائے پیتے ہوئے یا کسی سرسبز باغ کی بینچ پر بیٹھے ہوئے، آپ نے ان بڑے بڑے شہر، جو اپنی وسعت میں پھیلے ہوئے ہیں یا وہ شاندار اور وسیع پُل جو ہمارے رابطے کے لیے بنائے گئے ہیں، یا وہ حیرت میں ڈالنے والا اُڑن کھٹولا، جس کے فضا میں اڑنے سے اب ہمیں کوئی حیرت نہیں ہوتی، ان کو دیکھا ہے؟
یا پھر کبھی آپ نے اس 5 گرام کی چھوٹی سی گولی پر غور کیا ہے، جو آپ کا بڑھتا ہوا بلڈ پریشر کنٹرول کرکے آپ کو موت کی وحشت ناک کھائی میں گرنے سے بچا لیتی ہے۔ وہ شاندار عمارتیں جو صدیوں سے اس شان سے کھڑی ہیں جیسے ابھی بنی ہوں، کیا یہ سب جادو ہے کہ محض ہونٹوں سے کچھ طلسمی الفاظ ادا کیے، پھونک ماری اور یہ سب بن گیا؟ ایسا نہ کبھی ہوا ہے نہ ہوگا۔
یہ سب ان مشکل اور کٹھن وقتوں کا پھل ہیں جو ہمارے اجداد نے دیکھے تھے اور جن کے وجود، چمکتی آنکھیں اور الفاظ تاریخ کے صفحات میں قندیلوں جیسے جلتے ہیں کہ ہم سب اپنی جڑوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں۔
20 جولائی1831ء بدھ کا دن تھا، گرم دن کی ابھی ابتدا ہی تھی اور لاہور کے شاہی قلعے میں عام دنوں کی نسبت آج چہل پہل اور گرم جوشی کچھ زیادہ تھی۔ آج راجا رنجیت سنگھ کے دربار میں کمپنی بہادر کا ایک گورا ’الیگزینڈر برنس‘ برطانیہ کے بادشاہ کی جانب سے تحفے لے کر آنے والا تھا۔ وہ 21 جنوری 1831ء کے شدید ٹھنڈے دنوں میں کَچھ (Kutch) سے نکلا تھا اور دریائے سندھ کے بہاؤ پر ایک ہزار میل کا سفر کرتا ہوا 18 جولائی کو لاہور پہنچا تھا اور تھکان اتارنے کے بعد آج راجا کو اس کے دربار میں تحفے اور خصوصی خط پیش کرنے والا تھا۔
دربار کا تفصیلی احوال اگر ہم برنس کی زبانی سنیں تو مناسب ہوگا۔ وہ کہتا ہے کہ ’ہم ایک بگھی کے پیچھے ہاتھیوں پر سوار تھے۔ میں جس شاندار ہاتھی کی پالکی پر سوار تھا وہ سب سے آگے تھی۔ ہم قلعے کی دیواروں کے ساتھ ایک جلوس کی شکل میں آگے بڑھ رہے تھے۔ شہر کی گلیاں پیدل فوج، گھڑ سوار دستوں اور توپ خانے کے فوجیوں سے ایک ترتیب کے ساتھ سجی ہوئی تھیں۔ لوگوں کی ایک بھیڑ اکٹھی تھی اور لوگ اپنے گھروں کے چوباروں سے ہمیں بڑے غور سے دیکھ رہے تھے۔ ایک میلے کا سماں تھا۔ ہم دربار کے پہلے حصے میں پہنچے تو دھجاں سنگھ نے ہمیں بڑے جوش سے خوش آمدید کہا۔ میں جیسے دربار کے مرکزی دروازے پر پہنچا اور جھک کر اپنے بوٹ کے تسمے کھولنے لگا تب مجھے کسی کے بازو اور پھر گلے ملنے کا احساس ہوا۔ میں نے جب دیکھا تو وہ ڈھلتی عمر کا بوڑھا اور کمزور شخص مہاراجہ رنجیت سنگھ تھا۔ اس کے 2 بیٹے بھی اس کے ساتھ تھے۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور اپنے ساتھ لے کر دربار میں پہنچا۔ ہمارا شاندار استقبال کیا گیا۔ ہمیں چاندی کی کرسیوں پر بٹھایا گیا اور گریٹ برٹن کے بادشاہ کی خیریت پوچھی گئی۔
’کچھ دیر کے بعد میں نے ہز ہائی نیس کو بتایا کہ انگلینڈ کے بادشاہ کی طرف سے آپ کے لیے بھیجے گئے 5 گھوڑے میں سلامتی کے ساتھ لے کر لاہور پہنچا ہوں۔ ساتھ میں بادشاہ سلامت کے وزیر برائے امورِ ہند کی طرف سے خط بھی ہے جو سونے اور کپڑے کے ملے دھاگوں سے بنی تھیلی میں بند اور انگلینڈ کی فوجی مہر سے سیل کیا ہوا ہے۔ میرے اتنا کہنے سے مہاراجہ، اس کے درباری اور ہم خود بھی احترام میں کھڑے ہوگئے۔ ہز ہائی نس نے خود وہ خط مجھ سے لیا اور مہر کو اپنے ماتھے سے لگا کر احترام کا اظہار کیا۔‘
دوسرے دن یعنی 21 جولائی کو خط کا ترجمہ دربار میں پڑھا گیا اور خط جب آدھا پڑھ لیا گیا تو مہاراجہ نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ اس خط کے یہاں پہنچنے پر سلامی دی جائے کہ لاہور کے باسیوں کو بادشاہ کے خوش ہونے کا اندازہ ہو۔ یہ کیفیت لوگوں تک پہنچانے کے لیے 60 توپوں (ایک توپ سے 21 گولے چھوڑے گئے) کی سلامی دی گئی۔
برنس پر تحفوں کی بارش ہو رہی تھی۔ وہ رنجیت سنگھ سے متعلق لکھتے ہیں کہ ’رنجیت سنگھ کی ایک آنکھ چیچک کی وجہ سے ضائع ہوگئی ہے۔ وہ 5 فٹ 3 انچ کا انتہائی سادگی پسند انسان ہے۔ اس کا لباس بالکل سادہ اور کم قیمت والا ہے مگر اس کے دربار کی شان اعلیٰ ہے۔ اس کے اشارے کے سوا کسی کی ہمت نہیں کہ وہ بات کرسکے۔ جبکہ اس کے دربار میں لوگ کسی بازار کی طرح بے تحاشا ہوتے تھے۔ یہ ہندوستان کے بادشاہوں کا پہلا ایسا دربار تھا جس میں شاندار قسم کا نظم و ضبط میں نے دیکھا‘۔
رنجیت سنگھ کے اس شاندار دربار تک پہنچنے کے لیے الیگزینڈر برنس نے بڑے پاپڑ بیلے تھے اور اسے وہ پاپڑ بیلنے ہی تھے کہ وہ برٹش سرکار کا ایک وفادار ملازم تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سورج اور زمین کا فاصلہ معلوم کرنے کے لیے بھیجے گئے ’لندن رائل سوسائٹی‘ کے معروف فلکیات دان ’چارلس گرین‘ اور اس کے ساتھ 8 اور سائنسدان فلکیاتی مشاہدے کے لیے بحرالکاہل کے جزائر، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کا کامیاب دورہ کرکے 1771ء میں واپس لوٹ چکے تھے۔
اس سفر میں، کپتان جوزف کوک نے ملاحوں کو سمندر میں ہونے والی پُراسرار خطرناک بیماری ’اسکروی‘ کا علاج ڈھونڈ لیا تھا جس کی وجہ سے 16ویں سے 18ویں صدی تک 20 لاکھ کے قریب ملاح ہلاک ہوئے تھے۔ اسکروی کے مؤثر علاج نے دنیا بھر کے سمندروں پر برطانوی بحریہ کے لیے حکمرانی کے راستے کھول دیے تھے اور وہ راستے اتنے وسیع ہوئے کہ یہ بحیرہ عرب تک آ پہنچے۔ انہی راستوں پر چلتے ہوئے 1830ء میں ایک جہاز بمبئی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا جس میں برطانیہ کے بادشاہ کی طرف سے پنجاب کے راجہ رنجیت سنگھ کے لیے تحفے کے طور پر 5 گھوڑے اور ایک دوستی کا خط شامل تھا۔
یہ دراصل اس کہانی کی نئی ابتدا تھی جو برٹش حکومت نے الیگزینڈر برنس کے ہاتھوں اسی سال کی ابتدا میں تحریر کرنے کی کوشش کی تھی مگر سندھ کے امیروں کی ناراضگی کی وجہ سے اس مہم کو وہیں روک دیا گیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کسی انگریز سفارتکار کو حیدرآباد سے آگے جانے کی اجازت نہیں تھی۔ مگر اب وہ وجہ موجود تھی، اور یہ تحفے الیگزینڈر برنس کو لاہور لے جانے تھے۔
سفر سے پہلے بمبئی کے چیف سیکرٹری کا ایک خفیہ خط برنس کو ملا جس میں ہدایات دی گئی تھیں کہ ’اس سفر میں اہم کام یہ بھی ہے کہ دریائے سندھ کی تفصیلی ٹیکنیکل رپورٹ تیار کی جائے کہ دریائے سندھ میں کہاں کہاں کتنا پانی ہے، دریا کی چوڑائی کتنی ہے، جہاز رانی کے لیے لکڑی حاصل کرنے کے لیے کناروں پر کتنے جنگلات ہیں، سمندری کنارے کے ساتھ فصلوں سے آباد ہونے والی زمینیں کن لوگوں کی ہیں اور کن کن ذات قبیلوں کے لوگ آباد ہیں اور یہ کہ حکمرانوں کی معاشی اور سیاسی صورتحال کیا ہے‘۔ اس سفر میں برنس کے ساتھ ڈی جے لیکی بھی شامل تھا، ساتھ میں ایک ڈاکٹر، سرویئر، دوسرا عملہ اور نوکروں کی ایک ٹیم بھی شامل تھی۔
برنس اور اس کی کشتیوں کا قافلہ 21 جنوری 1831ء کو صبح سویرے کَچھ کے ’مانڈوی‘ بندر سے نکلا۔ 24 جنوری کو کَچھ کی خلیج پار کرکے سندھ اور کَچھ کی سرحد پر ’کوری ندی‘ کے کنارے پہنچ کر وہ اس بہاؤ کے خشک ہونے کا ذکر کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ ایک زمانے میں اس میں دریائے سندھ کا میٹھا پانی آتا تھا اور لکھپت تک جاتا تھا مگر اب یہ خشک ہوگئی ہے۔ اس کے بعد وہ لکھتا ہے کہ ’5 دن تک ہم نے سندھ کے سمندری کنارے پر سفر کیا اور پھر دریائے سندھ کی مغربی خلیج ’پھٹی‘ پہنچے۔ اس سفر میں ہمیں دریائے سندھ کے 11 بہاؤ ملے جو سمندر میں گرتے تھے۔ ہم سمندر سے دُور کھاڑی میں ’دھوراجی‘ کے قریب لنگر انداز ہوئے‘۔
دوسرے دن سندھ کے امیروں کے ایک سمندری جتھے نے ان کو یہاں سے چلے جانے اور دُور سمندر میں جاکر ٹھہرنے کا کہا۔ برنس کی ٹیم نے حکم کی بجا آوری کی مگر کچھ دنوں تک کوئی جواب نہ ملنے کی صورت میں وہ واپس لوٹے اور انتہائی مشرقی بہاؤ کے قریب آکر ٹھہرے۔ وہاں سے ’پاٹنجر‘ سے صلاح و مشورہ کیا۔ یہاں ان کو میروں (سندھ کے امیروں) کا ایک خط موصول ہوا جس کے بعد وہ پھر 10 فروری کو سندھ کے لیے نکل پڑے اور دھوراجی سے پہلے پٹیانی بہاؤ کے قریب رکے۔ یہاں سے انہوں نے دھوراجی کے عملے کو خط لکھا جس کا کوئی جواب نہیں آیا البتہ ان کو ہدایات موصول ہوئیں کہ وہ نہ کشتی سے نیچے اتر سکتے ہیں، نہ کسی سے خوراک حاصل کرسکتے ہیں اور نہ ہی دریائے سندھ کا پانی استعمال کرسکتے ہیں بلکہ حال یہ تھا کہ الیگزینڈر کی ٹیم نے جو کشتی پانی لینے کے لیے دھوراجی بھیجی تھی اس کو وہاں کے عملے نے ضبط کرلیا اور سواروں کو گرفتار کرلیا۔
حالات بہت اچھے نہیں تھے اس لیے یہ کشتیوں کا قافلہ 22 فروری کو واپس کَچھ روانہ ہوا اور مانڈوی پہنچا۔ برنس کو سندھ اور دریائے سندھ دیکھنے کی جتنی چاہ تھی اس میں اتنا ہی مزید اضافہ ہوگیا تھا۔ تاہم قسمت اس حوالے سے برنس کا بالکل بھی ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ Henry Pottinger جو 20 برس پہلے سندھ اور بلوچستان جا چکا تھا اس کے روابط سندھ کے امیروں سے تھے۔ اس نے برنس کے لیے خط و کتابت کی اور اس کے سفر کو ممکنات کی حدود تک لے آیا۔ تالپوروں نے آخرکار خط میں لکھا کہ ’سندھ میں خشکی کے راستے پر سفر کی اجازت دی جاتی ہے‘۔
ان دنوں عالمی منظرنامہ کچھ اس طرح سے تھا کہ چین افیون پر پابندی لگا چکا تھا، برطانیہ آزاد تجارت کے نام پر چین سے جو جنگ کرنے والا تھا اس میں ابھی 10 برس باقی تھے۔ ہراری لکھتے ہیں کہ ’سرمایہ کاروں کے مفادات میں فقط یہ جنگ نہیں لگنے والی تھی بلکہ افیون کی مانند جنگ خود ایک حقیقت بن گئی۔ 1821ء میں یونانیوں نے سلطنت عثمانیہ سے بغاوت کردی، اس بغاوت کو آزاد خیال اور رومان پرست برطانوی حلقوں میں بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ برطانوی شاعر لارڈ بائرن، یونان جاکر باغیوں کے ساتھ جنگ میں شریک ہوا۔ تاہم لندن کے سرمایہ کاروں کو بھی ایک موقع نظر آیا۔ انہوں نے باغی رہنماؤں کو پیش کش کی کہ قابل تجارت ’بغاوت بانڈ‘ لندن کے حصص بازار سے جاری کریں۔ اگر باغی یہ جنگ جیت جاتے ہیں تو یہ بانڈ رقم کی بمع سود واپسی کا وعدہ کرتے۔ نجی سرمایہ کار کچھ نفع کی ہوس میں، کچھ یونانیوں سے ہمدردی میں اور کچھ دونوں وجوہات سے بانڈ خریدتے۔ اس بانڈ کی قیمت لندن کے حصص بازاروں میں ہیلاس کے جنگی میدانوں میں ہار جیت کے ساتھ اترتی اور چڑھتی رہی۔
’آخر ترکوں نے برتری حاصل کرلی۔ باغیوں کی شکست یقینی ہوئی تو بانڈ کے خریداروں کو اپنی رقم ڈوبنے کا اندیشہ ہوا۔ خریداروں کا مفاد قومی مفاد تھا لہٰذا برطانیہ نے ایک بین الاقوامی بیڑہ تیار کیا اور 1827ء میں جنگ ناوارینو میں، عثمانیوں کا اہم بیڑہ ڈبو دیا۔ اس جنگ کے بعد سرمایہ دار خود کو محفوظ سمجھنے لگے کہ اگر، بیرون ملک کوئی قرضہ واپس کرنے سے انکار کرے تو ملکہ کی فوج رقم کی واپسی کو یقینی بنادیتی ہے۔ چنانچہ سرمایہ کار اپنی رقم زیادہ خطرناک غیر ملکی معاہدوں پر لگانے کے لیے تیار ہوگئے۔ یہ حقیقت بھی ذہن میں رہے تو بہتر ہے کہ برِصغیر کو برطانوی ریاست نے فتح نہیں کیا بلکہ برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی کی کرائے کی فوج نے ہندوستانی سلطنت پر تقریباً ایک صدی تک حکومت کی جس میں ساڑھے 3 لاکھ سپاہیوں کی فوج استعمال ہوئی جو برطانوی بادشاہت کی فوج سے بھی بڑی تھی۔ 1858ء میں تاجِ برطانیہ نے ہندوستان اور کمپنی کی نجی فوج کو قومیا لیا تھا۔‘
جب برنس تیسری بار 10 مارچ 1831ء کو سندھ کی طرف روانہ ہوا تو ایسٹ انڈیا کمپنی کا ملازم تھا اور اسے برطانوی بادشاہت کا حصہ بننے میں ابھی 27 برس رہتے تھے۔ جبکہ برنس کی زندگی اب فقط 10 برس باقی تھی لہٰذا وہ یہ شاندار خبر یقیناً نہیں سن سکا ہوگا۔
یہ قافلہ 16 مارچ کو حجامڑو کریک پہنچا۔ وہاں سے سامان تو کشتیوں پر ٹھٹہ روانہ کردیا گیا مگر برنس کو خشکی کے راستے ٹھٹہ جانے کے احکامات ملے۔ وہ ٹھٹہ میں کچھ دن رہا۔ ٹھٹہ سے متعلق وہ لکھتا ہے کہ ’یہ شہر مغلوں کے بعد برباد ہوگیا ہے۔ اس وقت اس کی آبادی 15 ہزار سے زیادہ نہیں ہے۔ پیسوں کی لین دین کرنے والے 15، 20 کے قریب لوگ بچے ہیں۔ شہر کی آبادی کو گوشت کی فراہمی کے لیے قصائیوں کی 5 دکانیں ہیں۔ میں نے یہاں بہت سارے کنویں بھی دیکھے جو 20 فٹ تک گہرے تھے اور ان کی دیواروں کو اینٹوں سے چُنا گیا تھا‘۔
برنس کچھ دن ٹھٹہ میں رہا، اور اس دوران اس نے میروں سے خط و کتابت کی اور آخرکار اسے وہ اجازت مل گئی جس کی تمنا کی بیل ایسٹ انڈیا کمپنی کے اس بیوپاری کے دماغ میں اُگی تھی۔ وہ گھومتا گھامتا دریائے سندھ میں مٹکوں پر ہوتا ہوا پلہ مچھلی کا شکار دیکھتا، بہاؤ کی سائنسی بنیادوں پر جانچ پرکھ کرتا، نقشے اور ڈیٹا اکٹھا کرتا اپریل کی ابتدا میں حیدر آباد پہنچا۔ میر مراد نے 4 آدمیوں کا وفد بھیج کر اسے یہاں پہنچنے کی مبارکباد بھیجی۔ شام کو وزیرِاعظم نواب ولی محمد خان لغاری کے گھر ان کی دعوت کی گئی اور اگلے دن شام کو سندھ کے امیروں کے دربار میں برنس اور اس کے ساتھیوں کی حاضری تھی۔
وہ حیدرآباد کے سادہ سے دربار میں پہنچا اور سفارتکاری اصولوں پر عمل کرتے ہوئے دونوں نے ایک دوسرے سے تحائف کا تبادلہ کیا۔ امیروں کے دل میں ان مہمانوں کے لیے محبت اور احترام کی کوئی چنگاری نہیں پھوٹی۔ شاید وہ جانتے تھے کہ، گوروں کا یہ سفر ان کے لیے کوئی اچھا شگون نہیں ہے کہ کَچھ کی طرف ان کا راج ہے، پنجاب کی طرف رنجیت سنگھ ان کا ہمدرد ہے اور وہاں سے دلی دُور نہیں۔ فقط ایک دریائے سندھ کا سمندر کی طرف سے راستہ بچتا تھا ان پر بھی گوروں نے آنکھیں گاڑ لی ہیں اور یہ کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔
سب سے زیادہ جو بات سندھ کے امیروں کو کھٹکتی اور ان کو نفسیاتی طور پر کمزور کرتی تھی وہ ان کا آپس میں نفاق تھا۔ سندھ کے حیدرآباد والے امیروں کی یہ بے رخی بالکل بھی بے وجہ نہیں تھی۔ مگر کبھی کبھار سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ہاتھ میں کچھ نہیں ہوتا اور کبھی تاج اور تخت کے سوا بھی بادشاہت آپ کی چوکھٹ کی غلام ہوتی ہے۔ یہ شب و روز، وقت کی غلام گردش کے مہرے ہیں، ناجانے کب کس وقت پلٹا کھا جائیں کیا معلوم۔
برنس کو حیدرآباد بہت اچھا لگا۔ وہ اس کی آبادی 20 ہزار کے قریب بتاتا ہے۔ وہ تحریر کرتا ہے کہ ’سندھ کے دارالسلطنت کے قرب و جوار کا منظرنامہ انتہائی خوبصورت ہے۔ دریائے سندھ کے کناروں پر لمبے اور گھنے درختوں کی قطاریں ہیں اور پس منظر میں پہاڑیاں ہیں۔ اس جگہ پر دریائے سندھ کے بہاؤ کی چوڑائی 830 گز کے قریب ہے‘۔
برنس 13 اپریل کو بکھر کے سفر کے لیے روانہ ہوا۔ اس سفر میں برنس نے وہی کیا جو ایک کمپنی کے سچے ملازم کو کرنا چاہیے۔ وہ لکھتا ہے کہ ’سندھ کے امیر کی بڑی کشتی جس کو سندھی میں ’جھمٹی‘ کہتے ہیں بہت شاندار اور آرامدہ کشتی ہے۔ اس کی لمبائی 60 فٹ ہے اور اس پر کئی سفید اور سرخ کپڑے کے بادبان تھے۔ یہ دھاری دار بادبان انتہائی شاندار لگتے تھے۔ کشتی کے اندر 2 آرامدہ کمرے بنے ہوئے ہیں، کشتی خوبصورت نظر آئے اس کے لیے رنگین جھنڈیاں لگی ہوئی تھیں۔ ہم نے اس کشتی پر برطانیہ سرکار کا جھنڈا لہرایا۔ میرے خیال میں، یہ پہلی بار تھا کہ دریائے سندھ کے پانی پر انگریز سرکار کا جھنڈا لہرا رہا تھا‘۔
مجھے نہیں معلوم کہ وہ جھنڈا کتنی دیر تک دریائے سندھ کے مٹیالے پانی اور نیلے آسمان کی وسعتوں میں لہرا رہا تھا۔ مگر یہ کشتی جب 100 میل کا سفر کرکے سیہون پہنچی تو مئی کی شروعات ہونے والی تھی۔ سیہون شہر اور اس کے قلعے سے متعلق وہ مفصل انداز میں بیان کرتے ہیں۔ برنس کا قافلہ جیسے سیہون سے نکلتا ہے اور خیرپور کے نزدیک پہنچتا ہے تو سیاسی منظرنامہ انتہائی تیزی کے ساتھ تبدیل ہونے لگتا ہے۔ جتنی بے بسی، سختی اور بے رخی سے حیدرآباد کے امیر پیش آئے تھے یہاں اس کے بالکل برعکس ہوا۔
برنس جیسے ہی خیرپور کے نزدیک پہنچا تو میروں کی آپسی رنجشیں بھی ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ خیرپور سے 8 میل پہلے خیرپور کے حاکم میر رستم کے خاص سردار محمد گوہر بلوچ اور اس کے ساتھی برنس کے پاس پہنچتے ہیں۔ وہ برنس کو یہاں خیریت سے پہنچنے پر مبارکبادیں دیتے ہیں اور برطانوی سرکار کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کرتے ہیں۔ جب تک یہ قافلہ بکھر پہنچتا ہے تب تک انہیں روزانہ کی بنیاد پر خوراک کے لیے بھیڑیں، مکھن، گھی، آٹا، میوہ جات، مصالحے، چینی، تمباکو اور افیم ملتا رہتا تھا، جن سے برنس کے ساتھ آئے لوگ خوب دعوتیں اڑاتے تھے۔ برنس بکھر کے قلعے کے محل وقوع اور خوبصورتی کی بڑی تعریف کرتا ہے اور ساتھ میں سندھ کے لوگوں کی توہمات پر طنز بھی کرتا ہے۔ تاہم جب وہ لوگوں کی یہ باتیں سنتا ہے کہ ان کو خواب میں اشارہ ہوا کہ آنے والے وقت میں گوری سرکار کا راج ہوگا تو ان لایعنی باتوں کو ماننے کے ساتھ ساتھ خوش بھی ہوتا ہے۔
21 مئی کو وہ بکھر سے روانہ ہوا۔ وہ لکھتا ہے کہ ’بکھر میں ہمیں خیرپور کے میروں کی طرف سے جو کشتیاں ملیں ان کو ’زروک‘ کہتے ہیں، ان کی لمبائی 80 فٹ اور چوڑائی 20 فٹ کے قریب ہے۔ یہ کشتیاں جنوبی سندھ میں استعمال نہیں ہوتیں۔ ہم جہاں آبادیوں کے قریب سے گزرتے وہاں لوگ ہمیں جوق در جوق دیکھنے آتے۔ جہاں دریا کنارے ہماری منزل ہوتی تو لوگ ہم سے کشتیوں سے باہر آنے کی گزارش کرتے تاکہ وہ جی بھر کر دیکھ سکیں کہ ہم یورپی کیسے ہوتے ہیں۔ بکھر سے نکلنے کے تیسرے دن ہمیں کچھی گنداوہ کے پہاڑ نظر آئے جو دریائے سندھ کے دائیں طرف سیکڑوں میل دُور تھے۔ آگے سفر کرتے ہوئے ہم 26 مئی کو سبزل کوٹ سے 30 میل شمال میں لنگر انداز ہوئے۔ یہ مقام داؤد پوتوں کے ’خان‘ اور سندھ کے امیروں کی زیر قبضہ زمین کی آخری حدود پر واقع چھوٹا سا شہر ہے۔ یہاں خیرپور کے میر مراد کے فرزند میر صوبدار نے ہماری شاندار الوداعی دعوت کا اہتمام کیا۔ 30 مئی کو 18 کشتیوں پر مشتمل ہمارا قافلہ آگے روانہ ہوا۔ ہم نے مٹھن کوٹ کے مقام پر سندھو کو الوداع کہا۔ یہاں پنجاب کے دوسرے دریاؤں کا پانی دریائے سندھ کے بہاؤ سے مل رہا تھا۔ ہم نے اپنی کشتیاں چناب کے بہاؤ میں شامل کیں‘۔
اس کے بعد برنس ’اُوچ‘ پہنچا جس کی اس وقت آبادی وہ 20 ہزار بتاتا ہے اور وہاں گرمی اور چھپروں سے ڈھکے بازار کا ذکر کرتا ہے۔ اس نے بہاول خان (سوئم) کی اس شاندار دعوت کا بھی تذکرہ کیا ہے جو اس نے اپنی ریاست بہاولپور میں قافلے کے لیے کی تھی۔ وہ لکھتا ہے کہ ’ہم نے 3 جون کو بہاول خان سے ملاقات کی، ہم اس کے 600 فوجیوں کی قطار میں سے گزرے جو وردیوں میں ملبوس تھے۔ 80 بندوقوں کی سلامی کے بعد ہم دربار میں داخل ہوئے۔ وہاں بہاول خان کو دیکھا جو 30 برس کا نوجوان تھا اور برطانوی سرکار کو پسند کرتا تھا‘۔
برنس تقریباً ایک ہفتے تک اُوچ شریف میں رہا۔ 7 جون کو ستلج بہاؤ کا دہانہ پار کرکے وہ چناب میں سفر کرتے رہے۔ 8 جون کو بہاولپور ریاست کی آخری سرحد آئی تو ان کے ساتھ بہاولپور کے آئے ہوئے غلام قادر خان نے انہیں الوداع کہا اور واپس لوٹ گیا۔ قافلے نے کچھ گھنٹے کا سفر کیا ہوگا کہ سکھ حکومت کی پہلی چوکی آئی اور لاہور سے بھیجے گئے لہنا سنگھ نے ان کا دل سے استقبال کیا۔ برنس اس خط کے بارے میں بھی لکھتا ہے جو لاہور سے راجہ رنجیت سنگھ نے برنس کو خاص پروٹوکول دینے کے لیے بھیجا تھا۔ وہ خط بہت سی ہدایات سے بھرا ہوا تھا۔
یہ قافلہ شجاع آباد سے ہوتا ہوا ملتان پہنچا۔ برنس ملتان کے گزرے دنوں اور حالات کا بڑی تفصیل سے ذکر کرتا ہے۔ ملتان کے بعد جتنا شاندار اور یادگار سفر الیگزینڈر برنس کا گزرا اتنا تو شاید الیگزینڈر دی گریٹ کا بھی نہیں گزرا ہوگا۔ برنس لکھتا ہے کہ ’اب ہمارا یہ قافلہ 2 حصوں میں رواں دواں تھا۔ ایک کشتیوں پر نہر میں اور دوسرا کنارے پر۔ خشکی پر چلنے والے لوگ اکثر نزدیک بوئی ہوئی فصل کو برباد کردیتے تھے مگر بچارے غریب لوگ کر کیا سکتے تھے۔ لیکن ہمارے ساتھ جو حکومتی عملہ تھا، وہ یقین دلا رہا تھا کہ ان فصلوں کے نقصان کی بھرپائی کردی جائے گی'۔
24 جون کو اس قافلے نے چناب کو چھوڑ کر اپنی کشتیوں کو راوی کے بہاؤ میں منتقل کیا۔ اس بہاؤ کے جنوب مشرق میں وہ ہڑپہ کے قدیم آثاروں کو بھی بڑے شوق سے پیدل چل کر دیکھنے گئے۔ قافلہ رواں تھا، وہ لکھتا ہے کہ ’15 جولائی کو ہم لاہور سے 25 میل مغرب جنوب میں چھانگا پہنچے۔ اسی جگہ سے ہم ہاتھیوں پر سوار ہوئے، اس قافلے کا مہندار نورالدین فقیر تھا جو سکھوں کے دربار کا ایک اہم رکن تھا۔ 17 جولائی کو ہمیں لاہور کی جامع مسجد کے مینار نظر آئے'۔
اس سفرنامے کے آخر میں برنس نے وہ خط بھی ایک اعزاز کے طور پر شامل کیا ہے جو اسے دسمبر کے مہینے میں ’پولٹیکل ڈپارٹمنٹ دہلی‘ سے تحریر کیا گیا تھا۔ جس میں اس کے دریائے سندھ سے لاہور تک کے سفر، اس سے متعلق معلومات اور مرتب کردہ نقشوں اور پیش کردہ تجاویز پر مبارکباد دی گئی تھی اور اس کے لیے اعزازات اور ترقی دینے کا ذکر بھی کیا گیا تھا۔
ہم اس وقت الیگزینڈر برنس سے جدا ہو رہے ہیں کہ راجہ رنجیت سنگھ کے دربار میں اسے کچھ وقت رہنا ہے۔ یہاں سے وہ شاید کشمیر کی طرف جائیں گے۔ ہمارا برنس کے ساتھ یہ پہلا سفر ضرور تھا مگر آخری نہیں۔ ہمیں الیگزینڈر برنس صاحب کے ساتھ ایک اور سفر کرنا ہے۔ ہم 1835ء میں دوبارہ اس سے سندھ میں ملیں گے جب وہ یہاں ’دریائے سندھ نیویگیشن‘ کے لیے معاہدہ کرنے آئے گا۔ بعدازاں ہم ان کے ساتھ افغانستان نکل پڑیں گے۔
یہ سفر جو بظاہر رنجیت سنگھ تک برطانیہ کے بادشاہ کے گھوڑے پہنچانے کا سفر تھا وہ دراصل دریائے سندھ میں کشتی رانی سے متعلق ایک بنیادی سروے تھا جس کو برنس نے انتہائی ذہانت کے ساتھ مکمل کیا۔ اس سروے کے بعد 1835ء میں ’انڈس‘ نام کا ایک بڑا جہاز دریائے سندھ میں حیدرآباد اور کراچی کے درمیان چلایا گیا۔ اس کے 7 برس بعد انگریزوں نے 1843ء میں لڑ جھگڑ کر سندھ پر اپنی حکومت قائم کی۔ اس سفرنامے میں سندھ کی اس زرخیزی سے متعلق بھی تذکرہ موجود ہے جس کا اظہار ایک نشست میں راجہ رنجیت سنگھ بھی برنس سے کرتے ہیں۔ اسی طرح 1859ء میں برطانیہ سرکار نے دریائے سندھ میں سامان اٹھانے کے لیے ’انڈس اسٹیم فلوٹیلا‘ کی سروس شروع کی اور وقت کے ساتھ وہ اس سروس میں وسعت لاتے رہے۔
اس سفر کے اختتام پر سوچنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ ان دنوں کے سیاسی منظرنامے کو اگر آپ تھوڑا گہرائی سے دیکھیں تو ہمیں اندازہ ہوجاتا ہے کہ سندھ کے امیر ان گورے بیوپاریوں کو آخر کب تک روک سکتے تھے؟ کیونکہ سندھ کے چاروں طرف ایک ادھم مچا ہوا تھا۔ سرمایہ داری نے جنگوں کا روپ لے لیا تھا اور گوری سرکار کو خام مال کے لیے یہ سب کچھ کرنا تھا۔ ساتھ ہی انہوں نے کچھ غلطیوں کے ساتھ ساتھ یہاں کی ترقی کے لیے جو کچھ بن پڑا وہ کیا۔ ریل کی پٹریاں جو چھوٹے چھوٹے شہروں کے دروازوں تک دوڑتی چلی گئیں وہ کبھی نہ ہوتیں، آبپاشی اور راستوں کے لیے نئی راہیں کبھی نہ کُھلتیں۔ اب یہ ایک الگ المیہ ہے کہ جب گورے یہاں سے چلے گئے تو ہم ان کی مثبت ترقی کو وسعت دینا تو دُور کی بات ہے سنبھال بھی نہ سکے، شاید اس لیے کہ ہم سوچتے تو ضرور ہیں مگر سیکھتے بہت ہی کم ہیں۔
حوالہ جات:
۔ ’نگری نگری پھرا مُسافر‘ ۔ ابوبکر شیخ۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور
A Voyage on the Indus. Being the third volume of Travels Of Bokhara. By: Sir Alexander Burnes. Oxford University Press, Karachi. 1973.
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔
ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔