سپریم کورٹ کا پنجاب کے بلدیاتی ادارے بحال کرنے کا حکم
سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی صوبائی حکومت کے بلدیاتی ایکٹ کے سیکشن 3 کو آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے پنجاب کے بلدیاتی ادارے بحال کرنے کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے بلدیاتی انتحابات سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب حکومت بلدیاتی انتحابات کرانے کے لیے تیار ہے، پنجاب حکومت چاہتی ہے کہ اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کیا جائے تاہم معاملہ ابھی مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) میں زیر التوا ہے۔
مزید پڑھیں: پنجاب حکومت کا بلدیاتی آرڈیننس سپریم کورٹ پر حملہ ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
چیف جسٹس نے استفسار کیا باقی صوبوں میں بلدیاتی انتحاب کب ہو رہے ہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ باقی صوبوں کو مردم شماری پر اعتراضات ہیں، جس کے لیے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس 24 مارچ کو شیڈول تھا مگر وزیر اعظم کو کورونا ہونے کی وجہ سے اجلاس 7 اپریل کو ہوگا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل کا بیان ریکارڈ کر لیتے ہیں، صوبے مئی میں بلدیاتی انتحاب کروا دیں جس پر اٹارنی جنرل نے کہا یہ صرف وفاق نہیں صوبوں کا بھی معاملہ ہے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا پنجاب کی بلدیاتی حکومتوں کو کیوں ختم کردیا گیا، اس موقع پر درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب میں بلدیاتی حکومتوں کی میعاد دسمبر 2021 تک تھی۔
درخواست گزار کے وکیل نے نے کہا کہ 2018 کے عام انتحابات کے بعد پنجاب اور وفاق میں نئی حکومت آئی جس نے بلدیاتی حکومتیں تحلیل کر کے ایک سال میں الیکشن کرانے کا وقت دیا تاہم ایک سال کی مدت گزرنے کے بعد پنجاب حکومت نے نئی ترمیم کی اور پھر آرڈیننس جاری کیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کے سامنے پنجاب کا 2019 کا بلدیاتی قانون چیلنج کیا گیا ہے، کیا درخواست گزار چاہتا ہے قانون کے سیکشن 3 کو کالعدم کردیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: الیکشن کمیشن کی بلدیاتی انتخابات 3مراحل میں کرانے کی تجویز
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اس بات کی کیسے وضاحت دے سکتے ہیں کہ عوام کو منتحب نمائندوں سے دور رکھا جائے، آرٹیکل 140 کے تحت قانون بنا سکتے ہیں لیکن ادارے کو ختم نہیں کر سکتے، آپ کو کسی نے غلط مشورہ دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی ایک حیثیت ہوتی ہے چاہیے وہ وفاقی، صوبائی یا بلدیاتی ہو، اختیار میں تبدیلی کر سکتے ہیں اور بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔
چیف جسٹس نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ وجہ بتائیں کہ بلدیاتی حکومت کس قانون کے تحت کیوں ختم کی گئی اور بلدیاتی ادارے اب تک بحال کیوں نہیں ہوئے، جس پر حکومت پنجاب کے وکیل قاسم چوہان نے کہا کہ بلدیاتی الیکشن نہ ہونے کی وجہ کورونا بھی ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ وفاقی، صوبائی اور بلدیاتی حکومتوں کو محدود مدت کے لیے ختم کیا جاسکتا ہے لیکن آپ نے عوام کو ان کے نمائندوں سے محروم کر دیا ہے، کیا گلگت بلتستان میں انتخابات نہیں ہوئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عوام نے بلدیاتی نمائندوں کو 5 سال کے لیے منتخب کیا اور آپ کو ایک نوٹیفکیشن کا سہارا لے کر انہیں گھر بھیجنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔
مزید پڑھیں: بلدیاتی انتخابات کروانے کیلئے الیکشن کمیشن قانونی مشکلات کا شکار
عدالت نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما دانیال عزیز کی درخواست منظور کرتے ہوئے پنجاب کے بلدیاتی اداروں کو بحال کرنے کا حکم دے دیا۔
قبل ازیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 15 مارچ کو بلدیاتی انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت میں صوبائی حکومت کے آرڈیننس کو آئین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ پنجاب حکومت کا بلدیاتی آرڈیننس سپریم کورٹ پر حملہ ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کیس کی مزید سماعت کے لیے تین رکنی بینچ تشکیل دینے کا معاملہ چیف جسٹس کو بھجوا دیا تھا اور ہدایت کی تھی کہ رجسٹرار سپریم کورٹ بینچ تشکیل دینے کے لیے فائل جلد از جلد چیف جسٹس کو بھجوائیں۔