واجد شمس الحسن کی یادداشتیں: وہ باتیں جو پہلے کبھی سامنے نہیں آئیں
وطن عزیز میں ہمارے بیشتر ریٹائرڈ جرنیلوں، سفارتکاروں اور بیوروکریٹس کا یہ مشغلہ بن گیا ہے کہ فوجی حکمرانوں کے زیرِ سایہ دو زانوں ہوکر زندگی کے بھرپور ماہ و سال گزارتے ہیں، اور پھر یہی لوگ کسی بڑے اشاعتی ادارے کے گھوسٹ لکھاری کو پکڑ کر ہر سال دو سال میں اپنے سنہری دور کی یادوں میں جرأت و صداقت کا تڑکا لگا کر رائٹرز کلب میں شامل ہوجاتے ہیں۔
رائٹر اور ساتھ میں کالم نگار بننے کے بعد اب انہیں اسکرینوں کا ایک نیا میدان مل گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ان سابقہ جرنیلوں، سفارتکاروں اور بیوروکریٹس کے ریٹائر ہونے کے بعد موجاں لگی ہوئی ہیں۔
تمہید طویل ہوگئی، اس لیے چلیے اپنے موضوع پر آتے ہیں۔
واجد شمس الحسن جنہیں ان کے حلقہ یاراں کا ہر چھوٹا، بڑا واجد بھائی کہتا ہے، وہ اس زمرے میں نہیں آتے۔ غالباً 1994ء کا سال تھا، واجد بھائی کراچی میں ہمارے دفتر میں بیٹھے ایک اشاعتی ادارے کا منصوبہ بنارہے تھے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کا فون آگیا۔ اس وقت وزیرِاعظم بنے انہیں ہفتہ ہی ہوا تھا۔ محترمہ انہیں اسلام آباد بلارہی تھیں۔ واجد صاحب انکساری و احترام کے ساتھ کچھ وقت مانگ رہے تھے۔ میں ساتھ بیٹھا یہ سب دیکھ رہا تھا کہ واجد بھائی کے فون رکھتے ہی میں نے کہا ’بھٹو فیملی سے جو آپ کا تعلق ہے اور جو گفتگو میں سن چکا ہوں اس میں میری طالبانہ رائے ہے کہ یا تو آپ مشیر ہونے جارہے ہیں یا سفیر‘۔
اگلے ہفتے واجد صاحب نے اطلاع دی کہ اگلی ملاقات لندن میں ہوگی جہاں وہ ہائی کمشنر بننے جارہے تھے۔ قلم اور جوتوں کی گھسائی کے بعد 2002ء میں ٹی وی سے رشتہ ایسا جڑا کہ مہینوں میں اسکرین ہمیں کھاگئی۔ اچانک یافت بڑھی تو لندن کے پھیرے بھی ہونے لگے۔ میرا واجد بھائی سے اصرار ہوتا کہ ’آپ اپنی بھرپور صحافتی اور سیاسی یادوں کو سمیٹیں‘۔ وہ چند صفحے لکھ بھی لیتے لیکن وہ پھر کہیں کھو جاتے۔ اس دوران مشرف دور میں جو جیل کاٹی اس میں کئی بیماریوں نے گھیر لیا تاہم میں گزشتہ سال ہفتہ بھر لندن میں گزارنے کے بعد یہ کتاب لکھوانے میں کامیاب ہوگیا۔
’بھٹو خاندان میری یادوں میں‘ یہ کتاب دیگر سفارتکاروں اور لکھاریوں کی کتابوں سے یوں مختلف ہے کہ یہ ایک صحافی کی یادداشت ہے جسے محض 28 سال کی عمر میں پاکستان کے سب سے زیادہ شائع ہونے والے شام کے انگریزی اخبار کا ایڈیٹر ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ پھر اسی سبب ان کا تعلق بلکہ دوستی پاکستانی سیاست کے سب سے سحر انگیز سیاستدان ذوالفقار علی بھٹو سے ہوئی جو فیلڈ مارشل ایوب خان کی حکومت کی پرشکوہ کرسی چھوڑ کر فوجی آمریت سے برسرِ پیکار ہورہے تھے۔ واجد شمس الحسن نے بھٹو صاحب سے پہلی ملاقات کا ذکر بڑے دلچسپ اور دل نشین پیرائے میں کیا ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ ’بھٹو صاحب مسلم لیگ کنونشن کے سیکریٹری جنرل تھے اور والد صاحب مسلم لیگ کے اسسٹنٹ سیکریٹری تھے۔ میں اکثر والد صاحب کو لے کر بھٹو صاحب کے پاس جاتا تھا۔ والد صاحب اور بھٹو صاحب گھنٹوں میٹنگ میں مصروف رہتے۔ بھٹو صاحب سے قربت اور تعلق خاص کی وجہ ڈیلی نیوز میں میری ایک خبر تھی۔ بھٹو صاحب تاشقند سے واپسی کے بعد تاشقند کی بلی کا بہت ذکر کرتے تھے۔ میں نے ایک روز ڈیلی نیوز کے فرنٹ پیج پر ایک آرٹیکل لکھا جسے پڑھ کر بھٹو صاحب کو احساس ہوا کہ یہ نوجوان صحافی خاصا ذہین ہے مگر بعض دفعہ اس طرح کی باتیں لکھ کر گڑبڑ کردیتا ہے۔ بھٹو صاحب نے اپنے ایک دوست کے ذریعے اپنے گھر بلوا لیا۔ وہ وزیرِ خارجہ رہ چکے تھے، ساری دنیا کا سفر کرچکے تھے اور ان کی شخصیت میں سحر انگیزی کے ساتھ ساتھ بے تکلفی بھی تھی۔ ملاقات ہوئی تو میں نے بھٹو صاحب سے کہا کہ آپ تاشقند کی بلی کا بہت ذکر کرتے ہیں، آپ صاف بات کریں کہ تاشقند میں کیا ہوا تھا۔ بھٹو صاحب نے کہا کہ وقت آنے پر اس پر بات کروں گا۔ میں سمجھ گیا کہ بھٹو صاحب ایوب خان کے خلاف جو تحریک چلارہے ہیں اس میں ان کی ایک حکمتِ عملی ہے کہ کس طرح ایوب خان کے نیچے سے کارپٹ کھینچا جائے‘۔
کتاب میں واجد شمس الحسن نے مزید لکھا کہ ’بھٹو صاحب نے مجھے ایک دن شام کو گھر بلایا، ابھی ہماری نئی نئی قربت استوار ہونا شروع ہوئی تھی۔ بھٹو صاحب بہت محبت کرنے والے تھے۔ وہ مجھے اپنی لائبریری میں لے گئے جو بڑی عالیشان تھی۔ انہوں نے لائبریری دکھائی اور ہم وہیں بیٹھ گئے۔ بابو اور نورا بھٹو کے پرانے ملازم تھے۔ بھٹو صاحب ان سے بہت محبت کرتے تھے۔ انہوں نے دونوں میں سے ایک کو آواز دی تو وہ ان کی آواز سننے کے بعد تمام لوازمات کے ساتھ ٹرالی لے کر لائبریری میں آئے۔ بھٹو نے بابو اور نورا کی بھی تربیت کی تھی کہ مہمانوں کی کس طرح خاطر مدارت کرنی ہے اور کس مہمان کے لیے کیا چیز لانی ہے۔ لوازمات کے ساتھ کس طرح پلیٹ اور گلاس پیش کرنا ہے۔ بھٹو صاحب ایک ایک چیز کا بہت خیال رکھتے تھے اور مہمانوں کو حد سے زیادہ عزت و احترام دیتے تھے۔ بھٹو صاحب نے 2 گلاس بنائے، ایک گلاس مجھے دیا۔ میں نے کہا میں شوق نہیں کرتا۔ وہ بڑی دیر تک میرا مذاق اڑاتے رہے، کہا تم کیسے جرنلسٹ ہو تمہیں پینے کا شوق نہیں ہے؟ میں نے کہا اتفاق سے میں نے شروع نہیں کی ہے۔ انہوں نے کہا ’مذہب کا معاملہ ہے؟‘ میں نے کہا مذہب کے بارے میں بہت کمزور ہوں مگر میں نے کبھی نہیں پی۔ بھٹو صاحب نے میرے لیے کافی منگوائی۔ اسی دوران بابو سگار کا ایک نیا ڈبہ پلیٹ میں رکھ کر لایا، اس کے ساتھ لمبی تیلی والی ماچس بھی تھی۔ وہ کیوبن اور چرچل سگار پسند کیا کرتے تھے۔
’بھٹو صاحب نے 2 سگار نکالے ایک سگار اپنے لیے نکالا اور مجھ سے کہا کہ دیکھتے رہو کہ سگار کیسے جلاتے ہیں۔ انہوں نے بڑی سی ماچس سے سگار جلایا اور ایک سگار جلا کر مجھے دیا۔ مجھ سے کہا کہ سگار کبھی لائٹر سے نہ جلانا۔ میں نے کہا پہلی بار سگار پی رہا ہوں، میں نے آج تک سگریٹ بھی نہیں پی۔ انہوں نے کہا کافی کے ساتھ سگار بڑا مزہ دیتا ہے۔
’مجھے معلوم تھا اس سگار کی قیمت 110 روپے ہے۔ میں نے کہا بھٹو صاحب! آپ مجھے اتنا مہنگا سگار پلارہے ہیں، اتنی تو میری تنخواہ بھی نہیں۔ میں اتنا مہنگا سگار کیسے پیوں گا؟ بھٹو صاحب نے کہا کہ سگار کا ایک بکس آپ کو ہر مہینے میری طرف سے ملتا رہے گا، یہ ہماری دوستی کا تحفہ ہے۔ یہ سلسلہ طویل عرصے تک چلتا رہا۔ بھٹو صاحب کی شہادت کے بعد بے نظیر بھٹو نے اس سلسلے کو جاری رکھا۔ وہ جہاں بھی جاتیں میرے لیے سگار ضرور لاتیں۔ جب وہ وزیرِاعظم تھیں تب بھی ہر مہینے ایک سگار کا ڈبہ مجھے ملتا تھا۔ بھٹو صاحب نے سگار کا تحفہ دینے کا جو سلسلہ شروع کیا بے نظیر بھٹو نے اس روایت کو جاری رکھا۔ سگار کی بہت بڑی قیمت نہیں تھی، مگر بھٹو صاحب کا میرے ساتھ جو خاص تعلق بن گیا تھا بے نظیر بھٹو نے اس روایت کو زندہ رکھا۔
’بے نظیر بھٹو کی میری بیوی زرینہ سے کافی قربت تھی۔ زرینہ بے نظیر بھٹو سے کہا کرتی تھیں کہ آپ ان کے لیے سگار کیوں لاتی ہیں؟ وہ بے نظیر سے جھگڑا کرتیں کہ واجد کی صحت خراب رہتی ہے۔ آپ انہیں سگار کی جگہ پرفیوم کیوں نہیں دیتیں؟ بی بی کہا کرتی تھیں کہ ’زرینہ! واجد بھائی جب سگار پیتے ہیں تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بابا (بھٹو صاحب) سگار پی رہے ہیں۔ مجھے بابا کی وجہ سے سگار کی خوشبو اچھی لگتی ہے۔
’بے نظیر بھٹو پارٹی کی چیئر پرسن ہونے کے ساتھ ایک خاتون بھی تھیں لہٰذا پارٹی کا ہر رہنما ان کا احترام کرتا تھا، کوئی سینئر رہنما بھی ان کے سامنے سگریٹ نہیں پیتا تھا۔ بے نظیر بھٹو نے صرف مجھے اجازت دی تھی کہ میں ان کے سامنے سگار پی سکتا تھا۔ میں اکثر کوشش کرتا تھا کہ میٹنگ کے درمیان سگار نہ پیوں مگر محترمہ مجھ سے پوچھتی تھیں کہ واجد بھائی آپ سگار کیوں نہیں پی رہے۔ پیپلز پارٹی کے بہت سے رہنما اس بات پر خوش نہ تھے کہ محترمہ مجھے اتنی عزت کیوں دیتی ہیں۔ مجھے پہلی بار سگار بھٹو صاحب نے پلایا اور جب تک بے نظیر بھٹو زندہ رہیں ان کی طرف سے مجھے سگار ملتے رہے۔ بھٹو فیملی کی وجہ سے سگار سے ایسا رشتہ بن گیا کہ لاکھ کوشش کے باوجود سگار کی عادت نہ گئی۔ میں جب بھی سگار پیتا ہوں تو بھٹو صاحب اور بے نظیر کی یادیں گھیر لیتی ہیں‘۔
بھٹو صاحب کے بعد واجد شمس الحسن کا محترمہ بے نظیر بھٹو سے جو تعلق بنا وہ بعد میں ان کے لیے کانٹوں بھرا تاج بن گیا۔ فوجی ڈکٹیٹر و سابق صدر پرویز مشرف کے علم میں تھا کہ واجد بھائی اگر سلطانی گواہ بن گئے تو بھٹو خاندان کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی دوسرا انتقام نہیں ہوسکتا۔ جنرل مشرف کی قید سے رہائی کے بعد واجد بھائی کے لیے ایک طویل جبریہ جلاوطنی انتظار کررہی تھی۔
محترمہ بے نظیر بھٹو لندن میں مشرف پر حملہ آور ہونے کی تیاری کر رہی تھیں اور واجد بھائی ایک بار پھر ان کے قریبی معاون و مشیر بنے۔ ’NRO‘ کے احوال کو غالباً اس کتاب کا سب سے زیادہ معلوماتی باب کہنا چاہیے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکا ہمارے سارے معاملات ’گوروں کے فارن آفس‘ سے کرواتا ہے۔ واجد بھائی نے بڑی تفصیل سے لکھا ہے کہ کس طرح محترمہ برٹش فارن آفس کو یہ یقین دلوانے میں کامیاب ہوسکیں کہ مشرف اور پاکستان ساتھ نہیں چل سکتے۔ امریکی وزیرِ خارجہ نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی پاکستان واپسی میں جو کردار ادا کیا اسے فرسٹ ہینڈ انفارمیشن کہا جائے گا اور اسے واجد شمس الحسن جیسا سینئر صحافی ہی لکھ سکتا تھا۔
برطانوی سیکریٹری خارجہ جیک اسٹرا نے لندن میں بے نظیر بھٹو کو بتایا تھا کہ پرویز مشرف پاکستان میں اس شرط پر عام انتخابات کروانے کے لیے تیار ہیں کہ بے نظیر بھٹو پاکستان واپس لوٹیں اور نہ عام انتخابات میں حصہ لیں۔ اس پر بے نظیر بھٹو نے برطانوی سیکرٹری خارجہ کو بتادیا کہ وہ پاکستان کی مقبول لیڈر ہیں، ان کے بغیر انتخابات کیسے ہوں گے؟
محترمہ نے مزید کہا کہ ’نائن الیون سے پہلے آپ مشرف سے ہاتھ ملانے کے لیے تیار نہیں تھے اور نائن الیون کے بعد اس کی حمایت کرنے لگے ہیں۔ مشرف نہیں چاہے گا کہ میں پاکستان جاؤں اور فائدہ حاصل کروں‘۔
برطانوی سیکریٹری خارجہ نے بے نظیر سے سوال کیا کہ آپ کی کیا شرائط ہیں؟ بے نظیر نے کہا کہ واجد صاحب نے آپ کو ہر چیز لکھ کر دے دی تھی۔ جیک اسٹرا نے کہا کہ وہ ٹھیک ہے لیکن ہم آپ سے سننا چاہتے ہیں کہ آپ کیا چاہتی ہیں۔
بے نظیر بھٹو نے کہا کہ ’جہاں تک میرے وزیرِاعظم ہونے یا نہ ہونے کی بات ہے، اس پر میں پرویز مشرف سے ون ٹو ون بات کروں گی۔ جیک اسٹرا نے کہا کہ مشرف اس شرط پر الیکشن کروانے کے لیے تیار ہوا ہے کہ آپ اس میں حصہ نہ لیں اور پاکستان واپس نہ جائیں۔ بے نظیر نے کہا کہ یہ تو بڑا مشکل ہے کہ میں الیکشن میں حصہ نہ لوں اور پاکستان واپس نہ جاؤں‘۔
محترمہ نے کہا کہ ’میری پارٹی تو اس وقت تک الیکشن میں حصہ نہیں لے گی جب تک میں الیکشن مہم نہ چلاؤں۔ اس پر جیک اسٹرا نے کہا کہ آپ کے امریکا سے کیسے تعلقات ہیں؟ بے نظیر نے کہا کہ جیسے آپ کے ساتھ ہیں ویسے ہی امریکا کے ساتھ تعلقات ہیں۔ جیسے آپ نے نو لفٹ کی ہوئی ہے ویسے ہی امریکا نے نو لفٹ کی ہوئی تھی۔ امریکا میں بھی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے لوگوں سے ملاقات رہتی ہے مگر سینیٹر یا سیکریٹری کی سطح پر لوگوں سے ملاقات نہیں ہوتی۔ جیک اسٹرا نے کہا کہ اچھا میں دیکھتا ہوں کہ آپ کے لیے کیا کرسکتا ہوں۔ اس نے کہا کہ میں امریکا سے بات کرتا ہوں‘۔
واجد شمس الحسن نے کتاب میں لکھا ہے کہ ’جیک اسٹرا کی اس ملاقات کے بعد پہلی بار امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ نے لندن میں بے نظیر بھٹو سے ملاقات کی اور یوں امریکا اور پرویز مشرف کے ساتھ پیپلزپارٹی کے مذاکرات کا آغاز ہوا‘۔
کتاب میں واجد شمس الحسن نے تفصیل سے بے نظیر بھٹو کے ساتھ گزرے دنوں کا تذکرہ کیا اور بتایا کہ ’پرویز مشرف اور بے نظیر کے درمیان پہلی ملاقات 24 جنوری کو دبئی میں ہوئی جو ساڑھے 4 گھنٹے تک جاری رہی۔ اس ملاقات میں پرویز مشرف اور بے نظیر بھٹو جنرل کیانی اور رحمٰن ملک کے ساتھ ابوظہبی کے شاہی محل میں ملے تھے۔ ملاقات دونوں رہنماؤں کے درمیان براہ راست ہوئی۔ کیانی اور رحمٰن ملک کمرے کے باہر بیٹھے رہے‘۔
واجد شمس الحسن لکھتے ہیں کہ ’ملاقات کے بعد بے نظیر نے اسی رات بتایا کہ ’مشرف بہت گہرا آدمی ہے وہ مجھے کسی صورت برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ بے نظیر نے بتایا کہ مشرف نے ملاقات میں کہا کہ ’میں ایک بات آپ کو صاف صاف بتا دوں کہ میں آپ کو پاکستان نہیں آنے دوں گا‘۔
نومبر میں محترمہ کی واپسی ہوئی تو واجد صاحب کا خیال تھا کہ وہ بی بی کے ساتھ والی سیٹ پر ہوں گے مگر محترمہ نے اپنی واپسی سے چند دن پہلے انہیں یہ کہہ کر حیران کردیا کہ ’آپ میرے لیے‘ لندن میں پاکستان سے زیادہ اہم ہیں۔ اس وقت پیپلز پارٹی کے ہر چھوٹے بڑے رہنما کی خواہش تھی کہ وہ ان کے جہاز اور پھر ٹرک میں سوار ہو۔ محترمہ بے نظیر بھٹو پر خودکش حملہ، ان کی شہادت اور پھر میمو گیٹ اسکینڈل تک واجد بھائی نے اپنی یادداشتوں کو محفوظ رکھا ہے۔
واجد بھائی کا کہنا ہے کہ ’آصف علی زرداری کی حکومت اور پھر سفارتکاری پر آیا تو ایک دوسری کتاب لکھنی پڑے گی جس کی فی الحال صحت اجازت نہیں دیتی‘۔
کورونا کے جانے کے دن گن رہا ہوں، کتاب کی ابھی رونمائی نہیں ہوئی، مزید لکھوں گا تو تشہیر کے زمرے میں آئے گا۔
مجاہد بریلوی ’جالب جالب‘، ’فسانہ رقم کریں‘ اور ’بلوچستان مسئلہ کیا ہے‘ کے مصنف ہیں۔ 2002ء میں پاکستان کے پہلے نجی چینل پر مجاہد آن لائن نامی پروگرام کی میزبانی کی اور پھر 8 سال تک سی این بی سی پر پروگرام ’دوسرا پہلو‘ کی میزبانی کرتے رہے۔ اس کے علاوہ ڈان نیوز ٹی وی پر ’سوال سے آگے‘ کی میزبانی بھی وہ کرچکے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔