صحت

ایسٹرازینیکا ویکسین کورونا کی جنوبی افریقہ کی قسم کے خلاف بہت کم مؤثر

جنوبی افریقہ میں دریافت ہونے والی قسم بی 1351 کے خلاف ویکسین کی 2 خوراکوں کی افادیت محض 10.4 فیصد ہے۔

آکسفورڈ/ایسٹرازینیکا کووڈ 19 ویکسین جنوبی افریقہ میں دریافت ہونے والی کورونا وائرس کی نئی قسم سے تحفظ فراہم کرنے میں غیرمؤثر ہے۔

یہ بات جنوبی افریقہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

جنوبی افریقہ میں دریافت ہونے والی قسم بی 1351 کے خلاف ویکسین کی 2 خوراکوں کی افادیت محض 10.4 فیصد ہے۔

فیز 1b-2 کلینیکل ٹرائل کے نتائج طبی جریدے نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسین میں شائع ہوئے۔

تحقیق کے نتائج اس لیے تشویشناک ہیں کیونکہ جنوبی افریقی قسم جو میوٹیشنز موجود ہیں وہ چند اور اقسام میں بھی موجود ہیں۔

ٹرائل میں 18 سے 64 سال کی عمر کے ایچ آئی وی نیگیٹو افراد کو شامل کیا گیا تھا اور ان پر ایسٹرا زینیکا ویکسین کی افادیت کی جانچ پڑتال کی گئی۔

24 جون سے 9 نومبر 2020 کے دوران جنوبی افریقہ میں کیے جانے والے ٹرائل میں شامل ویکسین گروپ کے 750 رضاکاروں میں سے 19 (ڈھائی فیصد) میں معمولی سے معتدل کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی۔

پلیسبو گروپ کے 717 میں سے 23 افراد میں اس وبائی بیماری کی تصدیق ہوئی اور مجموعی طو رپر 42 کیسز ریکارڈ ہوئے۔

42 میں سے 39 افراد کورونا کی بی 1351 قسم سے متاثر ہوئے تھے اور نتائج سے ثابت ہوا کہ اس نئی قسم کے خلاف ایسٹرازینیکا ویکسین کی افادیت محض 10.4 فیصد ہے۔

تاہم تحقیق کے دوران کسی فرد میں کووڈ کی شدت سنگین نہیں ہوئی اور نہ ہی کوئی ہلاک ہوا، مگر محققین نے انتباہ کیا کہ ممکنہ طور پر اوسط عمر 30 سال ہونے کے باعث رضاکاروں میں بیماری کی شدت سنگین نہیں ہوئی۔

اس قسم کے اسپائیک پروٹین میں ریسیپٹر جکڑنے والے حصے میں کئی میوٹیشنز کے 417 این، ای 484 کے اور این 501 وائے ہوئی ہیں جن میں سے کے 417 این اور ای 484 کے برازیل میں دریافت قسم بھی دیکھی گئی ہے جبکہ این 501 وائے کو برطانوی قسم میں دیکھا گیا۔

اس تحقیق میں شامل ماہرین کی قیادت کرنے والے Witwatersrand یونیورسٹی کے پروفیسر شبیر مہدی نے کہا کہ اگرچہ ایسٹرازینیکا ویکسین جنوبی افریقی قسم کے خلاف غیرمؤثر ہے مگر نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں سیکنڈ جنریشن ویکسین کی تیاری پر کام ہونا چاہیے۔

یہاں سیکنڈ جنریشن ویکسینز سے مراد ایسی ویکسینز ہیں جو کورونا کی نئی ابھرتی اقسام کی روک تھام کرسکیں۔

اس تحقیق کے ابتدائی نتائج فروری کے آغاز میں جاری ہوئے تھے اور اب تفصیلی نتائج طبی جریدے میں جاری کیے گئے ہیں۔

پروفیسر مہدی شبیر نے کہا کہ اگرچہ ہماری تحقیق میں ویکسین کے تیسرے ٹرائل میں شامل لاکھوں افراد میں سے 2026 کو شامل کیا گیا تھا، مگر ڈیٹا کے نتائج ناقابل تردید ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ جب جون 2020 میں ٹرائل کا آغاز ہوا تو ہم اس کو اوریجنل وائرس کے خلاف آزما رہے تھے، جنوری 2021 میں اس کی اقسام بشمول بی 1351 سامنے آئی تھیں اور ہم نے دیکھا کہ کیا اوریجنل وائرس کی طرح اس نئی قسم کے خلاف بھی یہ ویکسین کم از کم 60 فیصد مؤثر ثابت ہوتی ہے یا نہیں، مگر ایسا نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا کہ یہ ویکسین ممکنہ طور پر کووڈ کی سنگین شدت سے بچانے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے، اسی وجہ سے یہ وائرس کی روک تھام کے لیے اہم ہتھیار ہے۔

خیاال رہے کہ آکسفورڈ یویورسٹی کی جانب سے کورونا کی نئی اقسام کی روک تھام کے لیے اپ ڈیٹ ویکسینز پر کام کیا جارہا ہے۔

کووڈ کے ہر 10 میں سے ایک مریض کو طویل المعیاد علامات کا سامنا ہوتا ہے، تحقیق

کووڈ ویکسین استعمال کرنے والی حاملہ خاتون سے اینٹی باڈیز بچی میں منتقل

فرانس میں کورونا کی ٹیسٹوں میں پکڑی نہ جانے والی نئی قسم دریافت