تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ سے متاثر ہر 10 میں سے ایک مریض کو 3 یا اس سے زیادہ مہینے تک کووڈ کی علامات کا سامنا ہوتا ہے اور ان میں تھکاوٹ سب سے عام ہے۔
ایسے مریضوں کے لیے لانگ کووڈ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جن میں بیماری کی علامات صحتیابی کے بعد بھی کئی ماہ تک موجود رہتی ہیں۔
برطانیہ کے نیشنل انسٹیٹوٹ فار ہیلتھ ریسرچ (این آئی ایچ آر) کی اس تحقیق میں متعدد تحقیقی رپورٹس کا تجزیہ کیا گیا۔
تحقیق میں انتباہ کیا گیا کہ کووڈ کے ایسے مریضوں کے اعضا پر طویل المعیاد منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں جن کو بیماری کے باعث ہسپتال میں داخل نہیں ہونا پڑا تھا۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ لانگ کووڈ ممکنہ طور پر 4 مختلف سینڈروم کا مجموعہ ہوسکتا ہے، جن میں سے ہر ایک کی اپنی وجوہات ہوسکتی ہیں۔
ان سینڈرومز میں پوسٹ انٹینسیو کیئر سینڈروم، اعضا کو طویل المعیاد نقصان، پوسٹ وائرل سینڈروم اور ایک نیا سینڈروم شامل ہے جو دیگر سے مختلف الگ ہوسکتا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ ایسے شواہد موجود ہیں کہ لانگ کووڈ ایک 'متحرک بیماری' ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ اس تجزیے سے بیماری کے مختلف پیٹرنز کو سمجھنے میں مدد ملے گی، مگر ہمیں اس کی ہر وجہ کو جاننے کی ضرورت ہے، ہمیں مزید ڈیٹا کی ضرورت ہے کہ یہ علامات کتنے عرصے تک برقرار رہ سکتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ کم از کم 10 فیصد افراد کو لانگ کووڈ کی ایک علامت کا سامنا 3 ماہ بعد بھی ہوتا ہے، مگر ڈیٹا کو اکٹھا کرنے کا عمل محدود ہونے کے باعث ہوسکتا ہے کہ یہ شرح زیادہ ہو۔
دوسری جانب نارتھ برسٹل این ایچ ایس کی ایک الگ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ ویکسین کا استعمال ممکنہ طور پر لانگ کووڈ کی علامات کو مزید بدتر نہیں ہونے دیتا بلکہ کچھ افراد کی حالت میں بہتری آسکتی ہے۔
اس تحقیق میں 44 افراد کا جائزہ لیا گیا تھا جن کو بیماری سے صحتیابی کے 8 ماہ بعد بھی تھکاوٹ، بے خوابی اور سانس لینے میں مشکلات جیسی علامات کا سامنا تھا۔