’فری لانسرز کی مدد کیجیے، ان پر ٹیکس لگاکر مسائل نہ بڑھائیں‘
پچھلے سال ڈان کے لیے فری لانسنگ کے مستقبل سے متعلق لکھا تو ایک قاری نے خوبصورت تجزیہ لکھا کہ ’سستے انگریزی بلاگز کا چربہ پیش نہ کریں، لوگوں کو گمراہ نہ کریں، آپ نے خود کیا کمایا؟
اس رائے کا اب ہمارے پاس کسی حد تک جواب آگیا ہے اور وہ آگے جاکر دیا جائے گا، لیکن جن لوگوں نے مسلسل محنت اور مستقل مزاجی سے ابھی کچھ کمانا شروع ہی کیا ہے ان سے متعلق یہ خبر سننے کو مل رہی ہے کہ ایف بی آر فری لانسنگ کے ذریعے ہونے والی آمدنی پر ٹیکس لگانے سے متعلق غور کر رہی ہے۔
صرف ایک پلیٹ فارم Payoneer Inc کے توسط سے گزشتہ ڈھائی سالوں میں تقریباً 60 ارب روپے پاکستان میں آئے۔ اس کے علاوہ پاکستانی فری لانسرز نے کئی دیگر طریقوں یا ’جگاڑوں‘ کے ذریعے اربوں روپے اور بھی کمائے ہیں۔ لہٰذا اس بات پر اب بحث کی گنجائش ہے ہی نہیں کہ فری لانسنگ ایک ٹھوس حقیقت ہے اور اس سے اچھے خاصے پیسے کمائے جاسکتے ہیں۔
اب آتے ہیں اس معاملے کی طرف کہ ہم نے فری لانسنگ سے اب تک کیا کچھ کمایا۔ پچھلے سال میں نے ایمزون کنڈل پر کتابیں شائع کرنے کا ایک سلسلہ شروع کیا، جو اب بھی کسی نہ کسی انداز میں چل رہا ہے۔ ہم نے 600 ڈالر کے لگ بھگ کی کتانیں بیچیں، لیکن کتابوں پر مارکیٹنگ کے اخراجات نکالنے کے بعد کسی بڑے منافع تک تو نہیں پہنچے، لیکن ہاں، ہم نے اس آزاد منڈی میں کاروبار شروع کردیا ہے اور یہاں سے آمدنی کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ فری لانسنگ سے آنے والی خطیر رقم کو تاعمر ٹیکس سے استثنا نہیں دیا جاسکتا، لیکن ایک ایسے وقت میں جہاں ابھی یہ انڈسڑی مکمل طور پر اپنے پیروں پر بھی کھڑی نہیں ہوئی، فری لانسرز پر کریک ڈاؤن طرز کی خبروں کا سامنے آنا پریشان کن ہے۔
اس پریشانی کی کئی وجوہات میں سے ایک یہ ہے کہ پاکستان میں فری لانسرز کے لیے کوئی سہولت نہیں، یہ اس سفر پر خاصے تنہا ہیں بلکہ اپنی جائز اور حلال آمدنی کو پاکستان لانے کے لیے ان کے پاس تو کوئی مؤثر گیٹ وے تک نہیں، جس کے سبب انہیں جتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں، یہ صرف یہی جانتے ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ یہ یا تو بیرونِ ملک مقیم اپنے رشتہ داروں پر انحصار کرتے ہیں یا پھر مفاد پرست افراد کو اپنی آمدنی کا ایک بڑا حصہ یا بھتہ دے کر اپنی محنت سے کمائی ہوئی آمدن حاصل کرتے ہیں۔
سب سے پہلے تو فری لانس پلیٹ فارمز فیس کے نام پر 5 فیصد سے 20 فیصد تک حصہ کاٹ لیتے ہیں اور پیمنٹ گیٹ وے کے مسائل کی وجہ سے جو ایک آدھ کمپنی ان کے روپے پاکستان پہنچانے کا تردد کرتی ہے وہ ڈالر کو روپے میں منتقل کرتے ہوئے من مانی قیمت دیتی ہے، جس سے محنت کی کمائی پہلے ہی کم ہوکر ملتی ہے۔ ایسے مشکل حالات میں اگر ان پر مزید ٹیکس لاگو کردیا گیا تو یہ ان محنتی لوگوں کی جیب کو اور ہلکا کر جائے گا۔
میرے خیال میں اتنی خطیر رقم کے اشارے ملنے کے بعد حکومت کو فری لانسنگ انڈسٹری کو بہت سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ میرا یقین ہے کہ اگر حکومت ان باصلاحیت نوجوانوں کی مدد کرے تو پاکستان کی آن لائن آرمی دنیا میں اپنے ہنر کا لوہا اس انداز میں منوا سکتی ہے کہ پاکستان کی معیشت پر اس کا ایک بڑا مثبت اثر پڑسکتا ہے۔
اس حوالے سے حکومت کو جو کام کرنے کی ضرورت ہے، وہ مندرجہ ذیل بیان کیے جارہے ہیں۔
انکم گیٹ وے کا معاملہ
فری لانسر کا سب سے بڑا مطالبہ انکم گیٹ وے کا حل ہے، یعنی باہر کی آمدنی کو پاکستان کیسے لایا جائے؟ پے پال یا اس طرز کا ایسا قابلِ بھروسہ حل جس پر دنیا بھر میں کسی کو بھی کاروبار کرنے میں اعتراض نہ ہو۔
اس وقت میری نظر میں ایمزون اور اس سے متعلق دی جانے والی سروسز میں ہمارے پاکستانی نوجوان بہت ہنرمند ہیں، لیکن افسوس کہ ایمزون پر پاکستان سے اکاؤنٹ بنانا یا پاکستان سے کام کرنا کھلے انداز میں ممکن نہیں۔
فیور اور اپ ورک پر سیکڑوں پاکستانی چھوٹے چھوٹے گگز بنا کر اپنا ہنر دنیا کو بیچ رہے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ زیادہ تر فری لانسرز نے اسی انٹرنیٹ کی مدد سے اپنی صلاحیتوں کو نکھارا ہے۔ یعنی ایک ایسا شاندار ایکو سسٹم وجود میں آچکا ہے کہ سکھانے والے اور سیکھنے والوں کی ٹیمیں بن چکی ہیں۔ بس اگر کمی ہے تو ایک حکومتی شاباش کی۔
تیز ترین انٹرنیٹ کی سہولت اور لوڈ شیڈنگ سے نجات
تیز رفتار انٹرنیٹ حکومت کی اوّلین ترجیح ہونا چاہیے، جو ابھی ہرگز نہیں ہے۔ یہ بات میں اتنے وثوق سے اس لیے کہہ سکتا ہوں کہ میرا واسطہ پاکستان میں جب بھی اس شعبے سے وابستہ اپنے دوستوں سے ہوتا ہے، تو ان کی طرف سے آنے والی فائلیں سست انٹرنیٹ کی وجہ سے وقت پر نہیں پہنچ پاتی۔ یہی نہیں بلکہ لوڈ شیڈنگ کے مارے میرے دیس میں فری لانسرز کی فائلوں کے ساتھ جو بیتتی ہے اس پر کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔
وزیرِاعظم کی ذاتی دلچسپی
چاہیے تو یہ کہ اتنی خطیر رقم کی خبر بریک ہونے کے بعد وزیرِاعظم ان آن لائن سپاہیوں سے خود ملیں، بالکل ایسے ہی جیسے وہ سوشل میڈیا اسٹارز کے ساتھ ملے تھے، ان کے کاندھوں پر تھپکی دیں، ان سے پوچھیں کہ ان کے بنیادی مسائل کیا ہیں، اور ان کو فوری طور پر حل کرنے کے لیے اپنی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائیں۔ مجھے یقین ہے کہ پاکستان کے یہ ہنرمند فری لانسرز دنیا کو ایک نئے انداز میں فتح کرسکتے ہیں۔
یقین کیجیے کہ یہ فری لانسرز محنتی لوگ ہے جو ٹیکس سے بھاگنے والے نہیں، بلکہ اپنی محنت پر یقین رکھنے والے اور نئے جہاں تراشنے والے ہیں۔ اگر بنا کسی سرکاری سرپرستی یہ نوجوان اس قدر کارنامے سرانجام دے رہے ہیں تو ذرا سی شاباش اور مدد کے بعد ان کے رنگ ڈھنگ دیکھنے والے ہوں گے۔
رمضان رفیق دنیا گھومنے کے خواہشمند ہیں اور اسی آرزو کی تکمیل کے لیے آج کل مالمو، سویڈن میں رہائش پذیر ہیں۔
انہیں فیس بُک پر فالو کریں: ramzanblog.انہیں یوٹیوب پر سبسکرائب کریں Aazadtv.
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔