برمنگھم یونیورسٹی اور عالمی ادارہ صحت کے زیرتحت ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ 19 کی شکار حاملہ خواتین میں بیماری کی شدت سنگین ہونے کا خطرہ اس صورت میں زیادہ ہوتا ہے جب وہ موٹاپے، ہائی بلڈ پریشر یا ذیابیطس جیسے مسائل کا سامنا پہلے سے کررہی ہوں۔
طبی جریدے بی ایم جے میں شائع تحقیق کا آغاز اپریل 2020 میں ہوا تھا اور اس کے ابتدائی نتائج اگست 2020 میں جاری ہوئے تھے۔
اب نئے نتائج 192 تحقیقی رپورٹس کے تجزیے پر مبنی ہیں جبکہ اضافی 115 تحقیقی رپورٹس ایسی ہیں جن میں کووڈ 19 کے حاملہ خواتین اور ان کے بچوں پر مرتب اثرات کا جائزہ لیا گیا تھا۔
اس تجزیے میں دریافت کیا گیا کہ کسی بھی وجہ سے ہسپتال جانے والی یا وہاں داخل ہونے والی ہر 10 میں سے ایک حاملہ خاتون میں کووڈ 19 کی تصدیق ہوئی۔
41 ہزار سے زیادہ حاملہ خواتین (59 تحقیقی رپورٹس میں شامل) میں سے 339 کا انتقال کووڈ 19 کے باعث ہوا جبکہ اسقاط حمل اور بچوں کے انتقال کی شرح بہت کم تھی۔
تحقیق کے مطابق حاملہ خواتین میں کووڈ 19 کی سب سے علامات بخار (40 فیصد) اور کھانسی (41 فیصد) تھی، تاہم زیادہ تر حاملہ خواتین میں علامات ظاہر ہونے کا امکان نہیں ہوتا۔
ماں کی زیادہ عمر، زیادہ جسمانی وزن، پہلے سے کوئی عارضہ اور سفید فام نہ ہونا حاملہ خواتین میں کووڈ 19 کی سنگین شدت کا خطرہ بڑھانے والے عناصر ہیں۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ ایسے شواہد میں اضافہ ہورہا ہے کہ حمل کے دوران بلڈ پریشر اور ذیابیطس کی شرح میں اضافہ کووڈ 19 کی شدت میں اضافے کا باع بنتے ہیں۔
تاہم محققین کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے مزید تجزیے کی ضرورت ہے۔