صحت

کورونا کی برطانوی قسم توقعات سے دوگنا زیادہ جان لیوا

یہ بات پہلے ہی سامنے آچکی ہے کہ برطانیہ میں دریافت ہونے والی کورونا وائرس کی نئی قسم پرانی اقسام کے مقابلے میں زیادہ متعدی ہے۔

یہ بات تو پہلے ہی سامنے آچکی ہے کہ برطانیہ میں گزشتہ سال ستمبر میں دریافت ہونے والی کورونا وائرس کی نئی قسم پرانی اقسام کے مقابلے میں زیادہ متعدی ہے اور اب انکشاف ہوا ہے کہ یہ زیادہ جان لیوا بھی ہے۔

درحقیقت یہ توقعات سے زیادہ دوگنا زیادہ جان لیوا ہے اور یہ انکشاف ایک لاکھ سے زائد کووڈ کیسز کی جانچ پڑتال کے بعد سامنے آیا۔

برطانوی سائنسدانوں نے جنوری 2021 میں کہا تھا کہ ایسا ممکن ہے کہ یہ نئی قسم نہ صرف زیادہ متعدی ہے بلکہ یہ پرانی اقسام کے مقابلے میں 30 فیصد زیادہ جان لیوا بھی ہوسکتی ہے۔

مگر اب طبی جریدے بی ایم جے میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ برطانوی قسم پرانی اقسام کے مقابلے میں 64 فیصد زیادہ جان لیوا ہے۔

برسٹل، لنکاشائر، واروک اور ایکسٹر یونیورسٹیوں کی مشترکہ تحقیق میں یکم اکتوبر 2020 سے 29 جنوری 2021 کے دوران کورونا کی برطانوی قسم سے متاثر 54 ہزار مریضوں کا موازنہ اتنی ہی تعداد میں پرانی قسم سے بیمار ہونے والے افراد سے کیا۔

انہوں نے عمر، جنس، نسل، علاقے اور سماجی حیثیت جیسے عناصر کو مدنظر رکھ کر یقینی بنایا کہ اموات کی وجہ کوئی اور نہ ہو۔

یہ کسی طبی جریدے میں شائع ہونے والی پہلی تحقیق ہے جس میں کورونا کی برطانوی قسم سے اموات کی شرح کا تعین کیا گیا۔

محققین نے دریافت کیا کہ کورونا کی اوریجنل قسم سے شرح اموات ہر ایک ہزار میں 2.5 تھی مگر برطانوی قسم میں یہ شرح ہر ایک ہزار میں 4.1 تک پہنچ گئی، جو 64 فیصد زیادہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ کورونا کی یہ نئی قسم نہ صرف زیادہ تیزی سے پھیل سکتی ہے بلکہ یہ زیادہ جان لیوا بھی نظر آتی ہے۔

اس نئی قسم کے نتیجے میں اموات کی شرح میں اضافے کی وجوہات کو مکمل طور پر واضح نہیں کیا گیا، تاہم حالیہ مہینوں میں سامنے آنے والے کچھ شواہد سے عندیہ ملتا ہے کہ بی 1.1.7 سے متاثر افراد میں وائرل لوڈ زیادہ ہوتا ہے، جس کے باعث وائرس نہ صرف زیادہ تیزی سے پھیل سکتا ہے بلکہ مخصوص طریقہ علاج کی افادیت کو بھی ممکنہ طور پر متاثر کرسکتا ہے۔

برطانیہ میں یہ نئی قسم سب سے پہلے ستمبر میں سامنے آئی تھی اور اس کی دریافت کا اعلان دسمبر 2020 میں کیا گیا تھا، جو اب تک درجنوں ممالک تک پہنچ چکی ہے اور امریکا میں یہ دیگر اقسام کے مقابلے میں 35 سے 45 فیصد زیادہ آسانی سے پھیل رہی ہے۔

امریکی حکام کا تخمینہ ہے کہ یہ نئی قسم رواں سال مارچ میں امریکا میں سب سے زیادہ پھیل جانے والی قسم ہوگی۔

اس نئی قسم سے لاحق ہونے والا سب سے بڑا خطرہ اس کا زیادہ تیزی سے پھیلنا ہی ہے، ایک اندازے کے مطابق یہ پرانی اقسام کے مقابلے میں 30 سے 50 فیصد زیادہ متعدی ہے، تاہم کچھ سائنسدانوں کے خیال میں یہ شرح اس سے زیادہ ہوسکتی ہے۔

حال ہی میں ڈنمارک میں ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ اس قسم سے بیمار ہونے والے مریضوں کی اکثریت کا ہسپتال پہنچنے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

بی 117 نامی اس برطانوی قسم سے متاثر ہونے والے 2155 افراد کو اس تحقیق کا حصہ بنایا گیا تھا، جن میں سے 128 کو شدید بیماری کے باعث ہسپتال میں داخل ہونا پڑا۔

تحقیق کے مطابق یہ شرح دیگر اقسام سے متاثر ہونے والے افراد کے مقابلے میں 64 فیصد زیادہ ہے۔

بغیر علامات والے متعدد مریضوں کو بھی کووڈ کی طویل المعیاد علامات کا سامنا

فضا میں پولن کی مقدار اور کووڈ کے خطرے میں اضافے کے درمیان تعلق دریافت

چین میں دنیا کا پہلا 'وائرس پاسپورٹ' متعارف