طالب علم کا مبینہ قتل: آئی جی سندھ نے تحقیقات کیلئے کمیٹی تشکیل دے دی
انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی پی) سندھ مشتاق احمد مہر نے سکھر میں مبینہ انکاؤنٹر میں سندھ یونیورسٹی کے طالب علم کی ہلاکت کی تحقیقات کے لیے انکوائری کا حکم دے دیا۔
آئی جی سندھ کی جانب سے یہ حکم سوشل میڈیا پر پولیس پر شدید تنقید اور صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے معاملے کی عدالتی تحقیقات کے مطالبے کے بعد سامنے آیا ہے۔
آئی جی پی آفس سے جاری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ضلع سکھر کے جھانگرو تھانے میں منڈو ڈیرو فِش فارم کے قریب نیشنل ہائی وے پر مبینہ پولیس انکاؤنٹر کے حوالے سے تعزیرات پاکستان کی مختلف دفعات کے تحت مقدمے کی تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔
انکوائری کمیٹی کی سربراہی ایڈیشنل آئی جی حیدر آباد ڈاکٹر جمیل احمد کریں گے جبکہ ڈی آئی جی میرپورخاص ذوالفقار لارِک اور ایس ایس پی کشمور امجد احمد شیخ بھی اس کمیٹی کے رکن ہوں گے۔
ٹرمز آف انکوائری کے مطابق کمیٹی انکاؤنٹر کے اصلی یا جعلی ہونے کا تعین کرے گی، یہ مبینہ انکاؤنٹر میں قتل ہونے والے محمد عرفان کے مجرمانہ ریکارڈ کی بھی تصدیق کرے گی، جبکہ سکھر پولیس میں بےضابطگیوں اور مجرمانہ غفلت کا بھی تعین کیا جائے گا۔
کمیٹی کو جامع انکوائری رپورٹ مرتب کرکے 7 روز میں جمع کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
سیاسی، غیر سیاسی حلقوں کا واقعے کی جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ
قبل ازیں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما خرم شير زمان، سندھ بار کونسل اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) نے سکھر پولیس کے ہاتھوں سندھ یونیورسٹی کے طالب علم کے مبینہ قتل کی مذمت کرتے ہوئے واقعے کی جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کیا تھا۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما خرم شير زمان نے کہا کہ سندھ یونیورسٹی کے طالب علم عرفان جتوئی کے واقعے پر جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔
مزید پڑھیں: سندھ یونیورسٹی کے طالب علم کے پولیس حراست میں مبینہ قتل پر احتجاج
انہوں نے کہا کہ سندھ میں پولیس نے اپنی الگ ریاست قائم کی ہوئی ہے اور ماورائے عدالت قتل پر چیف جسٹس نوٹس لیں۔
خرم شیر زمان نے کہا کہ انکوائری رپورٹ تک ایس ایس پی سکھر سمیت دیگر ملوث پولیس اہلکاروں کو معطل کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ایس ایس پی سکھر راؤ انوار بننے کی کوشش کررہے ہیں۔
خرم شیر زمان نے عرفان جتوئی کے ورثا سے دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مقتول کا معاملہ سندھ اسمبلی سمیت ہر متعلقہ فورم پر اٹھائیں گے۔
علاوہ ازیں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے رہنما اور رکنِ سندھ اسمبلی نند کمار گوکلانی نے طالب علم کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ سندھ میں پولیس کے جعلی مقابلوں کی جوڈیشل انکوائری کرائی جائے اور ایس ایس پی سکھر کو گرفتار کیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ یونیورسٹی میں طالبہ کی ہلاکت پر احتجاج
انہوں نے کہا کہ طالب علم عرفان جتوئی کو یونیورسٹی سے اٹھا کے جعلی مقابلے میں قتل کیا گیا۔
نند کمار گوکلانی نے کہا کہ سندھ کو پولیس کی ریاست بنا دیا گیا ہے۔
دوسری جانب سندھ بار کونسل نے بلوچستان اور سندھ سے لاپتا ہونے والے افراد کے معاملے پر قرارداد منظور کرتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ سے مطالبہ کیا کہ ماورائے عدالت قتل کی تحقیقات کی جائیں۔
ایس بی سی کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ متعلقہ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر زور دیا کہ وہ اپنے متعین کردہ دائرہ اختیار میں رہ کر فرائض انجام دیں۔
مزید پڑھیں: سندھ یونیورسٹی: طالبہ کی مبینہ خودکشی پر آئی جی کا نوٹس
ایس بی سی نے اپنے بیان میں کہا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے بالخصوص سکھر کی ضلعی پولیس کے ہاتھوں طالبعلم کا مبینہ قتل افسوس ناک واقعہ ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ معاملے کی غیر جانبدار تحقیقات کرائی جائے۔
خیال رہے کہ سندھ یونیورسٹی کے ایک طالب علم کی لاش مبینہ طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی جانب سے حراست میں لیے جانے کے ایک ماہ بعد برآمد ہوئی تھی، جس پر سوشل میڈیا پر احتجاج کیا گیا تھا۔
طالب علم کے ساتھیوں اور سماجی کارکنوں نے سوشل میڈیا پر واقعے کی شدید مذمت کی تھی اور پولیس پر الزام عائد کیا تھا جبکہ پولیس نے دعویٰ کیا کہ وہ مطلوب جرائم پیشہ تھا اور 'فائرنگ کے تبادلے' میں مارا گیا۔
پولیس کا مؤقف
دوسری جانب سکھر پولیس کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ فش فارم جھانگڑو تھانے کی حدود میں پولیس سے مقابلے میں نوجوان مارا گیا۔
پولیس کے بیان کے مطابق ان کی شناخت عرفان علی کھروس کے نام سے ہوئی۔
سکھر پولیس کے ترجمان بلال لغاری کا کہنا تھا کہ مارا گیا نوجوان ایک 'خطرناک ڈکیت' تھا اور سکھر سمیت سندھ کے مختلف اضلاع میں کار چوری، ڈکیٹی، پولیس سے فائرنگ کے تبادلے اور دیگر تشویش ناک واقعات میں مطلوب تھا۔
بیان میں کہا گیا کہ مارے گئے نوجوان کی تفصیلات اور ان کا کریمنل ریکارڈ دیگر اضلاع سے بھی حاصل کیا جا رہا ہے۔
واقعے کی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) تاحال درج نہیں کی گئی۔