الیکشن کمیشن: یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کا نوٹیفکیشن روکنے کی استدعا مسترد
الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے سینیٹ انتخابات میں اسلام آباد کی نشست پر کامیاب ہونے والے یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کا نوٹیفکیشن روکنے کی استدعا مسترد کردی تاہم نااہلی کی درخواست کو 22 مارچ کو سماعت کے لیے مقرر کرتے ہوئے یوسف رضا گیلانی، علی حیدر گیلانی کو نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ سنا دیا ہے۔
علاوہ ازیں الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے درخواست گزاروں کو ہدایت کی کہ ویڈیو اسکینڈل میں نظر آنے والے افراد کو درخواست میں لازمی فریق بنایا جائے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اراکین قومی اسمبلی فرخ حبیب اور کنول شوذیب کی جانب سے ویڈیو معاملے پر ای سی پی میں سابق وزیراعظم اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سینیٹ انتخاب کے لیے مشترکہ امیدوار یوسف رضا گیلانی کی نااہلی اور ان کی کامیابی کا نوٹیفکیشن روکنے کے لیے درخواست دائر کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں:الیکشن کمیشن میں یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کیلئے درخواست دائر
علاوہ ازیں پی ٹی آئی کی رکن عالیہ حمزہ کی جانب سے بھی یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کے لیے علیحدہ درخواست دائر کی گئی تھی، ان دونوں درخواستوں پر الیکشن کمیشن کے رکنِ پنجاب کی سربراہی میں چار رکنی کمیشن نے سماعت کی۔
سماعت میں فرخ حبیب کے وکیل علی ظفر اور ملیکہ بخاری کے علاوہ عالیہ حمزہ کے وکیل عامر عباس نے دلائل دیے، جنہیں سننے کے بعد الیکشن کمیشن نے فیصلہ محفوظ کیا اور بعد ازاں اسے سنا دیا تھا۔
سماعت کا احوال
الیکشن کمیشن میں پہلے عالیہ حمزہ کی درخواست پر سماعت شروع ہوئی جس کے بعد دیگر درخواستیں بھی یکجا کردی گئیں۔
عالیہ حمزہ کی پیروی کرنے والے وکیل عامر عباس نے مؤقف اختیار کیا گزشتہ دو ماہ میں قوم نے الیکشن کمیشن کے اختیارات کا استعمال دیکھا ہے، الیکشن کمیشن کا کام شفاف اور منصفانہ انتخابات کرانا ہے، فیصلے بھی ایماندارنہ اور منصفانہ ہونے چاہیے۔
عامر عباس نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ڈسکہ میں دوبارہ پولنگ کا حکم دستیاب ریکارڈ پر دیا گیا، ڈسکہ معاملے میں بھی ویڈیوز پیش کی گئی تھیں اور ان ویڈیوز کا بھی فرانزک نہیں ہوا تھا۔
وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے قرار دیا تھا کہ ڈسکہ میں قتل ہوئے لیکن ابھی تک کسی کو سزا نہیں ملی، کمیشن کے فیصلے تک قتل کرنے والوں کا کچھ پتا نہیں تھا۔
عامر عباس نے کہا کہ اُمیدوار، الیکشن ایجنٹ یا ان کی جانب سے کوئی بدعنوانی کرے تو الیکشن کالعدم ہوگا، انتخابی بدعنوانی میں رشوت ستانی اور ووٹر پر اثر انداز ہونا شامل ہے۔
مزید پڑھیں: الیکشن کمیشن نے یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کا نوٹیفکیشن روکنے کی استدعا مسترد کردی
عالیہ حمزہ کے وکیل نے قانون شہادت کا حوالہ دیا تو رکن پنجاب نے کہا کہ آپ حقائق پر بات کریں، قانون کا ہمیں پتا ہے، قانون شہادت اور ضابطہ دیوانی مخصوص مقدمات کے لیے ہوتے ہیں۔
اس موقع پر الیکشن کمیشن کے رکنِ خیبر پختونخوا ارشاد قیصر نے کہا کہ اس کیس میں ملک کے مستقبل کا سوال ہے، سب اس ملک کی وجہ سے ہی آباد ہیں، حساس معاملہ ہے جو بھی فیصلہ کریں گے آزادانہ طور پر کریں گے۔
عامر عباس نے اعتراض کیا کہ ڈسکہ والے کیس میں بھی ویڈیوز اور شواہد کو پرکھا نہیں گیا، جس پر الیکشن کمیشن کے رکنِ پنجاب الطاف قریشی نے کہا کہ ڈسکہ والا کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے، اس فیصلے پر انحصار نہ کریں وہ چیلنج ہوُچکا ہے۔
عامر عباس نے کہا کہ سپریم کورٹ نے شفاف اور منصفانہ انتخابات کی ہدایت کی تھی، میرا کیس یہ نہیں کہ رشوت دینے والے کو جہنم میں بھیجنا ہے، سزا اور جزا کا فیصلہ فوجداری کیس میں ہوگا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے صرف انتخابی عمل کی شفافیت کو دیکھنا ہے، الیکشن سے پہلے ہی کمیشن کو درخواست مل چکی تھی، مریم نواز نے کہا کہ میرا ٹکٹ چلا۔
عامر عباس نے کہا کہ یوسف رضا گیلانی کے بیٹے نے ٹی وی پر ویڈیو کو تسلیم کیا تھا، کرپٹ لوگوں کو پارلیمان میں داخلے سے روکنا الیکشن کمیشن کا کام ہے اور اس کے سامنے بولیاں لگتی رہی ہیں، پورے پاکستان کی نظریں الیکشن کمیشن پر ہیں۔
عامر عباس کا کہنا تھا کہ بیلٹ پیپر قابل شناخت نہیں تو کیا کرپشن کی اجازت دے دیں؟ میڈیا پر کوئی اعتراف کرے تو اسے بطور ثبوت قبول کیا جاتا ہے، چار چار سال ٹربیونلز کے فیصلے نہیں ہوتے۔
جس پر کمیشن کے رکن پنجاب الطاف قریشی نے کہا کہ فیصلوں میں تاخیر کی ذمہ دار ہمیشہ عدالت نہیں ہوتی۔
یہ بھی پڑھیں: ڈسکہ انتخاب: سپریم کورٹ نے فوری حکم امتناع کی درخواست مسترد کردی
جس پر وکیل نے کہا کہ جب حقائق تسلیم شدہ ہوں تو فرانزک کی ضرورت نہیں ہوتی، فوزیہ ارشد کو حفیظ شیخ سے زیادہ ووٹ پڑے، جس پر رکن پنجاب بولے کہ یہی تو جمہوریت اور خفیہ ووٹنگ کا حسن ہے، عامر عباس نے جواب دیا کہ جمہوریت کے اسی حسن کی وجہ سے پیسوں کے بریف کیس چلے۔
الطاف قریشی نے کہا کہ بدقسمتی سے ہم اپنے ہی بندوں کو کہہ رہے ہیں کہ بک گئے، کل بھی حیدر گیلانی کی ویڈیو دیکھی اور پوچھا تھا نظر آنے والے کون ہیں؟ رشوت سے مستفید ہونے والے اصل ملزم ہیں علی حیدر گیلانی کی ویڈیو میں نوٹوں کی چمک نہیں تھی۔
عامر عباس نے کہا کہ جس کو آپ حُسن کہہ رہے ہیں وہ مطلق نہیں، رکن پنجاب نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں ہی خفیہ ووٹنگ کا فیصلہ کیا، الیکشن کمیشن کے فیصلے پر اعتراض ہے تو چیلنج کر دیں۔
بعدازاں کمیشن نے یوسف رضا گیلانی کے خلاف فرخ حبیب اور دیگر کی درخواست پر بھی سماعت کی جس میں بیرسٹر علی ظفر نے جمیل احمد اور فہیم خان کے بیان حلفی جمع کروائے۔
فرخ حبیب کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ویڈیو میں موجود افراد کو فریق نہیں بنانا چاہتے، علی حیدر گیلانی کی ویڈیو میں جمیل احمد اور فہیم خان موجود ہیں۔
رکن پنجاب الطاف قریشی نے استفسار کیا کہ یہ کیسے ثابت کریں گے کہ وہ دونوں ہی ہیں ویڈیو میں؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ ان کے بیان حلفی جمع کروا دیے ہیں جس میں دونوں نے اعتراف کیا ہے۔
رکن خیبرپختونخوا نے کہا کہ ہم نے کہا تھا کہ ترمیم شدہ درخواست میں جمیل احمد اور فہیم خان کو فریق بنایا جائے۔
جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہم نے فریق نہیں بنایا، ان کے بیان حلفی دیے ہیں، ان دونوں نے ویڈیو میں کی جانے والی پیش کش قبول نہیں کی اور جمیل احمد نے بیان حلفی میں کہا ہے کہ ویڈیو اس نے بنائی۔
رکن خیبرپختونخوا نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ بیان حلفی پر اوتھ کمشنر کی مہر نہیں لگی، کیسے درست مان لیں ساتھ ہی رکن پنجاب نے کہا کہ بیان حلفی کے ساتھ شناختی کارڈ کی کاپی ہے نہ اوتھ کمشنر کی تصدیق ہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو شک ہے تو انکوائری کروا لے، ویڈیو بنانے والے کمیشن میں گواہ بننا چاہتے ہیں۔
رکن پنجاب نے استفسار کیا کہ رشوت لینے والا ملزم ہوتا ہے یا گواہ؟ جس پر بیرسٹر علی ظفر بولے کہ ویڈیو میں موجود اراکین اسمبلی ہماری نظر میں ملزم نہیں، علی حیدر گیلانی کی پیشکش مسترد کی گئی تھی، ہمارا کیس رشوت کی پیشکش کرنے کو ثابت کرنا ہے۔
مزید پڑھیں: ویڈیو کا معاملہ: الیکشن کمیشن میں علی حیدر گیلانی کےخلاف درخواست سماعت کیلئے مقرر
رکن سندھ نثار درانی نے دریافت کیا کہ کیا یہ ویڈیو اسٹنگ آپریشن ہے؟ جس پر علی ظفر نے کہا کہ ویڈیو خود بنائی گئی اسے اسٹنگ آپریشن نہیں کہا جا سکتا، اسٹنگ آپریشن میڈیا والے اپنی کارروائی کو کہتے ہیں۔
رکن خیبر پختونخوا نے کہا کہ سپریم کورٹ کے سابقہ فیصلوں کی روشنی میں یہ ویڈیو مکمل ثبوت نہیں ہے، یہ ویڈیو ثبوت کا حصہ ہے، مکمل ثبوت نہیں۔
بیان حلفی میں پی ٹی آئی رکن جمیل احمد نے کہا کہ علی حیدر گیلانی نے مجھے ملنے کے لیے بلایا تھا اور میں نے ملاقات کی ویڈیو بنائی، جمیل احمد کا کہنا تھا کہ علی حیدر گیلانی نے اپنے والد کی ایما پر ایسا کیا۔
ملیکہ بخاری نے اپنا مؤقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ علی حیدر گیلانی نے ایم این ایز کو پیکج دینے کی بات کی، الطاف قریشی نے سوال کیا کہ جس پیکج کی بات ہو رہی ہے وہ کیا ہے؟ جس پر ملیکہ بخاری نے بتایا کہ 10، 10 کروڑ کے ترقیاتی کاموں اور 5 سے 6 کروڑ روپے کی آفر کی گئی۔
رکن خیبر پختونخوا ارشاد قیصر نے کہا کہ کیا جمیل احمد اور فہیم خان نے آفر قبول کی؟
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ دونوں کو پیشکش کی گئی تھی جو جرم ہے، جیسا کہ قتل کرنے کی کوشش کرنا بھی جرم ہے صرف قتل ہونا نہیں اور علی حیدر گیلانی نے اپنی ویڈیو بھی تسلیم کر لی ہے۔
پی ٹی آئی وکیل نے کہا کہ ویڈیو میں موجود افراد کی 2 مارچ کو شناخت نہیں ہوسکی تھی، جمیل احمد اور فہیم خان الیکشن کمیشن میں پیش ہونے کو تیار ہیں، جمیل احمد کا بیان حلفی ہے کہ ووٹ کیلئے علی حیدر گیلانی نے ملاقات کی اور ساری گفتگو ریکارڈ کر لی۔
دلائل جاری رکھتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ ایم این اے فہیم خان بھی موجود تھے لیکن انہوں نے ویڈیو نہیں بنائی، بینظیر بھٹو کے خلاف کیس میں جج کی آڈیو ریکارڈنگ سامنے آئی تھی اور سپریم کورٹ نے آڈیو سننے کے بعد فیصلہ کالعدم قرار دیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ آڈیو کی تردید نہ آنے پر سپریم کورٹ نے فیصلہ کالعدم کیا، جب یوسف رضا گیلانی نے تردید نہیں کی تو کمیشن کیسے ویڈیو کو مسترد کر سکتا ہے؟
علی ظفر کا کہنا تھا کہ ڈسکہ کیس میں کمیشن نے کہا ہم جمہوریت کے محافظ ہیں، کمیشن نے ڈسکہ میں از خود نوٹس لیا اور نتائج روک دیے، اس وقت کمیشن نے ٹی وی دیکھ کر ہی فیصلے کیے تھے۔
جس پر رکن خیبر پختونخوا نے کہا کہ کلمہ پڑھ کر کہتے ہیں کہ ہم نیوٹرل ہیں جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ میرا نقطہ یہ نہیں کہ کمیشن نیوٹرل نہیں ہے۔
ارشاد قیصر نے کہا کہ ڈسکہ میں تو پریذائڈنگ افسران لاپتا ہوگئے تھے جس پر علی ظفر نے کہا کہ ریٹرننگ افسر نے 20 اسٹیشنز پر دوبارہ پولنگ کی سفارش کی تھی۔
وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ ڈسکہ کیس کی سماعت میں کمیشن نے ویڈیوز دیکھ کر فیصلہ کیا تھا اور کسی ویڈیو کی تصدیق نہیں کرائی تھی جس پر ارشاد قیصر نے کہا کہ آر او اور ڈی آر او کی بات ہمارے لیے براہ راست ثبوت ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ویڈیو میں پیسوں کی کوئی بات نہیں کی، ان ایم این ایز سے کئی بار مل چکا ہوں، علی حیدر گیلانی
بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن شواہد سامنے آنے پر تحقیقات کر سکتا ہیں، رکن پنجاب الطاف قریشی نے کہا کہ کسی ویڈیو کو غلط نہیں کہا، جائزہ لیں گے آج فیصل واڈا کا نوٹیفکیشن روکنے کی استدعا بھی کی گئی تھی، ہمارے پاس تو بہت درخواستیں آئیں کیا تمام سینیٹرز کے نوٹیفکیشن روک لیں؟
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ڈسکہ میں بھی کمیشن نے شواہد ملنے پر رزلٹ روکا تھا۔
پی ٹی آئی وکیل نے کہا کہ مریم نواز نے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ دینے کی پیشکش تسلیم کی، ساتھ ہی پی ٹی آئی نے راجا پرویز اشرف کی ویڈیو بھی پیش کی۔
علی ظفر نے دلائل دیے کہ راجا پرویز اشرف نے کہا تھا کہ ہم سے لوگوں نے ایڈوانس پکڑا ہے ساتھ ہی دوران سماعت آصف زرداری کے انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ زرداری نے کہا تھا کہ فرق 5 کا ہے 20 کا ہونا چاہیے تھا۔
جس پر کمیشن کے رکن پنجاب الطاف قریشی نے کہا کہ راجا پرویز اشرف نے ایوان میں بیان دیا تھا، اسپیکر اور سیاسی جماعتیں پرویز اشرف کے بیان پر خاموش کیوں تھیں؟
سماعت میں ملیکہ بخاری نے کہا کہ بادی النظر میں انتخابی بدعنوانی کو تسلیم کیا گیا، کرپٹ شخص ایک دن بھی ایوان میں گیا تو ماحول آلودہ ہوگا، گیلانی سینیٹ کا حصہ بنے تو عوام اور ملک کا نقصان ہوگا۔
درخواست کا پس منظر
خیال رہے کہ 3 مارچ کو اپوزیشن کے متفقہ امیدوار یوسف رضا گیلانی نے حکومتی امیدوار عبدالحفیظ شیخ کو سینیٹ انتخابات میں اسلام آباد کی نشست پر شکست دے دی تھی۔
اس سے قبل 2 مارچ کو رہنما پیپلز پارٹی کے بیٹے علی گیلانی کی ایک ویڈیو منظر عام پر آئی تھی جس میں وہ پی ٹی آئی کے چند اراکین اسمبلی کو ووٹ ضائع کرنے کا طریقہ بتارہے تھ، بعدازاں انہوں نے ایک پریس کانفرنس کرتے ہویئ ویڈیو کے اصل ہونے کی تصدیق کی تھی اور کہا تھا کہ انہوں نے کچھ غلط نہیں کیا اور ان کا ضمیر صاف ہے۔
مذکورہ ویڈیو پر یوسف رضا گیلانی نے اپنے بیٹے کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہر رکن سے ووٹ مانگنا ان کا جمہوری حق ہے اور حکمراں جماعت کو اپنے اراکین کا خود خیال رکھنا چاہیے۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کیخلاف دائر درخواست مسترد
اس معاملے پر پی ٹی آئی اراکین اسمبلی نے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں یوسف رضاگیلانی اور ان کے بیٹے کی نااہلی کے لیے درخواستیں دائر کی تھیں۔
الیکشن کمیشن میں دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ الیکشن کمیشن کرپٹ پریکٹس سے محفوظ بناتے ہوئے منصفانہ اور آزادانہ انتخابات کروانے کا پابند ہے۔
درخواست گزاروں کے مطابق یوسف رضا گیلانی اور ان کے بیٹے کرپٹ پریکٹسز کے مرتکب ہوئے اور الیکشن ایکٹ کی دفعہ 174 کے تحت سزاوار ہیں۔
ساتھ ہی یہ استدعا کی گئی تھی کہ یوسف رضا گیلانی کو قانون و آئین کی خلاف ورزی کرنے اور بیٹے کے ساتھ مجرمانہ سرگرمی میں ملوث ہونے پر نااہل قرار دیا جائے۔