پاکستان

آڈٹ رپورٹ میں حکومتِ سندھ پر 9 ارب روپے سے زائد کے ‘فراڈ’ کا الزام عائد

مالی سال 21-2020 کے مجموعی 289 ارب روپے کے اے ڈی پی میں سے سندھ نے صرف 90 ارب روپے استعمال کیے، آڈٹ رپورٹ

کراچی سندھ آڈٹ کے ڈائریکٹر جنرل میانداد راہوجو نے گورنر سندھ عمران اسمٰعیل سے ملاقات کی اور انہیں سال 21-2020 کے لیے صوبائی محکموں کی آڈٹ رپورٹ اور 9-2008 سے 19-2018 تک کے صوبائی محتسب کی خصوصی آڈٹ رپورٹ پیش کی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سرکاری ذرائع کے مطابق آڈٹ چیف نے گورنر کو بتایا کہ مالی سال 21-2020 کے مجموعی 289 ارب روپے کے سالانہ ترقیاتی پروگرام (اے ڈی پی) میں سے سندھ حکومت نے صرف 90 ارب روپے استعمال کیے جو گزشتہ تین سالوں میں سب سے کم ہے۔

اسی طرح 13 کھرب روپے کے مجموعی منصوبہ بند بجٹ میں سے صوبائی حکومت نے اب تک 894 ارب روپے یعنی 68 فیصد کے قریب استعمال کیا ہے۔

مزید پڑھیں: 'نیب ریفرنس میں میرے خلاف ایک سطر بھی مالی بدعنوانی کی نہیں ہے'

9 ارب 20 کروڑ روپے کا فراڈ

آڈٹ رپورٹ کے مطابق حکومت سندھ نے مذکورہ مدت کے دوران مبینہ طور پر 9 ارب 24 کروڑ روپے سے زائد کا فراڈ، غبن اور غلط استعمال کا ارتکاب کیا۔

مختلف شعبوں میں مبینہ بے ضابطگیوں کے بارے میں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت سندھ نے 5 ارب 27 کروڑ روپے ایچ آر / ملازمین سے متعلق بے ضابطگیاں، تجارتی بینکوں میں اکاؤنٹس کے انتظام سے متعلق ایک ارب 72 کروڑ روپے سے زائد کی بے ضابطگیاں، خدمات کی فراہمی سے متعلق 31 کروڑ 50 لاکھ سے زائد کی بے ضابطگیاں اور 12 کروڑ 20 لاکھ روپے سے زائد دیگر بے ضابطگیاں کیں۔

آڈٹ رپورٹ میں سندھ حکومت پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ جانچ پڑتال کے لیے اربوں روپے کا ریکارڈ فراہم کرنے میں ناکام رہی۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ میں بدعنوانی انتہا کو پہنچ چکی ہے،وسیم اختر

آڈٹ میں سال کے آخر میں بجٹ کی ریلیز سے متعلق امور بھی پائے گئے جس کے نتیجے میں 'جون کے آخر میں اخراجات میں تیزی آئی جس سے قواعد کی تعمیل سے انحراف' کیا گیا۔

اس رپورٹ میں 'حکومت سندھ کی اندرونی کمزوری اندرونی کنٹرول اور مالی انتظام کے ناقص عمل' کا بھی انکشاف کیا گیا۔

رپورٹ میں ریونیو میں اضافے اور صوبائی ٹیکس بنیاد کو وسیع کرنے اور عوامی پیسے خرچ کرنے میں قوانین کی تعمیل اور نئی تقرریاں کرنے کے لیے سنجیدہ کوششوں کی سفارش کی گئی۔

محتسب کے خصوصی آڈٹ میں بے ضابطگیاں پائی گئیں

سندھ محتسب کے خصوصی آڈٹ میں (9-2008 سے 19-2018 تک) بھرتیوں اور دیگر معاملات میں قوانین اور قواعد کی مبینہ سنگین خلاف ورزی ظاہر ہوئی۔

آڈٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ چھ مشیران اور اتنے ہی کنسلٹنٹس کو 'بغیر اشتہار اور اہلیت کے معیار کے مقرر کیا گیا تھا۔

انہوں نے بغیر ضروری کارروائی کیے 14-2013 کے بعد کنسلٹنٹ فیروز خان کو ڈائریکٹر جنرل خزانہ تقرر کیے جانے کی نشاندہی کی'۔

اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اشتہارات دیے بغیر اور مقررہ عمل کی پیروی کے بغیر 16 علاقائی ڈائریکٹرز کو مقرر کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: 'ملک میں بدعنوانی کی جڑیں گہری ہیں، محض ڈھائی برس میں ختم نہیں ہوسکتیں'

آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا کہ 'چند علاقائی ڈائریکٹر 2006 سے معاہدے کی بنیاد پر کام کر رہے ہیں'۔

شفافیت کے لیے آڈٹ ضروری ہے، گورنر

دریں اثنا ایک سرکاری بیان میں کہا گیا کہ گورنر سندھ نے ڈی جی آڈٹ سے ملاقات کے دوران مشاہدہ کیا کہ سرکاری اداروں اور منصوبوں میں شفافیت برقرار رکھنے کے لیے آڈٹ کا مؤثر انتظام ضروری ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'عوامی فنڈز کا ضیاع اور غلط استعمال کی نشاندہی کرکے بدعنوانی پر قابو پایا جاسکتا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ ملازمین کی تنخواہوں اور پینشن اور ریٹائرڈ ملازمین کی دیگر واجبات کے نظام کو کمپیوٹرائزڈ کرنا ایک 'اچھا قدم' ہے۔

عمران اسمٰعیل کا خیال تھا کہ آڈٹ کے دوران نشاندہی کی گئی بے ضابطگیوں پر بروقت کارروائی سے اداروں کی کارکردگی مزید مؤثر ہوسکتی ہے جبکہ عوامی فنڈز کے آڈٹ کا نظام مزید مؤثر بنایا جاسکتا ہے۔

پیپلز پارٹی میں سابق فاٹا سے آزاد سینیٹر شمیم آفریدی کی شمولیت

60 ارب روپے سے زائد کی غیر ٹیکس شدہ غیر ملکی آمدن کا سراغ لگالیا گیا

روس کی پاکستان کو افغان امن عمل سے متعلق اجلاس میں شرکت کی دعوت