نقطہ نظر

بچپن سے پچپن: کالا چھپرا اور کالا چھوکرا (چوتھی قسط)

اس زمانے میں بھی قائد آباد سے صدر تک خاص اسٹاپ ملیر، ڈرگ کالونی اور گورا قبرستان تھے، لیکن ان میں ’کالا چھپرا‘ بھی ہوا کرتا تھا۔

اس سیریز کی بقیہ اقساط: پہلی قسط، دوسری قسط، تیسری قسط، پانچویں قسط، چھٹی قسط


ابّا کی دکان بڑا بورڈ منگھوپیر روڈ پر تھی اور انہیں وہاں روزانہ پیدل جانا پڑتا تھا۔ ہم بھی کبھی کبھی ابّا کے لیے کھانا لے کر دکان تک پیدل ہی جاتے تھے۔ راستے میں گجرو نالہ، گولیمار اور کھجی گراؤنڈ آتا تھا اور پھر پاک کالونی سے ہوتے ہوئے ہم چمن سنیما کے سامنے مین روڈ کے پار اس سڑک پر چل پڑتے کہ جو گبول گوٹھ کی طرف جاتی تھی۔

یہ اچھا خاصا فاصلہ بنتا تھا اور ہم ابّا کی دکان تک پہنچتے پہنچتے بہت تھک جاتے تھے۔ اس لیے ہم لالو کھیت کے محمدی گوٹھ میں زیادہ دن نہیں رہے۔ ایک دن ابّا نے اطلاع دی کہ انہوں نے وہیں بڑا بورڈ پر ایک ایسا گھر کرائے پر لے لیا ہے جس میں ایک دکان بھی ہے۔

چند دن بعد ہی ہم نے محمدی گوٹھ کو خیرباد کہا اور بڑا بورڈ کے اس عمدہ مکان میں منتقل ہوگئے۔ اسکول البتہ وہیں لالو کھیت میں ہی رہ گیا اور نئے محلے میں ہمارے دن صرف کھیل کود میں گزرنے لگے۔

یہ محلہ تھا بھی بڑا پُرسکون اور پُرامن۔ لوگ ایک دوسرے کا خیال رکھتے تھے۔ وہ سکون اور خوشی کے دن تھے لیکن یہ سکون عارضی ثابت ہوا۔ بڑا بورڈ پر رہتے ہوئے چند ہی ماہ گزرے ہوں گے کہ کراچی میں اچانک سندھی مہاجر فساد شروع ہوگیا۔ خصوصاً لیاقت آباد اور اس کے اطراف والی آبادیوں میں حالات زیادہ خراب ہوئے۔ ہم زندگی میں پہلی دفعہ ’کرفیو‘ کی اصطلاح سے متعارف ہوئے۔ منگھوپیر روڈ پر بھی کرفیو لگنے لگا جس کے وقفے میں دکانیں تیزی سے کھلتیں، لوگ آناً فاناً خرید و فروخت کرتے اور گھنٹے دو گھنٹے میں یہ وقفہ ختم ہوجاتا۔ لوگ لمحوں میں منظر سے غائب ہوجاتے تو ایک ہولناک سناٹا چھا جاتا جسے کبھی کبھی گلی میں سے گزرنے والا فوجی ٹرک توڑ دیتا۔

ہم اس سڑک پر رہتے تھے کہ جو گبول گوٹھ کی طرف جاتی تھی، اس لیے یہاں پر سندھی مہاجر فساد کا خدشہ زیادہ تھا۔ ویسے تو ہم پڑوسیوں سے بہت اچھا اور محبت آمیز تعلق قائم کرچکے تھے لیکن اس کے باوجود ابّا کو دوستوں نے یہی مشورہ دیا کہ آپ سندھی ہیں اس لیے کوئی خطرہ مول نہ لیں اور یہاں سے کسی ایسے علاقے میں منتقل ہوجائیں جہاں لسانی فساد کا خطرہ نہ ہو۔

چنانچہ ایک دن صبح کرفیو کے وقفے میں ایک ٹرک ہمارے دروازے پر آکر کھڑا ہوگیا۔ گھر کا سارا سامان ساتھ آئے ہوئے مزدوروں نے کچھ ہی دیر میں ٹرک پر لاد دیا۔ ہم سب بھی ٹرک کے اگلے حصے میں بنے کمپارٹمنٹ میں سوار ہوگئے اور کرفیو کا وقفہ ختم ہونے سے پہلے پہلے فساد زدہ علاقوں سے دُور نکل آئے۔

ٹرک لسبیلہ، تین ہٹی، پیر کالونی اور نیو ٹاؤن سے ہوتا ہوا ڈالمیا تک پہنچا اور پھر مزید آگے بڑھتے ہوئے ڈرگ روڈ، ناتھا خان، اسٹار گیٹ اور ملیر تک آیا۔ ملیر ندی کا پل عبور کیا، قائد آباد پر ریلوے پھاٹک کو بھی عبور کیا اور لانڈھی ماچس فیکٹری کے محلے میں پہنچ گیا۔ یہاں لانڈھی ریلوے اسٹیشن کے پاس ریلوے لائن کے برابر میں ایک کچی سی آبادی تھی جس میں ابّا نے 2 کمروں کا ایک بے پلستر سا مکان 15 روپے مہینہ کرائے پر لیا تھا۔ ہم جو لالو کھیت اور بڑا بورڈ کی نسبتاً جدید اور پڑھی لکھی آبادیوں میں کچھ دن گزار چکے تھے، اس کچی آبادی کو دیکھ کر بڑے مایوس ہوئے، لیکن کیا کرتے کہ اس علاقے کی خصوصیت یہاں کا ’امن و امان‘ تھا۔

مزید پڑھیے: ’مجھے کراچی کی وہ سہانی بارشیں بہت یاد آتی ہیں‘

شہر میں سندھی مہاجر فساد کچھ عرصہ جاری رہے لیکن ہم قائدآباد کے پُرامن حصار میں ہر طرح کی بدامنی سے بے نیاز ہوکر زندگی گزارنے لگے۔ اس گھر میں رہتے ہوئے ابھی کچھ ہی دن گزرے ہوں گے کہ گاؤں سے ہمارے رشتے دار آگئے۔ ماما گل محمد، ماما امام بخش اور چاچا غلام حسین۔ ان لوگوں کی آمد کا صرف یہی مقصد تھا کہ وہ ابّا اور امّاں کو گاؤں واپس چلنے پر رضامند کریں۔ کراچی میں لسانی فسادات کا خدشہ ان کے اس مطالبے کا بنیادی نکتہ اور دلیل تھی۔ وہ امّاں اور ابّا کو ہم سب بچوں کے لیے ایک پُرامن مستقبل کی طرف بلانا چاہ رہے تھے۔

ابّا تو شاید واپسی کے لیے تیار بھی ہوجاتے لیکن امّاں نے انکار کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی نئے شہر میں بسنے کے لیے کم از کم 3 سال درکار ہوتے ہیں۔ اگر 3 سال میں اس شہر نے ہمیں اپنا لیا تو ٹھیک، ورنہ واپسی کا راستہ اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ امّاں کی اس دلیل کے سامنے وہ سب خاموش ہوگئے اور ایک دو دن مزید گزار کر گاؤں واپس چلے گئے۔

ابّا نے پہلے تو وہیں ماچس فیکٹری والے محلے کے بازار میں ایک ٹیلرنگ شاپ کھولی، لیکن وہ دکان ایک دو مہینے ہی چلا کر بند کردی۔ اب انہوں نے قائدآباد پر ریڈیو پاکستان کالونی کے سامنے ٹھٹہ روڈ پر دکان کھول لی تھی۔ ہم چند ماہ اور ماچس فیکٹری والے مکان میں رہے، لیکن پھر ہم بھی ابّا کی دکان کے پیچھے والے محلے میں ایک نسبتاً بڑے گھر میں اٹھ آئے۔ اس گھر کا کرایہ ماچس فیکٹری والے گھر سے 3 روپے زیادہ تھا۔ ہمیں معلوم نہ تھا کہ اب ہمیں اگلے کئی سال اسی گھر میں گزارنے ہیں۔ یہاں ابّا مطمئن تھے کیونکہ یہاں لسانی فساد کا کوئی دھڑکا نہ تھا۔

ابّا کی دکان بھی یہاں اچھی چل نکلی۔ ہم جس مکان میں 18 روپے مہینہ کرایہ دے کر رہتے تھے اس کا مالک ابّا کا دوست بن گیا۔ اس نے ابّا سے کہا کہ حافظ صاحب ڈھائی ہزار روپے میں مجھ سے یہ مکان لے لو اور کرایہ دینے سے جان چھڑاؤ۔ ابّا نے یہ بات امّاں کے گوش گزار کی تو انہوں نے سال بھر کی جمع پونجی لاکر ابّا کے سامنے رکھ دی۔ یہ 22 سو روپے تھے، یعنی 3 سو روپے کم تھے۔ ٹھیکے دار اللہ بخش نے کہا کہ باقی پیسے 50 روپے مہینہ کے حساب سے دے دو۔ معاہدہ ہوگیا اور ہم گھر کے مالک بن گئے۔

ان دنوں سفر کرنا اتنا آسان نہیں تھا۔ نہ شہروں کے درمیان سڑکیں اتنی اچھی تھیں کہ ان پر بسوں میں سفر کیا جاسکے، نہ ایسی کوئی بسیں ہی چلتی تھیں کہ جو دُور دراز کی منزلوں تک پہنچا سکیں۔ سفر کا بس ایک ہی ذریعہ ہوتا تھا، ریل گاڑی اور وہ بھی اس زمانے میں آہستہ آہستہ چلتی تھی اور ہر اسٹیشن پر رکتی تھی، بلکہ جا بجا بغیر اسٹیشن کے بھی کھڑی ہوجایا کرتی تھی اور ذرا ذرا سے فاصلوں میں بھی پورا پورا دن لگ جاتا تھا، اس لیے لوگ عام طور پر سفر سے گھبراتے تھے۔ چنانچہ ہمارے رشتے دار بھی بہت کم کراچی آتے تھے۔ بس خط کے ذریعے جو رابطہ ہوجاتا وہ ہوجاتا۔ ہاں البتہ ایک سفر ایسا ضرور تھا کہ دشواریوں اور مشکلات کے باوجود ہر شخص کے دل میں اس سفر پر جانے کی تمنا شدت سے موج زن رہتی تھی، اور وہ تھا حج کا سفر۔

مزید پڑھیے: یادیں سہانی، عیدیں پرانی

1970ء اور 1980ء کی دہائی تک عام طور سے لوگ بحری جہاز کے ذریعے ہی حج پر جاتے تھے اور اس کے لیے ملک بھر سے حاجیوں کو کراچی آنا پڑتا تھا، کیونکہ بندرگاہ کراچی میں تھی۔

سفینہ حجاج، سفینہ عرب اور سفینہ عابد، یہ تینوں اس زمانے کے معروف مسافر بردار بحری جہاز تھے جو ہر سال ہزاروں حاجیوں کو بھر بھر کر کراچی سے جدہ پہنچاتے تھے۔ آج کے حساب سے سوچا جائے تو اس زمانے کا حج سستا لگے گا لیکن ہمیں یاد ہے کہ اس وقت بھی لوگ مہنگائی سے پریشان ہوکر کانوں کو ہاتھ لگاتے تھے۔ حاجی بھی یہی کہتے کہ حج مہنگا ہوگیا ہے۔ لیکن ہمارے ماما امام بخش نے ایک دن انکشاف کیا کہ حج تو سستا ہوتا جا رہا ہے۔ ہم تو بڑے حیران ہوئے اور پوچھا کہ وہ کیسے؟ کہنے لگے کہ سیدھی سی بات ہے، پہلے 4 سو من دھان بیچ کر حج ہوتا تھا اب 3 سو من دھان کے پیسوں میں ہی حج ہوجاتا ہے، تو حج سستا ہوا کہ مہنگا؟ بات تو ٹھیک ہی تھی۔ افراطِ زر کی شکار کاغذی کرنسی کے بجائے اگر بارٹر سسٹم پر اجناس کے سودے کیے جائیں تو آج بھی ہمیں کئی چیزیں پرانے دور کے مقابلے میں بہت سستی لگیں گی۔

بحری سفر کے حوالے سے اکثر لوگوں کے دل میں یہ خوف بھی ہوتا تھا کہ جہاز دورانِ سفر کہیں ڈوب نہ جائے، اور دوسرا غمگین کرنے والا خیال یہ ہوتا تھا کہ خدا نخواستہ اگر کوئی دوران سفر بیمار ہوکر انتقال کر گیا تو اس کا جسد قبر میں دفن کرنے کی بجائے سمندری لہروں کے حوالے کردیا جائے گا، جہاں اس کا نصیب بس مچھلیوں کی خوراک بننا ہی ہوگا۔ چنانچہ ان بحری مسافر حاجیوں کی روانگی کے وقت خوب رونا دھونا مچتا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ ان تمام تر خدشات پر خدا کے گھر پہنچنے کی آرزو ہی غالب رہتی تھی۔

ہمارے رشتے داروں میں بھی ہر سال کوئی نہ کوئی ضرور حج پر جاتا تھا اور ہم سارا سال ان دنوں کا انتظار کرتے تھے، کیونکہ ان حاجیوں کے ساتھ گاؤں سے کچھ الوداع کرنے والے بھی ضرور آیا کرتے تھے اور ان کے آنے سے گھر میں کئی دن رونق میلہ لگا رہتا تھا۔ عازمین حج تو بیچارے آنسو بہاتے کشاں کشاں سرزمین حجاز کی طرف روانہ ہوجاتے اور پیچھے رہ جانے والوں کے ساتھ ہمارے کراچی کے سیر سپاٹے شروع ہوجاتے۔

حاجی عام طور پر اپنی ضروریات کا تمام سامان یہیں سے اپنے ساتھ لے کر جاتے تھے۔ کپڑے، کھانے پینے کی اشیا، خشک راشن، گھی تیل، مصالحے، دوائیں، صابن، سرمہ اور اللہ جانے کیا کیا۔ امّاں اکثر حاجیانیوں کو اپنے ذاتی کپڑوں کے جوڑے دے کر کہتیں کہ یہ تم وہاں سوتے وقت پہننے کے لیے استعمال کرنا اور جب میلے ہوجائیں تو انہیں دھونا مت، پھاڑ کر وہیں حرمین کی فضاؤں میں اڑا دینا، ہوسکتا ہے کہ ان کپڑوں کی بوسیدہ کترنیں کبھی مجھے بھی وہاں اپنے پاس بلا لیں۔ یہ کہتے کہتے امّاں رونا شروع ہوجاتی تھیں۔

حاجیوں کو سفر سے کچھ دن پہلے کراچی آکر حاجی کیمپ میں بھی رہنا پڑتا تھا۔ ہمارے کچھ رشتے دار گاؤں سے آکر سیدھے حاجی کیمپ ہی چلے جاتے اور ہم ان سے ملنے کے لیے لانڈھی اسٹیشن سے ریل میں بیٹھ کر سٹی اسٹیشن جاتے اور وہاں سے پیدل حاجی کیمپ۔

ایک بار اسی طرح حاجیوں سے مل کر رات کو واپس آرہے تھے، امّاں اور ابّا کے ساتھ میں اور چھوٹا بھائی تھا۔ سٹی اسٹیشن پہنچ کر ابّا نے لانڈھی کے ٹکٹ لیے اور ہمیں پلیٹ فارم پر کھڑی ریل میں بٹھا کر اللہ جانے کس کام سے پلیٹ فارم پر اتر کر کچھ پیچھے گئے کہ ٹرین چل پڑی۔ ابّا تو شاید دوڑ کر پیچھے کسی ڈبے میں چڑھ گئے لیکن امّاں گھبرا کر دروازے سے باہر لٹک کر پیچھے دیکھنے لگیں۔ ٹرین نے ابھی معمولی رفتار ہی پکڑی ہوگی کہ امّاں کا ہاتھ چھوٹ گیا اور وہ ٹرین سے باہر زمین پر گر گئیں۔

ہم کھڑکی سے یہ دیکھ کر زور زور سے چیخنے لگے۔ ریل کا ٹی ٹی بھی شاید پچھلے ڈبے سے یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ اس نے فوراً ہی ٹرین کی زنجیر کھینچی اور گاڑی ایک جھٹکے سے رک گئی۔ لوگ اتر کر تیزی سے امّاں کی طرف لپکے اور ان میں سب سے آگے ہمیں ابّا نظر آئے۔ لوگ امّاں کے قریب پہنچے تو وہ گھبرا کر پہلے ہی اٹھ کھڑی ہوئیں۔ انہیں اپنے قدموں پر کھڑے دیکھ کر ہماری کچھ جان میں جان آئی۔ ابّا نے سہارا دے کر امّاں کو دوبارہ ڈبے میں چڑھا دیا اور گاڑی پھر چل پڑی۔ امّاں راستے بھر خوفزدہ اور خاموش بیٹھی رہیں۔ رات گئے گھر پہنچ کر دیکھا تو ان کے گھٹنے بُری طرح چھلے ہوئے تھے اور ان سے اب تک خون رس رہا تھا۔ یہ 1973ء کا قصہ ہے۔ آج تو امّاں کے انتقال کو بھی کئی سال گزر چکے ہیں لیکن آج بھی جب اس دن امّاں کے اس طرح زخمی ہونے کی یاد آتی ہے تو دل درد سے بھر جاتا ہے۔

مزید پڑھیے: کراچی جو اِک شہر تھا (نواں اور آخری حصہ)

رشتے دار گاؤں سے آتے تو ان کا ایک بڑا مقصد کراچی کی سیر بھی ہوتا تھا اور یہ سیر ہمیں ساتھ لے کر ہوتی تھی۔ ہم قائدآباد سے بس میں بیٹھ کر پہلے تو صدر ایمپریس مارکیٹ پہنچتے اور پھر وہاں سے کیماڑی یا کلفٹن جاتے یا پھر لی مارکیٹ کی بس میں بیٹھ کر گاندھی گارڈن پر اترتے اور چڑیا گھر کی سیر کرتے۔ کبھی کبھی لی مارکیٹ کی بس سے جیل روڈ پر اتر جاتے اور وہاں سے پیدل پیدل مزارِ قائد پہنچ جاتے اور شام کی ٹھنڈی ہواؤں میں جھومتے ناریل کے پتوں کے ساتھ ہم بھی اس وقت تک جھومتے رہتے جب تک مزارِ قائد کی روشنیاں بجھا نہ دی جاتیں۔

اس زمانے میں بھی آج کی طرح قائد آباد سے صدر تک خاص خاص اسٹاپ ملیر، وائر لیس گیٹ، اسٹار گیٹ، ڈرگ کالونی، ناتھا خان گوٹھ، ڈرگ روڈ، کارساز، نرسری، گورا قبرستان اور جیکب لائن ہوا کرتے تھے، لیکن ان میں ایک اور اہم اسٹاپ ’کالا چھپرا‘ بھی ہوا کرتا تھا کہ جس کے نام سے آج بہت کم لوگ ہی واقف ہوں گے البتہ 1970ء کی دہائی میں ڈرگ روڈ سے ملیر کی طرف جانے والی بسوں کے مسافر ’کالا چھپرا‘ کے بس اسٹاپ سے اچھی طرح واقف تھے۔

یہ اسٹاپ ناتھا خان گوٹھ اور ڈرگ کالونی کے درمیان آتا تھا۔ یہاں یا تو سول ایوی ایشن کالونی میں رہنے والے اترتے تھے یا شام کے وقت لگژری سنیما میں فلم دیکھنے کے خواہش مند اترا کرتے تھے۔ اس اسٹاپ کے قریب کراچی ایئر پورٹ کی حدود میں 1930ء سے 1960ء تک ایک بلند و بالا آہنی تعمیر ایستادہ ہوتی تھی جو دُور دُور سے نظر آیا کرتی تھی۔ اس دیو قامت آہنی ڈھانچے کا نام اس کی سیاہی مائل رنگت کے باعث ’کالا چھپرا‘ پڑ گیا تھا۔ 1960ء کی دہائی میں یہ عمارت غائب ہوگئی، مگر یہ بس اسٹاپ اگلے کئی سال ’کالا چھپرا‘ ہی کہلاتا رہا۔

یہ کالا چھپرا دراصل اس دور کی معروف ہوائی سواری ’ایئر شپ‘ کے اڈے کے طور تعمیر کیا گیا تھا۔ ایئر شپ ایک خاص قسم کا ہوائی جہاز ہوتا تھا جو گیس کے غبارے کی مدد سے اڑتا تھا۔ یہ ایک ایسا اڑن کھٹولا تھا جو انجنوں کے ذریعے چلنے والے تیز رفتار پنکھوں کی مدد سے اپنی منزل کی جانب پرواز کرتا تھا۔ سلطنتِ برطانیہ کی حدود جس دور میں انگلینڈ سے آسٹریلیا تک پھیلی ہوتی تھیں، ان دنوں ان ممالک کے درمیان جہاں بحری جہاز رواں دواں رہتے تھے، وہیں یہ ایئر شپ بھی مسافروں کو اپنے کھٹولے میں بٹھائے اڑے چلے جاتے تھے۔

1930ء میں اسی طرح کے ایک ایئر شپ کو لنگر انداز کرنے کے لیے کراچی ائیر پورٹ کی حدود میں یہ بلند ہینگر بنایا گیا تھا۔ اس جہاز کو برطانیہ سے اڑ کر آسٹریلیا تک جانا تھا اور درمیان میں کراچی میں بھی قیام کرنا تھا۔ 4 اکتوبر 1930ء کی شام 6 بجے یہ ایئر شپ اپنے 54 مسافروں کو لے کر انگلینڈ کے شہر کارڈنگٹن سے بلند ہوا مگر بدقسمتی سے 8 ہی گھنٹے بعد فنی خرابی کے باعث فرانس کی حدود میں گر کر تباہ ہوگیا۔ جہاز پر سوار 54 مسافروں میں سے صرف 6 زندہ بچے۔

ادھر کراچی میں اس جہاز کا بڑے جوش و خروش سے انتظار کیا جا رہا تھا اور اس کے کالے چھپرے پر اترنے کا نظارہ دیکھنے کے لیے کراچی کے باسی بے چین تھے، لیکن اس کی تباہی کا سن کر ان میں دکھ اور اداسی پھیل گئی۔ اس دن کے بعد سے اگلے 4 عشرے تک یہ ہینگر کسی اور جہاز کا انتظار کرتا رہا، لیکن نہ یہاں کسی جہاز کو آنا تھا، نہ آیا۔ ہینگر کھڑے کھڑے زنگ آلود اور کالا ہوگیا اور کراچی کے باسیوں نے اسے ’کالا چھپرا‘ کا نام دے دیا۔

1960ء کی دہائی میں ایوب دورِ حکومت میں اس دیو قامت آہنی ڈھانچے کا کراچی کے ایک بڑے کباڑی کے ساتھ اونے پونے سودا کرلیا گیا۔ اس کباڑی کے کارندے کئی دن تک اس ڈھانچے کو کاٹتے کوٹتے رہے اور بالآخر ایک دن کراچی کی یہ علامت کراچی کے افق سے غائب ہوگئی۔ کالا چھپرا اسٹاپ اگلے 20 سال تک پھر بھی قائم رہا، بالآخر وہ بھی تاریخ کے اوراق میں گم ہوگیا۔

ہم نے جس زمانے میں قائدآباد سے مرکز شہر تک بسوں میں سفر کرنا شروع کیا اس وقت کالا چھپرا معروف اسٹاپ ہوا کرتا تھا۔ بسیں جیسے ہی ناتھا خان گوٹھ سے آگے بڑھتیں کنڈکٹر کالا چھپرا، کالا چھپرا کی صدائیں لگا کر وہاں اترنے والے مسافروں کو خبردار کرنے لگتے۔ اگر اس وقت میں یا بڑے بھائی عبداللہ ساتھ ہوتے تو ماما گل محمد کو شرارت سوجھتی۔ ہمارا رنگ چونکہ خاصا سانولا ہوا کرتا تھا اس لیے ماموں ہمیں کہنی مار کر بولتے ’چلو اترو، تمہارا اسٹاپ آ گیا‘۔ ہم ہڑ بڑا کر ماموں کی طرف دیکھتے تو وہ مسکراتی آنکھوں کے ساتھ بولتے ’سن نہیں رہے ہو کنڈکٹر کالا چھوکرا کالا چھوکرا کی آواز لگا رہا ہے۔ اتر جاؤ جلدی سے ورنہ بس چل پڑے گی‘، وہ قہقہے لگاتے اور ہم ناراضگی سے منہ بسورتے رہ جاتے۔

عبیداللہ کیہر

عبیداللہ کیہر پیشے کے لحاظ سے میکینیکل انجینیئر، مگر ساتھ ہی سیاح، سفرنامہ نگار، پروفیشنل فوٹوگرافر اور ڈاکومنٹری فلم میکر ہیں۔ آپ کی اب تک 15 کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آبائی تعلق سندھ کے شہر جیکب آباد سے ہیں۔ عمر کا غالب حصہ کراچی میں گزارا اور اب اسلام آباد میں رہتے ہیں ۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔