طبی جریدے جرنل نیچر میں شائع تحقیق کے ابتدائی نتائج اس سے قبل جنوری میں پری پرنٹ سرور BioRxiv میں شائع ہوئے تھے۔
اس تحقیق کی نتائج نووا واکس ویکسین کے ٹرائل کے نتائج پر مبنی ہیں۔
28 جنوری کو کمپنی نے اپنی ویکسین کے ٹرائل کے نتائج جاری کرتے ہوئے بتایا تھا کہ یہ ویکسین برطانیہ میں ٹرائل کے دوران لگ بھگ 90 فیصد تک مؤثر رہی تھی مگر جنوبی افریقہ میں یہ افادیت محض 49.4 فیصد رہی تھی، جہاں بیشتر کیسز نئی قسم بی 1351 کے تھے۔
محققین نے بتایا کہ ہماری تحقیق اور نئے کلینکل ڈیٹا سے ثابت ہوتا ہے کہ وائرس اس سمت کی جانب سفر کررہا ہے جو اسے موجودہ ویکسینز اور طریقہ علاج سے بچنے میں مدد فراہم کرسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر وائرس کا پھیلاؤ تیزرفتاری سے جاری رہا اور اس میں مزید میوٹیشنز ہوئیں تو یہ ہمیں مسلسل کورونا وائرس کی ارتقا کا تعاب رکھنا ہوگا، جیسا انفلوائنزا وائرس کے ساتھ ہوتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس خیال کو دیکھتے ہوئے ضرورت ہے کہ جس حد تک جلد ممکن ہو وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جائے، تاکہ وہ اپنے اندر مزید تبدیلیاں نہ لاسکے۔
ویکسینیشن کے بعد مدافعتی نظام ردمل ظاہر کرتے ہوئے ایسی اینٹی باڈیز تیار کرتا ہے جو وائرس کو ناکارہ بناتی ہیں۔
محقین نے موڈرنا یا فائزر ویکسین استعمال کرنے والے افراد کے خون کے نمونوں میں اینٹی باڈیز کو برطانیہ میں دریافت کورونا کی قسم بی 117 اور جنوبی افریقہ میں دریافت بی 1351 اقسام کو ناکارہ بنانے میں کم مؤثر تھیں۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ان اقسام کے خلاف ویکسینز کی مجموعی افادیت میں لگ بھگ 2 گنا کمی آئی مگر جنوبی افریقہ قسم کے خلاف اس شرح میں ساڑھے 6 سے ساڑھے 8 گنا تک کمی آئی۔
محققین کا کہنا تھا کہ برطانوی قسم کے خلاف اینٹی باڈیز کی وائرس ناکارہ بنانے والی سرگرمیوں میں 2 گنا کمی سے نمایاں اثرات مرتب ہونے کا امکان نہیں کیونکہ دیگر اینٹی باڈیز سرگرمیاں اپنی جگہ کام کررہی ہوتی ہیں، جیسا ہم نے دیکھا کہ نووا واکس کے نتیجے میں ویکسین برطانوی قسم کے خلاف 85.6 فیصد تک مؤثر ثابت ہوئی۔
تاہم جنوبی افریقی قسم کے خلاف افادیت میں کمی زیادہ فکرمندی کا باعث ہے۔
محققین نے کہا کہ اس قسم کے خلاف اینٹی باڈیز کی سرگرمیوں میں کمی فکرمندی کا باعث ہے، کیونکہ اس سے ویکسین سے تحفظ کی شرح میں نمایاں کمی آتی ہے۔
اس تحقیق میں برازیل میں دریافت قسم بی 1128 کا تجزیہ نہیں کیا گیا تھا مگر اس میں بھی وہی میوٹیشنز موجود ہیں جو جنوبی افریقی قسم میں دریافت ہوئیں، تو امکان ہے کہ اس پر بھی ویکسینز کا اثر جنوبی افریقی قسم جیسا ہوسکتا ہے۔
محققین نے کہا کہ ہمیں وائرس کو نقول بنانے سے روکنا ہوگا اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ویکسین کو زیادہ تیزی سے لوگوں تک پہنچایا جائے اور احتیاطی تدابیر اور سماجی دوری پر عمل کیا جائے، جس سے وائرس میں مزید میوٹیشنز کی روک تھام کی جاسکے۔