’شانگلہ کے معذور افراد اب بھی کسی مسیحا کے منتظر ہیں‘
صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ میں علاقے ڈھیرائی کا رہائشی فہد قیموس روز صبح اپنے چھوٹے بچوں کی مدد سے وہیل چیئر پر گھر سے نکلتا ہے۔ جسمانی طور پر معذور ہونے کے باوجود وہ علاقے کے بازار میں اپنی چھوٹی سی دکان میں نسوار بیچ کر روزگار کماتا ہے۔
فہد کی ریڑھ کی ہڈی کو 2006ء میں اس وقت نقصان پہنچا تھا جب ضلع کوہاٹ کے علاقے چراٹ میں کوئلے کی کان میں ایک حادثہ رونما ہوا۔ فہد کا کہنا ہے کہ ’اس وقت میرا ایک بیٹا ابھی پیدا ہی ہوا تھا اور دوسرا محض 4 سال کا تھا۔ میں ان کی تعلیم کے خراجات برداشت نہیں کرسکتا تھا اس وجہ سے وہ اب اسکول نہیں جاتے۔ وہ دکان تک آنے اور نسوار تیار کرنے میں میری مدد کرتے ہیں‘۔ فہد کا دن گاہکوں اور دیگر دکانداروں سے بات چیت میں گزر جاتا ہے۔
شانگلہ میں فہد کوئی منفرد شخص نہیں ہے۔ یہاں جسمانی طور پر معذور افراد کی بڑی تعداد رہتی ہے جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔ یہ علاقہ اس وجہ سے الگ ہے کیونکہ یہ غربت کا مارا علاقہ ہے اور کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے ملک کے اکثر کان کنوں کا تعلق یہیں سے ہے۔
یہ کان کن کام کی تلاش میں سندھ اور بلوچستان تک بھی جاتے ہیں۔ یہاں موجود معذور افراد کی اکثریت کوئلے کی کانوں میں ہونے والے حادثات کے سبب معذور ہوئی ہے اور یہاں ریڑھ کی ہڈی کی چوٹیں غیر معمولی نہیں سمجھی جاتیں۔
محکمہ سماجی بہبود (ایس ڈبلیو ڈی) کے مطابق شانگلہ میں رواں سال جنوری تک 7 ہزار 456 معذور افراد رجسٹرڈ ہیں لیکن ان میں سے کسی کو بھی گزشتہ 4 سال کے دوران حکومت سے کسی قسم کی مالی امداد نہیں ملی ہے۔
احسان اللہ ایس ڈبلیو ڈی شانگلہ میں معاون ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں معذور افراد کی درخواستیں تو موصول ہورہی ہیں لیکن خیبر پختونخوا حکومت کے پاس فنڈز کی کمی کی وجہ سے اب تک کسی کی بھی مالی معاونت نہیں کی جاسکی۔
36 سالہ ملنگ جان اپنی شادی کے 4 ماہ بعد ہی 2006ء میں چکوال کی ایک کان میں ہونے والے حادثے میں زخمی ہوگئے تھے۔ انہوں نے پاکستان بیت المال اور ایس ڈبلیو ڈی میں متعدد درخواستیں جمع کروائیں لیکن انہیں کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ اپنے آبائی علاقے اولندر میں سہولیات کی کمی کی وجہ سے وہ سوات میں ایک کرائے کے گھر میں منتقل ہوگئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’میرے والد اور 4 بھائی بھی کان کن ہیں، کچھ سماجی کارکنوں کے ساتھ مل کر وہ میری مالی مدد کرتے ہیں جس سے میرا علاج اور گزر بسر ہوتا ہے‘۔
عزیز گل شانگلہ کے ضلعی بیت المال میں افسر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ضلعی سطح پر معذور افراد کے لیے کوئی فنڈ دستیاب نہیں ہیں لیکن شانگلہ کے کچھ لوگوں نے بیت المال کے اسلام آباد دفتر میں درخواستیں دی تھیں اور ان کی تصدیق کے بعد انہیں 10 سے 20 ہزار روپے کے چیک بھی دیے گئے ہیں۔
نیاز بادشاہ بھی جسمانی طور پر معذور ہیں اور ان کا 7 سالہ بیٹا نعمت اللہ گزشتہ 4 سالوں سے گردوں کی بیماری میں مبتلا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’وہ میری دنیا ہے لیکن میں اس کے لیے کچھ زیادہ کر نہیں سکتا۔ میرے والد نعمت اللہ کو مہینے میں ایک مرتبہ اسپتال لے جاتے ہیں اور اس کے لیے بھی انہیں قرض لینا پڑتا ہے‘۔ وہ اس انتظار میں ہیں کہ 3 دسمبر 2020ء کو وزیرِاعظم کی جانب سے کی گئی ٹوئیٹ کب حقیقت بنتی ہے جس میں وزیرِاعظم نے احساس کفالت پالیسی کے تحت 20 لاکھ معذور افراد کو ماہانہ 2 ہزار روپے دینے کا اعلان کیا تھا۔ مقامی ایس ڈبلیو ڈی اور بیت المال کو ابھی تک اس ضمن میں کوئی باضابطہ احکامات نہیں ملے ہیں۔
47 سالہ عبد الظاہر 2010ء میں ہونے والے ایک کان حادثے میں زخمی ہوگئے تھے۔ ان کے بیٹے کو پولیو ہے۔ اگرچہ ظاہر اور ان کا بیٹا اپنا اکثر وقت گھر پر ساتھ ہی گزارتے ہیں لیکن ان کی زندگیاں عام لوگوں سے بالکل مختلف ہیں۔ ظاہر کا کہنا ہے کہ ’میرے رشتہ دار اسپتال لے جانے کے لیے مجھے چارپائی پر چکیسر میں لنگبار روڈ تک لے کر جاتے ہیں۔ وہ گھر کا سودا اور ادویات خریدنے کے لیے ہماری مالی مدد بھی کرتے ہیں‘۔
بختمین بھی ایک کان میں ہونے والے حادثے میں زخمی ہوئے تھے۔ وہ پُران کے علاقے میں رہتے ہیں اور ان کے 7 بچے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’میں چاہتا ہوں کہ میری بیٹیوں کی شادی ہوجائے اور میرے بیٹے جو ابھی پرائمری اسکول میں ہیں تعلیم حاصل کرلیں لیکن میرے مالی حالات میری ان دونوں خواہشات کے آڑے آجاتے ہیں‘۔ بختمین نے بتایا کہ انہوں نے حکومت اور فلاحی اداروں کو مالی امداد کے لیے درخواستیں لکھیں ہیں لیکن اب تک کسی کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
مضدلفہ بھی چکیسر سے تعلق رکھنے والی ایک جسمانی طور پر معذور خاتون ہیں۔ وہ اپنے گھر والوں کا پیٹ بھرنے کے لیے کپڑے سینے کا کام کرتی ہیں۔ بختمین کی طرح وہ بھی چاہتی ہیں کہ ان کے بیٹے تعلیم حاصل کریں۔ سیڑھیوں سے گرنے کے بعد انہوں نے 2 ماہ پشاور میں واقع فالج سے بحالی کے مرکز میں گزارے۔ اب وہ وہیل چیئر پر بیٹھ کر صرف گھریلو کام ہی کرسکتی ہیں۔ انہوں نے خود کو ایس ڈبلیو ڈی میں رجسٹر کروایا ہوا ہے اور 2 مرتبہ مالی معاونت کے لیے درخواست بھی دے چکی ہیں لیکن انہیں اب تک کوئی امداد نہیں ملی ہے۔
’دی خیبر پختونخوا ڈیزرونگ ویڈوز اینڈ اسپیشل پرسنز ویلفیئر فاؤنڈیشن ایکٹ‘، (2014ء کا ایکٹ نمبر 6) 22 جنوری 2014ء کو پاس ہوا تھا۔ اس کا مقصد صوبے میں موجود بیواؤں اور معذوروں کو تربیت، آلات اور جگہ فراہم کرکے ان کے لیے چھوٹے کاروبار میں مدد دینا تھا۔ لیکن اسے اب تک شانگلہ میں نافذ نہیں کیا گیا ہے۔
ایسے مایوس کن حالات میں کہ جہاں حکومتی پالیسیوں اور ان کے نفاذ میں ایک نا ختم ہونے والا خلا موجود ہے وہاں میاں کالے کے 35 سالہ حسین علی کی طرح کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنی معذوری کے باوجود دوسروں کی مدد کر رہے ہیں۔ حسین کی ریڑھ کی ہڈی بھی متاثر ہے۔ 2016ء میں چراٹ کی 100 فٹ گہری کوئلے کی کان کا ایک حصہ حسین کے اوپر گرگیا۔ انہیں پشاور کے لیڈی ریڈنگ اسپتال میں ہوش آیا۔
کچھ دنوں بعد پشاور کے ایک نجی اسپتال میں ان کی ریڑھ کی ہڈی کا آپریشن ہوا۔ ان کے گھر والے نجی اسپتال کے اخراجات برداشت کرسکتے تھے اور چاہتے تھے کہ ان کا بہترین علاج کیا جائے۔ علاج کے بعد جب حسین اپنے گاؤں پہنچے تو ان سے اپنے گھر تک کے 133 قدم چڑھے نہیں گئے۔ وہ اب بھی اسی گھر میں رہتے ہیں اور ان کے بھائی آنے جانے میں ان کی مدد کرتے ہیں، کبھی وہیل چیئر پر اور کبھی اس کے بغیر۔
حسین کو قریب ہی واقع اپنی دکان تک پہنچنے کے لیے بھی کسی کی مدد درکار ہوتی ہے۔ انہوں نے اپنی بحالی کے بعد عروسی جوڑوں، جوتوں اور کاسمیٹکس کی دکان کھولی تھی۔
حسین نے اپنے کچے مکان کے باہر وہیل چیئر پر بیٹھے ہوئے کہا کہ ’اس چوٹ سے پہلے میں کانوں میں حادثے کا شکار افراد سے ملتا تھا جو مجھے بتاتے تھے کہ ان کی زندگی کتنی مشکل ہے۔ اس وقت میں نے ان کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے کا فیصلہ کیا‘۔
حسین نے شانگلہ میں ریڑھ کی ہڈی میں چوٹ کے شکار 200 افراد کا ڈیٹا جمع کیا ہے۔ ان میں سے اکثر کے بچے اور گھر والے ہیں اور وہ مالی مشکلات کا شکار ہیں۔ وہ اس ڈیٹا کا استعمال ایس ڈبلیو ڈی اور ڈپٹی کمشنر کو دی گئی درخواستوں کی حمایت میں استعمال کرتے ہیں۔ معذور افراد کی مدد کرنے کے علاوہ حسین تقریباً 25 طلبہ کو اپنے گھر میں بلا معاوضہ پڑھاتے ہیں۔
حال ہی میں علی نے سوشل میڈیا پر ایک مہم کا آغاز کیا ہے جس میں وہ اہلِ خیر افراد سے شانگلہ کے معذور افراد کے لیے مالی معاونت اور وہیل چیئرز کی فراہمی کی اپیل کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب تک آنے والا ردِعمل اگرچہ بہت محدود ہے، لیکن مثبت ہے۔
خیبر پختونخوا کے وزیر برائے محنت اور ثقافت شوکت یوسف زئی شانگلہ سے ہی صوبائی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والوں کی فلاح و بہبود کے علاوہ ان کا ارادہ ہے کہ شانگلہ کو وزیرِاعظم کے احساس پروگرام کی اسکیموں میں شامل کرنے کے لیے سماجی بہبود کے وزیر کے ساتھ ملاقات کریں گے۔ اس طرح شانگلہ کے معذور افراد کو بھی احساس پروگرام کے ذریعے مالی امداد فراہم کی جاسکے گی۔
لیکن شانگلہ سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن علی بحش خان کا کہنا ہے کہ مالی امداد شانگلہ کے معذور افراد کی مشکلات کا حل نہیں ہے۔ ’حکومت کو چاہیے کہ اس طبقے کو ہنر سکھانے کے لیے تربیتی پروگرام کا انعقاد کرے۔ اس طرح یہ لوگ اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے روزی کما سکیں گے‘۔
اتفاقاً، ستمبر 2019ء میں پاکستان جرنل آف میڈٰکل سائنسز نے خیبر پختونخوا کے 16 سرکاری محکموں اور ’فرینڈز آف پیراپلیجکس‘ کے رضاکاروں کے ذریعے حاصل ہونے والے اعداد و شمار پر مبنی تحقیق شائع کی جس نے حکومتی بے حسی کو عیاں کردیا۔
تحقیق کے مطابق ایک لاکھ 71 ہزار 173 سرکاری ملازمین میں سے صرف ایک ہزار 151 (یا 0.67 فیصد) ہی معذور افراد تھے لیکن کسی بھی سرکاری ادارے نے معذور افراد کے لیے مختص 2 فیصد کوٹے کو پورا نہیں کیا۔
یہ مضمون 7 مارچ 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
عمر باچا ایک نوجوان صحافی ہیں۔ گزشتہ 9 سال سے شمالی علاقہ جات کی رپورٹنگ کرتے رہتے ہیں۔ تعلیم, ثقافت اور سیاحت کے حوالے سے رپورٹنگ میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ 2016 سے روزنامہ ڈان کے ساتھ ضلعی نمائندہ شانگلہ کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔